خواتین ووٹرز کی تعداد 1 کروڑ 22 لاکھ سے کم ہے فافن
خواتین ووٹرز کی کم تعداد بڑھانے کیلیے اقدامات ناگزیر ہیں، رپورٹ
انتخابی نظام کا مشاہدہ کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فافن کے مطابق ملک بھر میں خواتین ووٹرز کی تعداد 1 کروڑ 22 لاکھ سے کم ہے۔
انتخابی نظام کا مشاہدہ کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فافن (فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک) اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مصدقہ ڈیٹا کے مطابق مردم شماری کے حالیہ نتائج کے مطابق 20 کروڑ77 لاکھ کی آبادی میں سے خواتین کی تعداد 10 کروڑ13 لاکھ ہے جن میں سے 4 کروڑ24 لاکھ خواتین کے ووٹ رجسٹر ہیں۔
''فافن'' کے مطابق ووٹر لسٹوں میں خواتین ووٹرز کی کم تعداد کو بڑھانے کیلیے خصوصی توجہ اور اقدامات ناگزیر ہیں۔ خواتین اور مرد رجسٹرڈ ووٹرز کے درمیان فرق کے حوالے سے پنجاب سب سے اہم ہے جہاں مردوں کے مقابلے خواتین ووٹرز کی تعداد 68 لاکھ کم ہے۔ صوبہ سندھ میں مردوں کے مقابلے میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کا تناسب 10 فیصد کم ہے جبکہ بلوچستان میں خواتین مردوں کے مقابلے میں 16 فیصد کم ہیں۔
خیبر پختونخوا کمی کا یہ تناسب 14 فیصد، قبائلی علاقہ جات میں8 فیصد اور اسلام آباد میں 8 فیصد ہے۔ اس مسلسل بڑھتے فرق کی اہم وجہ خواتین کے شناختی کارڈ کا سست روی سے بننا ہے اور اس حوالے سے نادرا کے بعض قوانین اور پابندیاں بھی رکاوٹ بنتی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے نادرا کے اشتراک سے 10 نومبر 2017 کو ایک مہم شروع کی ہے جس کے تحت 30 اپریل2018 ء تک زیادہ سے زیادہ تعداد میں خواتین کے شناختی کارڈ بنانا ہے اور نادرا خواتین کے شناختی کارڈ بلا معاوضہ بنائے گا اور جمعہ کا دن صرف خواتین کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی انتخابی فہرست کے مطابق مردوں کے مقابلے میں خواتین ووٹرز کی تعداد ایک کروڑ 22 لاکھ کم ہے اور اس حوالے سے پنجاب سر فہرست ہے جہاں68 لاکھ خواتین ووٹرز مردوں کی تعداد کے مقابلے کم رجسٹر ہیں۔ اگر 18برس سے زائد عمر کی غیرجسٹرڈ خواتین کو بھی شامل کیا جائے تو ملک بھر میں 3 کروڑ خواتین حق رائے دہی سے محروم ہیں۔
''فافن'' کے مطابق وہ ملک کے 103 اضلاع کے 22 ہزار مردم شماری بلاک کوڈز کے ذریعے غیر رجسٹرڈ خواتین ووٹرز تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انتخابی نظام کا مشاہدہ کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فافن (فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک) اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مصدقہ ڈیٹا کے مطابق مردم شماری کے حالیہ نتائج کے مطابق 20 کروڑ77 لاکھ کی آبادی میں سے خواتین کی تعداد 10 کروڑ13 لاکھ ہے جن میں سے 4 کروڑ24 لاکھ خواتین کے ووٹ رجسٹر ہیں۔
''فافن'' کے مطابق ووٹر لسٹوں میں خواتین ووٹرز کی کم تعداد کو بڑھانے کیلیے خصوصی توجہ اور اقدامات ناگزیر ہیں۔ خواتین اور مرد رجسٹرڈ ووٹرز کے درمیان فرق کے حوالے سے پنجاب سب سے اہم ہے جہاں مردوں کے مقابلے خواتین ووٹرز کی تعداد 68 لاکھ کم ہے۔ صوبہ سندھ میں مردوں کے مقابلے میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کا تناسب 10 فیصد کم ہے جبکہ بلوچستان میں خواتین مردوں کے مقابلے میں 16 فیصد کم ہیں۔
خیبر پختونخوا کمی کا یہ تناسب 14 فیصد، قبائلی علاقہ جات میں8 فیصد اور اسلام آباد میں 8 فیصد ہے۔ اس مسلسل بڑھتے فرق کی اہم وجہ خواتین کے شناختی کارڈ کا سست روی سے بننا ہے اور اس حوالے سے نادرا کے بعض قوانین اور پابندیاں بھی رکاوٹ بنتی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے نادرا کے اشتراک سے 10 نومبر 2017 کو ایک مہم شروع کی ہے جس کے تحت 30 اپریل2018 ء تک زیادہ سے زیادہ تعداد میں خواتین کے شناختی کارڈ بنانا ہے اور نادرا خواتین کے شناختی کارڈ بلا معاوضہ بنائے گا اور جمعہ کا دن صرف خواتین کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی انتخابی فہرست کے مطابق مردوں کے مقابلے میں خواتین ووٹرز کی تعداد ایک کروڑ 22 لاکھ کم ہے اور اس حوالے سے پنجاب سر فہرست ہے جہاں68 لاکھ خواتین ووٹرز مردوں کی تعداد کے مقابلے کم رجسٹر ہیں۔ اگر 18برس سے زائد عمر کی غیرجسٹرڈ خواتین کو بھی شامل کیا جائے تو ملک بھر میں 3 کروڑ خواتین حق رائے دہی سے محروم ہیں۔
''فافن'' کے مطابق وہ ملک کے 103 اضلاع کے 22 ہزار مردم شماری بلاک کوڈز کے ذریعے غیر رجسٹرڈ خواتین ووٹرز تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