بلوچ مزاحمتی تحریک سی پیک کے لیے خطرہ نہیں چین

سی پیک پر 10 ہزار چینی باشندے کام کر رہے ہیں جن کے تحفظ کے لیے پاکستان کے اقدامات سے مطمئن ہیں۔


ویب ڈیسک February 02, 2018
بلوچ مزاحمت کار حقیقی پاکستانی نہیں، اگر وہ حقیقی پاکستانی ہوتے تو وہ پاکستان کے قومی مفاد میں سوچتے، چینی سفیر، فوٹو: بشکریہ بی بی سی

KARACHI: چینی سفیر یاؤ ژینگ نے کہا ہے کہ بلوچ مزاحمتی تحریک اب پاکستان چین اور سی پیک کے لیے خطرہ نہیں کیوں کہ پاکستان میں امن و عامہ کی صورتحال پہلے سے بہتر ہوئی ہے۔

بی بی سی کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں متحرک بلوچ کالعدم تنظیموں نے بارہا نہ صرف سی پیک کے خلاف بیانات دیے ہیں بلکہ کئی مرتبہ سی پیک پر کام کرنے والے مزدوروں پر حملوں کا دعویٰ بھی کیا ہے تاہم اب صورتحال پہلے سے بہتر ہے ہم سو فیصد پر اُمید ہیں کہ گوادر بندرگاہ ایک بین الاقوامی تجارتی مرکز بننے کے قریب ہے۔

چینی سفیر نے کہا ہے کہ بلوچ مزاحمت کارحقیقی پاکستانی نہیں اگر وہ حقیقی پاکستانی ہوتے تو وہ پاکستان کے قومی مفاد میں سوچتے، سی پیک منصوبے کے لیے پاکستان میں لگ بھگ 10 ہزار چینی باشندے کام کر رہے ہیں اور اُن کے تحفظ کے لیے وہ پاکستان کے اقدامات سے مطمئن ہیں جب کہ سی پیک منصوبے میں 60 ہزار کے قریب پاکستانی بھی کام کر رہے ہیں۔

چینی سفیر کا کہنا ہے کہ سی پیک ابھی پہلے مرحلے میں ہے جس میں اب تک 21 منصوبوں پر کام جاری ہے جبکہ لگ بھگ 20 مزید منصوبے پائپ لائن میں ہیں، سی پیک ہمسایہ ملک افغانستان سمیت خطے کے دوسرے ممالک تک پھیلایا جائے گا۔

یاؤ ژینگ کا کہنا تھا کہ چین دونوں ہمسایہ ممالک پاکستان اور افغانستان کے ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے اور افغانستان میں مفاہمتی عمل کے لیے بھی کوشاں ہے۔

چین کے طالبان سے رابطوں کے سوال پر چینی سفیر نے کہا کہ چین کا افغان طالبان پر کوئی اثر و رسوخ نہیں تاہم چین کے قطر میں موجود طالبان کے سیاسی دفتر کے ساتھ رابطے ہیں اور چین نے افغان طالبان سے بار بار مذاکرات میں حصہ لینے کی درخواست کی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں