پاکستان اسٹیل کی بربادی
پاکستان اسٹیل ملز کی حقیقی تباہی کا آغاز پیپلز پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہوا۔
چالیس ہزار سے زاید ملازمین رکھنے والی پاکستان اسٹیل ملز نچلی سطح پر روزگار کی فراہمی کا ذریعہ تھی۔ ملکی معیشت کے استحکام میں اس کا کردار انتہائی اہم رہا۔ ماضی و حال کی حکومتیں پاکستان اسٹیل ملز کی صلاحیتوں کو بروئے کار تو کیا لاتیں اس کے برعکس ان کی نااہلیوں سے یہ ادارہ جو کبھی ملک کے بیش قیمت اثاثوں میں شمار ہوتا تھا، آج معیشت پر بھاری بوجھ بن چکا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل صبیح قمرالزمان جنوری 1992ء میں جب پاکستان اسٹیل ملز کے چیئرمین بنے تو سیاسی جماعتوں کی حمایت یافتہ لیبر یونینز کی سرگرمیاں اور غیر ضروری بھرتیاں انتظامیہ کے لیے چلینج کی صورت اختیار کرچکی تھیں۔ یونین کی سرگرمیاں محدود کرنے کے ساتھ لیفٹننٹ جنرل صبیح نے اوور ٹائم، سہولیات، میڈیکل اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کے نظام میں اصلاحات کیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف 18ماہ میں ادارے کے ماہانہ اخراجات 22کروڑ 30لاکھ روپے سے کم ہوکر ساڑھے 16 کروڑ ہوگئے۔
1994ء میں اسٹیل ملز کی 95 فی صد پیداواری صلاحیت کو بروئے کار لایا گیا اور دس لاکھ ٹن کی سال میں ریکارڈ پیداوار حاصل کی گئی۔ لیفٹیننٹ جنرل صبیح کی کامیابیوں کے باجود اپ گریڈیشن کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا۔ 1999ء کے بعد یہ اہم ترین ادارہ تیزی سے زوال پذیر ہوا۔
مئی 2006ء میں ملازمین، یونینز اور سول سوسائٹی کے حلقوں کی جانب سے احتجاج کے بعد سپریم کورٹ نے پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری روک دی۔ احتجاج کرنے والوں کا مؤقف تھا کہ اسٹیل ملز کی فروخت جلد بازی میں کی جارہی ہے اور منافع کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔
پاکستان اسٹیل ملز کی حقیقی تباہی کا آغاز پیپلز پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہوا جب آصف زرداری کے قریبی ساتھی عثمان فاروقی کو اس کا چیئر مین مقرر کیا گیا۔یوں جو ادارہ پہلے ہی تباہی کے دہانے پر آچکاتھا، بالکل ہی بیٹھ گیا' کرپشن کر کے سودوں میں قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزیاں کی گئیں اور سپلائرز کے ساتھ انتہائی مہنگے داموں معاہدے کیے گئے جس سے کمیشن اور رشوت ستانی کے راستے کھلے۔
واشنگٹن پوسٹ میں 19اگست 1996ء کو "Beleaguered Benazir Bhutto" کے عنوان سے شایع ہونے والی کینتھ جے کوپر اور کامران خان کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق:''پاکستان اسٹیل کے اعلی افسران کی دو رپورٹس کے مطابق فاروقی کے چیئرمین بننے کے ابتدائی آٹھ ماہ میں کم قیمتوں پر ایسے سودے کیے گئے جن سے ادارے کو 14کروڑ ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ مثلاً جنوری میں اہم ترین مصنوعات کے سودے بازار میں جاری قیمتوں سے ایک تہائی کم نرخوں پر کیے گئے جس سے ادارے کو 60 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔ مئی میں پاکستان اسٹیل نے کراچی کے پانچ سپلائرز سے سات لاکھ ڈالر میں پانچ انتہائی مہنگے آلات خریدے جب کہ ان کی اصل قیمت محض چار ہزار ڈالر تھی۔''
قومی احتساب بیورو نے عثمان فاروقی کے دور سے متعلق 23 معاملوں میں تحقیقات کا آغاز کیا جن میں سے اختیارات کے غلط استعمال کے خلاف 18ریفرنس تیار کیے گئے۔ آخر کار انھیں سات سال قید بامشقت کی سزا دی گئی اور دو ریفرنسز میں 21برس کے لیے ناہل قرار دیا گیا۔ دو ریفرنسز میں فاروقی پلی بارگین کرکے غیر قانونی ذرایع سے حاصل کردہ 33کروڑ کے اثاثوں سے دست بردار ہوئے۔ بعد میں فاروقی نے عدالت سے ضمانت پر رہائی حاصل کی اور منظر سے غائب ہو گئے اور بیرون ملک چلے گئے۔
فوجواری مقدمات میں نام زد ہونے کے باوجود ان کا ملک سے نکل جاناکسی بااثر شخص کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اگر وہ پاکستان ہی میں موجود رہے تو بھی متعلقہ حکام انھیں کیوں تلاش نہیں کر سکے؟ کئی برس وہ نظروں سے اوجھل رہنے میں کیسے کام یاب رہے یہ آج تک معمہ ہے۔
ایک جامع اور ہمہ جہت حکمت عملی ترتیب دے کر پاکستان اسٹیل کی نج کاری کے لیے ممکنہ سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ حکمت عملی حکومت کی حصص سے دستبرداری، انتظامی امور کی تفویض، اثاثوں کی فروخت جیسے نکات پر مشتمل ہونی چاہیے۔
نج کاری کے بعد ادارے کی فعالی یقینی بنانے کے لیے مجموعی ڈھانچے کی تشکیل نو ناگزیر ہوچکی ہے۔ اپنے محل وقوع کے سبب پاکستان اسٹیل کی اراضی کی قیمت اور تربیت یافتہ افرادی قوت وہ مثبت پہلو ہیں جو نج کاری کے منافع بخش معاہدے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ انتخابات کا سال ہے، معاملہ سیاست کی نذر نہ ہو اس لیے ملازمین کے لیے پُرکشش پیکیج کا اعلان بھی ضروری ہے۔
لیفٹیننٹ کرنل محمد افضل خان نے 1999ء میں پاکستان اسٹیل کی سربراہی سنبھالی، ابھی انھوں نے اصلاحات کی ابتدا ہی کی تھی کہ زندگی نے انھیں مہلت نہ دی۔ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم کو جب پاکستان اسٹیل میںذمے داریاں سونپی گئیں تو ادارہ بدعنوانی کے الزامات کی زد میں تھا۔ بد انتظامی اور مطلوبہ سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث پاکستان اسٹیل ملز تباہ حالی کی تصویر بن چکی تھی۔
جنرل قیوم نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، ادارے کے قرضے ختم کیے اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے ساتھ معاہدہ طے کیا۔ لیکن یونٹس چوں کہ بہت پرانے ہو چکے تھے اور ان کی مرمت کی صورت حال بھی انتہائی ابتر تھی اس لیے تباہی کا عمل روکا نہیں جاسکا۔
این آر او نے پاکستان اسٹیل کو لوٹ کر مال بنانے والوں کو قانون کے شکنجے سے فرار کا راستہ دیا۔ سپریم کورٹ نے این آر او کو خلاف آئین قرار دیا لیکن اس سے مستفید ہونے والے مقدمات سے بچ نکلنے میں کام یاب ہوئے۔ نیب نے گذشتہ برس دسمبر میں اعلان کیا تھا کہ '' ذمے داران کے تعین کے لیے پاکستان اسٹیل ملز کی تباہ حالی کی تحقیقات کی جائیں گی تاکہ یہ بھی معلوم کیا جاسکے کہ کہیں یہ تباہی کسی سوچی سمجھی سازش کا حصہ تو نہیں تھی۔'' جون 2015ء سے پاکستان اسٹیل ملز ٹھپ پڑی ہے، ہر ماہ اسے تقریباً 1.4ارب کا خسارہ ہورہا ہے۔ 2013ء میں جب ن لیگ برسر اقتدار آئی تو پاکستان اسٹیل کا خسارہ دوسو ارب تک ہو چکا تھا۔
پاکستان کے سب سے بڑے اور منافع بخش انڈسٹریل یونٹ کے زوال کی بنیادی ذمے داری کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کی جائیں تو عثمان فاروقی اپنے انتہائی بااثر پناہ دینے والے کی مدد کے بغیر نیب سے بچ نہیں سکتے۔ انھیں احتساب کے کٹہرے میں لاکر حقائق سامنے لائے جا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انھیں پناہ دینے والا کون ہے اور اس کے مقاصد کیا تھے؟
قانون کی گرفت سے نکلنے کے لیے فاروقی کی مدد کرنے والے شخص کی وجہ سے پاکستان کو غیر معمولی نقصان اٹھانا پڑا، اور آج بھی ایسے عناصر اقتدار کی راہ داریوں میں ہونے والے فیصلوں پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ نیب ایسے عناصر کو جوابدہ بنانے کے لیے کتنا پرُعزم ہے یا خاموشی اختیار کرلی جائے گی؟ مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کے لیے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ایک انتہائی طاقتور بیوروکریٹ پاکستان میں سرمایہ کاری کے مستقبل کے قلب میں موجود ٹائم بم کو کیوں تحفظ فراہم کررہا ہے، اس کے مقاصد کیا ہیں؟
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
لیفٹیننٹ جنرل صبیح قمرالزمان جنوری 1992ء میں جب پاکستان اسٹیل ملز کے چیئرمین بنے تو سیاسی جماعتوں کی حمایت یافتہ لیبر یونینز کی سرگرمیاں اور غیر ضروری بھرتیاں انتظامیہ کے لیے چلینج کی صورت اختیار کرچکی تھیں۔ یونین کی سرگرمیاں محدود کرنے کے ساتھ لیفٹننٹ جنرل صبیح نے اوور ٹائم، سہولیات، میڈیکل اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کے نظام میں اصلاحات کیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف 18ماہ میں ادارے کے ماہانہ اخراجات 22کروڑ 30لاکھ روپے سے کم ہوکر ساڑھے 16 کروڑ ہوگئے۔
1994ء میں اسٹیل ملز کی 95 فی صد پیداواری صلاحیت کو بروئے کار لایا گیا اور دس لاکھ ٹن کی سال میں ریکارڈ پیداوار حاصل کی گئی۔ لیفٹیننٹ جنرل صبیح کی کامیابیوں کے باجود اپ گریڈیشن کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا۔ 1999ء کے بعد یہ اہم ترین ادارہ تیزی سے زوال پذیر ہوا۔
مئی 2006ء میں ملازمین، یونینز اور سول سوسائٹی کے حلقوں کی جانب سے احتجاج کے بعد سپریم کورٹ نے پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری روک دی۔ احتجاج کرنے والوں کا مؤقف تھا کہ اسٹیل ملز کی فروخت جلد بازی میں کی جارہی ہے اور منافع کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔
پاکستان اسٹیل ملز کی حقیقی تباہی کا آغاز پیپلز پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہوا جب آصف زرداری کے قریبی ساتھی عثمان فاروقی کو اس کا چیئر مین مقرر کیا گیا۔یوں جو ادارہ پہلے ہی تباہی کے دہانے پر آچکاتھا، بالکل ہی بیٹھ گیا' کرپشن کر کے سودوں میں قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزیاں کی گئیں اور سپلائرز کے ساتھ انتہائی مہنگے داموں معاہدے کیے گئے جس سے کمیشن اور رشوت ستانی کے راستے کھلے۔
واشنگٹن پوسٹ میں 19اگست 1996ء کو "Beleaguered Benazir Bhutto" کے عنوان سے شایع ہونے والی کینتھ جے کوپر اور کامران خان کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق:''پاکستان اسٹیل کے اعلی افسران کی دو رپورٹس کے مطابق فاروقی کے چیئرمین بننے کے ابتدائی آٹھ ماہ میں کم قیمتوں پر ایسے سودے کیے گئے جن سے ادارے کو 14کروڑ ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ مثلاً جنوری میں اہم ترین مصنوعات کے سودے بازار میں جاری قیمتوں سے ایک تہائی کم نرخوں پر کیے گئے جس سے ادارے کو 60 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔ مئی میں پاکستان اسٹیل نے کراچی کے پانچ سپلائرز سے سات لاکھ ڈالر میں پانچ انتہائی مہنگے آلات خریدے جب کہ ان کی اصل قیمت محض چار ہزار ڈالر تھی۔''
قومی احتساب بیورو نے عثمان فاروقی کے دور سے متعلق 23 معاملوں میں تحقیقات کا آغاز کیا جن میں سے اختیارات کے غلط استعمال کے خلاف 18ریفرنس تیار کیے گئے۔ آخر کار انھیں سات سال قید بامشقت کی سزا دی گئی اور دو ریفرنسز میں 21برس کے لیے ناہل قرار دیا گیا۔ دو ریفرنسز میں فاروقی پلی بارگین کرکے غیر قانونی ذرایع سے حاصل کردہ 33کروڑ کے اثاثوں سے دست بردار ہوئے۔ بعد میں فاروقی نے عدالت سے ضمانت پر رہائی حاصل کی اور منظر سے غائب ہو گئے اور بیرون ملک چلے گئے۔
فوجواری مقدمات میں نام زد ہونے کے باوجود ان کا ملک سے نکل جاناکسی بااثر شخص کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اگر وہ پاکستان ہی میں موجود رہے تو بھی متعلقہ حکام انھیں کیوں تلاش نہیں کر سکے؟ کئی برس وہ نظروں سے اوجھل رہنے میں کیسے کام یاب رہے یہ آج تک معمہ ہے۔
ایک جامع اور ہمہ جہت حکمت عملی ترتیب دے کر پاکستان اسٹیل کی نج کاری کے لیے ممکنہ سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ حکمت عملی حکومت کی حصص سے دستبرداری، انتظامی امور کی تفویض، اثاثوں کی فروخت جیسے نکات پر مشتمل ہونی چاہیے۔
نج کاری کے بعد ادارے کی فعالی یقینی بنانے کے لیے مجموعی ڈھانچے کی تشکیل نو ناگزیر ہوچکی ہے۔ اپنے محل وقوع کے سبب پاکستان اسٹیل کی اراضی کی قیمت اور تربیت یافتہ افرادی قوت وہ مثبت پہلو ہیں جو نج کاری کے منافع بخش معاہدے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ انتخابات کا سال ہے، معاملہ سیاست کی نذر نہ ہو اس لیے ملازمین کے لیے پُرکشش پیکیج کا اعلان بھی ضروری ہے۔
لیفٹیننٹ کرنل محمد افضل خان نے 1999ء میں پاکستان اسٹیل کی سربراہی سنبھالی، ابھی انھوں نے اصلاحات کی ابتدا ہی کی تھی کہ زندگی نے انھیں مہلت نہ دی۔ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم کو جب پاکستان اسٹیل میںذمے داریاں سونپی گئیں تو ادارہ بدعنوانی کے الزامات کی زد میں تھا۔ بد انتظامی اور مطلوبہ سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث پاکستان اسٹیل ملز تباہ حالی کی تصویر بن چکی تھی۔
جنرل قیوم نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، ادارے کے قرضے ختم کیے اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے ساتھ معاہدہ طے کیا۔ لیکن یونٹس چوں کہ بہت پرانے ہو چکے تھے اور ان کی مرمت کی صورت حال بھی انتہائی ابتر تھی اس لیے تباہی کا عمل روکا نہیں جاسکا۔
این آر او نے پاکستان اسٹیل کو لوٹ کر مال بنانے والوں کو قانون کے شکنجے سے فرار کا راستہ دیا۔ سپریم کورٹ نے این آر او کو خلاف آئین قرار دیا لیکن اس سے مستفید ہونے والے مقدمات سے بچ نکلنے میں کام یاب ہوئے۔ نیب نے گذشتہ برس دسمبر میں اعلان کیا تھا کہ '' ذمے داران کے تعین کے لیے پاکستان اسٹیل ملز کی تباہ حالی کی تحقیقات کی جائیں گی تاکہ یہ بھی معلوم کیا جاسکے کہ کہیں یہ تباہی کسی سوچی سمجھی سازش کا حصہ تو نہیں تھی۔'' جون 2015ء سے پاکستان اسٹیل ملز ٹھپ پڑی ہے، ہر ماہ اسے تقریباً 1.4ارب کا خسارہ ہورہا ہے۔ 2013ء میں جب ن لیگ برسر اقتدار آئی تو پاکستان اسٹیل کا خسارہ دوسو ارب تک ہو چکا تھا۔
پاکستان کے سب سے بڑے اور منافع بخش انڈسٹریل یونٹ کے زوال کی بنیادی ذمے داری کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کی جائیں تو عثمان فاروقی اپنے انتہائی بااثر پناہ دینے والے کی مدد کے بغیر نیب سے بچ نہیں سکتے۔ انھیں احتساب کے کٹہرے میں لاکر حقائق سامنے لائے جا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انھیں پناہ دینے والا کون ہے اور اس کے مقاصد کیا تھے؟
قانون کی گرفت سے نکلنے کے لیے فاروقی کی مدد کرنے والے شخص کی وجہ سے پاکستان کو غیر معمولی نقصان اٹھانا پڑا، اور آج بھی ایسے عناصر اقتدار کی راہ داریوں میں ہونے والے فیصلوں پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ نیب ایسے عناصر کو جوابدہ بنانے کے لیے کتنا پرُعزم ہے یا خاموشی اختیار کرلی جائے گی؟ مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کے لیے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ایک انتہائی طاقتور بیوروکریٹ پاکستان میں سرمایہ کاری کے مستقبل کے قلب میں موجود ٹائم بم کو کیوں تحفظ فراہم کررہا ہے، اس کے مقاصد کیا ہیں؟
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)