لال مسجد انتظامیہ کے القاعدہ اور دہشت گرد تنظیموں سے رابطے تھے حکومتی رپورٹ
مسجدکے اندربمباردیکھے گئے تھے،انتظامیہ،مسلح افراداور ڈنڈا برادروں نے دہشت اورسخت خوف وہراس کا ماحول پیداکررکھاتھا
لال مسجدکمیشن کوحکومتی اداروں نے بتایاہے کہ لال مسجدانتظامیہ کے القاعدہ اور دہشتگردتنظیموں کے ساتھ روابط تھے،مصرسے تعلق رکھنے والے القاعدہ کے اہم لیڈرشیخ عیسیٰ نے پاکستان کیخلاف اعلانِ جنگ کررکھاتھا،2003میں پاکستان آیااورجن لوگوں سے ملاقات کی ان میں لال مسجدکے منتظم دونوں بھائی مولانا عبدالعزیزاورعبدالرشیدغازی بھی شامل تھے۔
لال مسجد انتظامیہ کے القاعدہ کے اہم لیڈر(جس میں ایمن الظواہری ،یلدِیشوشامل ہیں)کے ساتھ بھی گہرے مراسم تھے۔منگل کو لال مسجد کمیشن کے ذمے دار ذرائع نے بتایا کہ کمیشن کو بتایاگیاکہ10فروری 2007کوحساس ادارے کی طرف سے ارسال کی گئی رپورٹ میں یہ انکشاف کیاگیاتھاکہ ایک دہشتگرد اسماعیل جوکہ لال مسجدکے اندرموجودہے نے بیت اﷲ محسودسے مدد کی درخواست کی اور2افرادکو جنوبی وزیرستان روانہ کیاگیاہے۔
تاکہ وہ اسلحہ بارودلاسکیں،3فروری کوایک اوررپورٹ میں انکشاف کیاگیاکہ آج صبح ایک خودکش حملہ آورکولال مسجدکی حدود میں دیکھاگیا،حکومتی اداروں نے بتایاکہ اس کے علاوہ قانون کوہاتھ میں لینے اور لوگوں کوہراساں کرنے کے جرم میںجنوری2007سے جون تک لال مسجدانتظامیہ اورمدرسے کے طلباکیخلاف38مقدمات درج ہوئے،لال انتظامیہ مسلح طلباکے زور پرعلاقے میں خوف وہراس پھیلا رہی تھی۔
3جنوری 2007 کوتھانہ آبپارہ کے سب انسپکٹر کی مدعیت میں آبپارہ کے رہائشی زوارحسین نے مقدمہ درج کرایاکہ رات 10 بجے آبپارہ کمیونٹی سینٹرمیں شادی کی تقریب جاری تھی کہ لال مسجد کے 100 سے 150 طلباجن میں سے 4یا 5 کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھی اورباقی ڈنڈوں اور کچھ پستولوں سے مسلح تھے کمیونٹی سینٹرمیں آئے اورلوگوں کو دھمکی دی پٹاخے بندکردو ورنہ شادی والے گھرکوماتم کدہ بنادیں گے،اسی دوران مولانا عبدالعزیزنے لاؤڈاسپیکرپر اعلان کیاکہ دولہاکواٹھا کر مسجد میں لے آؤ۔6اپریل کوایک اورایف آئی آردرج کروائی گئی کہ لال مسجد کے طلبانے سڑک کو دونوں اطراف سے بند کردیاہے۔
جبکہ مولانا عبدالعزیز بارباراسپیکرپراعلان کررہے ہیں کہ ہم حکومت کونہیں مانتے اور نفاذ شریعت کااعلان کرتے ہیں اورہم بزورقوت حکومتی مشینری سے لڑکررہیں گے،3جولائی کواسسٹنٹ انسپکٹرجنرل پولیس(اسپیشل برانچ)کی ایک رپورٹ میں کہاگیامسلح طلبالال مسجد کے اندر سے آئے اور موقع پر موجود ایک انسپکٹراور8مسلح جوانوں سے ہاتھاپائی کرکے4عدداسمال مشین گنیں چھین کرفرارہوگئے،مسلح افراد مورچوں میں موجودتھے اور لال مسجد کی انتظامیہ لاؤڈاسپیکرپرفدائین کو تیار رہنے کے اعلانات کررہی تھی۔
