عوام کیوں خاموش ہیں
اخلاقی پستی کا عالم یہ ہے کہ معصوم بچوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ ناقابل بیان ہی ہے۔
یادش بخیر یہ ذکر ہے 1989 کا جب ایک ڈراما پیش کیا گیا تھا۔ اگر میں نام ٹھیک لکھ رہا ہوں تو اس ڈرامے کا نام تھا ''جرم اور سزا '' اس ڈرامے کا ایک کردار تھا سہیل جوکہ ایک سیاسی کارکن ہوتا ہے، ایسا سیاسی کارکن جوکہ ترقی پسند نظریات رکھتا ہے اور غیر شادی شدہ ہوتا ہے، یہ کردار نامور اداکار خیام سرحدی نے بحسن خوبی ادا کیا تھا۔
چنانچہ اس ڈرامے کے ایک سین میں خیام سرحدی سے نامور اداکار فردوس جمال جوکہ خیام سرحدی کا دوست ہوتا ہے خیام سرحدی سے اصرار کرتے ہوئے کہتاہے کہ '' یار سہیل تم بھی اب شادی کرلو'' جواب میں خیام سرحدی پیار سے فردوس جمال کے گال پر ایک چپت رسید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ '' میں شادی توکرلوں مگر کیا یہ دنیا اس قابل ہے کہ میرے بچے اس دنیا میں سکون سے رہ سکیں؟'' مطلب یہ کہ خیام سرحدی اس وقت کے حالات سے مطمئن نہیں ہوتا۔ جب کہ اس وقت ہمارے سماج میں کیفیت یہ تھی کہ چھوٹی موٹی چوری چکاری ضرور ہوتی تھی البتہ بڑی بڑی ڈکیتیاں شاذ و نادر ہی ہوتی تھیں۔
بڑی بڑی ڈکیتیاں بھی دو چار لاکھ روپے کی رقم سے زائد نہ ہوتی تھیں اس وقت رشوت خوری میں بھی ایک ہی محکمے کا نام لیا جاتا تھا اور وہ محکمہ تھا پولیس کا۔ جب کہ دیگر محکموں کا حال یہ تھا کہ وہاں بیٹھے افسران و نچلا عملہ کسی حد تک آنے والے سائلین کو مطمئن کردیتا تھا اور کسی حد تک خوش اخلاقی سے بھی پیش آتا تھا۔
اس وقت لوگ ٹارگٹ کلنگ یا نشانہ وار قتل کی وارداتوں سے بھی ناواقف ہی تھے البتہ کراچی وحیدرآباد میں مخصوص سیاسی حالات کے باعث قوم پرستی کا عنصر نمایاں ضرور تھا جس کے باعث ان دونوں شہروں میں قتل وغارت گری کا بازار گرم تھا ملک کی مجموعی صورتحال ٹھیک ہی تھی۔ اس وقت لوگ خودکش بم دھماکوں جیسی اصطلاح سے بھی سو فی صد ناواقف ہی تھے اس وقت بھی غربت ضرور تھی البتہ عام لوگ پھر بھی اپنی ضروریات کا سامان کر ہی لیتے تھے۔
اس وقت ملک کی کل آبادی تھی کوئی 12 کروڑ اور اس وقت حکومت کے یا ملکی قرضوں کا بوجھ تھا 14 ارب ڈالر یعنی اگر ریاستی قرضوں کو ہر ایک شہری پر تقسیم کیا جاتا تو ہمارے ملک کا ہر ایک شہری قریب قریب 11 سو روپے کا مقروض تھا اور اس وقت پاکستانی کرنسی کی قدر و قیمت یہ تھی کہ ایک امریکی ڈالر پاکستانی کرنسی میں 30 سے 32 روپے تک اپنی قیمت رکھتا تھا جب کہ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کی کرنسی کی قدر و قیمت قریب قریب مساوی تھی یعنی آپ ایک روپے پاکستانی کرنسی میں دیں متبادل میں آپ کو ایک روپے ہندوستانی کرنسی میں وصول ہوجائے گا۔
پیار و محبت میں ناکامی پر پورے ایک برس میں چند مجنوں خود سوزی کرکے اپنی زیست کا خاتمہ ضرور کرلیتے تھے، البتہ خود سوزی جیسے عمل میں معاشی بد حالی کا عمل دخل قدرے کم ہی ہوتا تھا یا نہ ہونے کے برابر تھا۔ آج جب میں یہ سطور قلم بند کررہاہوں 1989 کو بیتے 29 برس ہوچکے ہیں۔
اس عرصے میں ملک میں پانچ صدور اپنی صدارتی مدت پوری کرچکے ہیں۔ ملک کے چھٹے صدر اس برس اپنی مدت پوری کریںگے جب کہ ملک میں 11 ویں وزیراعظم، وزیراعظم ہاؤس میں تشریف فرما ہیں یوں بھی ہمارے ملک کے وزیرعظم یا تو PM ہاؤس میں ہوتے ہیں غیر ملکی دوروں پر البتہ اپنے عوام میں جانا فقط عام انتخابات کے وقت ہی پسند فرماتے ہیں۔
اپنی حکومتی مدت کے درمیان نہیں یہ بات دیگر ہے کہ ان 11 وزرائے اعظم میں سے کسی ایک نے بھی اپنی پانچ سالہ حکومتی مدت پوری نہیں کی ان 11 وزرائے اعظم کے علاوہ پانچ نگران وزرائے اعظم کو بھی حق حکمرانی نصیب ہوا اس کے باوجود آج ہمارے ملک میں کیفیت یہ ہے کہ اس وقت چھوٹی موٹی چوری چکاری کرنا جرائم پیشہ لوگ تقریباً بھول چکے ہیں اب سر راہ لوگوں کے ہجوم میں شہریوں کو موبائل فون، نقدی و ضروری دستاویزات سے محروم کردیا جاتا ہے اور ہجوم میں سے ایک آدمی بھی آگے بڑھ کر لٹیروں سے مزاحمت کرنے کی جسارت نہیں کرتا، جس کی ایک مثال کورنگی کی نامور سماجی شخصیت حکیم سید نور الحق ہیں جنھیں ان کی گھر کی چوکھٹ پر کثیر رقم و ضروری دستاویزات سے محروم کردیاگیا جب کہ ان پر فائرنگ بھی ہوئی جس سے محفوظ رہے البتہ حکیم صاحب و ان کے اہل خانہ اس واقعے کے چھ روز بعد بھی خوف کی کیفیت سے دو چار ہیں جب کہ اس قسم کی ایک واردات میں نامور سیاسی رہنما و سماجی شخصیت رشید تاج کو 62 ہزار روپے کی خطیر رقم سے محروم ہونا پڑا۔ وہ بھی اس بینک کے سامنے جہاں سے وہ رقم نکلواکر لائے تھے۔ یہ تو چھوٹی سی دو مثالیں ہم نے دیں۔
اخلاقی پستی کا عالم یہ ہے کہ معصوم بچوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ ناقابل بیان ہی ہے۔ قصور کی زینب، مردان کی اسماء، کوئٹہ کی طیبہ رانی کے ساتھ جو ہوا اس نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا ہے، اشرافیہ کی اولادیں سر بازار فائرنگ کرکے جس معصوم کی چاہیں جان لے لیں، زین کیس ہمارے سامنے ہے، انصاف کب ہوگا؟ ایسے کیسز میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا۔
محکمہ پولیس میں رشوت ستانی کا عالم یہ ہے کہ ASI کے عہدے پر بھرتی ہونے والا جب ملازمت سے ریٹائرڈ ہوتا ہے تو اربوں کی جائیداد کا ملک تھا، البتہ ریٹائرمنٹ کے وقت وہ صاحب بحیثیت DSP ریٹائرڈ ہوئے تھے، ٹارگٹ کلنگ یا نشانہ وار قتل کرنے جیسی وارداتوں میں کسی حد تک کمی واقع ضرور ہوئی ہے، البتہ اس عمل کا خاتمہ نہیں ہوا اس وقت خودکش بم دھماکوں جیسے دہشت گردی کے واقعات میں گزشتہ 17 برسوں میں ہمارے 70 ہزار عام شہری و لگ بھگ آٹھ سے دس ہزار سیکیورٹی اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔
پاکستانی کرنسی کی قدر و قیمت یہ ہے کہ امریکی ڈالر 112 روپے کا ہوچکا ہے ہندوستانی روپیہ اب ایک روپیہ اسی پیسے میں دستیاب ہے خود سوزی عام سی بات ہے باعث اس کا معاشی تنگ دستی ہے۔ قریب قریب یومیہ دس افراد ماہانہ تین سو و سالانہ چھتیس سو افراد خود سوزی کرکے اپنی زیست کا خاتمہ کررہے ہیں جب کہ تعلیمی میدان میں ہمارا سماج مسلسل تنزلی کی جانب رواں دواں ہے۔
ریاستی قرضوں کا عالم یہ ہے کہ اس وقت ہر پاکستانی پر اگر قرضوں کا بوجھ تقسیم کیا جائے تو ہر پاکستانی ایک لاکھ 12 ہزار روپے کا مقروض ہے اس تمام تر کیفیت کے باوجود ہمارے حکمرانوں کی جانب سے گزشتہ 70 برس ایک ہی نوید سنائی جاتی ہے کہ ملک ترقی کی راہ پرگامزن ہے۔ ملک کی معیشت ترقی کررہی ہے ملک سے غربت کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے نام نہاد ترقی کے دعوؤں کے بعد اچھے خاصے سنجیدہ مزاج لوگوں کو بھی '' ہاسا'' ہی آجاتا ہے۔
بہرکیف اپنے مضمون کا آغاز ہم نے ایک ڈرامے میں ہونے والی گفتگو سے کیا تھا اختتام بھی ہم چاہیںگے ایک ڈرامے کی گفتگو سے کریں۔ کوئی 20 برس قبل ایک ڈراما پیش ہوا تھا جس میں ایک لالچی شخص کا کردار مرحوم انتظار حسین نے کیا تھا۔اس ڈرامے میں انتظار حسین ڈرامے کے دوسرے کردار عشرت ہاشمی سے ان کا گھر ہتھیانا چاہتا ہے۔ عشرت ہاشمی ضعیف العمر ہونے کے باوجود پوری قوت سے مزاحمت کرتی ہیں اور بالآخر اپنا گھر بچانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔
اس موقعے پر انتظار حسین کہتا ہے کہ میں حیران ہوں میں ایک کمزور سی بڑھیا سے اس کا گھر نہ چھین سکا البتہ اس ملک کے 14 کروڑ وارث ہیں اور اس ملک کو چند لوگ شب و روز لوٹ رہے ہیں اور یہ 14 کروڑ اس ملک کے وارث خاموش ہیں آخر کیوں؟ آپ بھی غور فرمایئے گا آخر کیوں خاموش ہیں؟ کیا یہ دنیا اس قابل ہے کہ ہمارے بچے اس دنیا میں پرسکون زندگی بسر کرسکیں؟