اسی دوران لال مسجدسے فائرنگ ہوئی اوررینجرز کے لانس نائیک مبارک حسین کوشہیدکردیاگیا۔حساس اداروں کی طرف سے5 ماہ کے دوران جنوری سے جون تک لگ بھگ100 سے زائد مواقع پر اطلاع دی گئی جہاں لال مسجد کی انتظامیہ نے اسلحے کے زور پر عوام الناس کوہراساں کیا،قتل و غارت گری،فتنہ گیری اوراسی نوع کے مختلف واقعات کیے،حکومتی اداروں نے کمیشن کوبتایا کہ 3جولائی2007 کے واقعے کے بعد ضلع مجسٹریٹ نے حکومت سے درخواست کی کہ حالات پولیس کے کنٹرول سے باہرنکل گئے لہٰذافوج طلب کی جائے۔
بعدازاں وزارت داخلہ نے بھی وزارت دفاع سے لال مسجد کے اطراف امن وامان کی بحالی کے لیے فوج طلب کرنے کہا تھا۔ ذرائع کے مطابق حکومتی اداروں نے لال مسجدکمیشن کواپنی رپورٹ میں مرحوم صحافی سلیم شہزاد کی القاعدہ اورطالبان کے بارے میں لکھی گئی کتاب کے بعض حصے بھی شامل کیے ہیں جن میں سلیم شہزادنے لال مسجدانتظامیہ کے القاعدہ اورطالبان سے قریبی تعلقات کے بارے میں انکشاف کیاتھا۔
لال مسجد انتظامیہ کے القاعدہ کے اہم لیڈر(جس میں ایمن الظواہری ،یلدِیشوشامل ہیں)کے ساتھ بھی گہرے مراسم تھے۔منگل کو لال مسجد کمیشن کے ذمے دار ذرائع نے بتایا کہ کمیشن کو بتایاگیاکہ10فروری 2007کوحساس ادارے کی طرف سے ارسال کی گئی رپورٹ میں یہ انکشاف کیاگیاتھاکہ ایک دہشتگرد اسماعیل جوکہ لال مسجدکے اندرموجودہے نے بیت اﷲ محسودسے مدد کی درخواست کی اور2افرادکو جنوبی وزیرستان روانہ کیاگیاہے۔
تاکہ وہ اسلحہ بارودلاسکیں،3فروری کوایک اوررپورٹ میں انکشاف کیاگیاکہ آج صبح ایک خودکش حملہ آورکولال مسجدکی حدود میں دیکھاگیا،حکومتی اداروں نے بتایاکہ اس کے علاوہ قانون کوہاتھ میں لینے اور لوگوں کوہراساں کرنے کے جرم میںجنوری2007سے جون تک لال مسجدانتظامیہ اورمدرسے کے طلباکیخلاف38مقدمات درج ہوئے،لال انتظامیہ مسلح طلباکے زور پرعلاقے میں خوف وہراس پھیلا رہی تھی۔
3جنوری 2007 کوتھانہ آبپارہ کے سب انسپکٹر کی مدعیت میں آبپارہ کے رہائشی زوارحسین نے مقدمہ درج کرایاکہ رات 10 بجے آبپارہ کمیونٹی سینٹرمیں شادی کی تقریب جاری تھی کہ لال مسجد کے 100 سے 150 طلباجن میں سے 4یا 5 کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھی اورباقی ڈنڈوں اور کچھ پستولوں سے مسلح تھے کمیونٹی سینٹرمیں آئے اورلوگوں کو دھمکی دی پٹاخے بندکردو ورنہ شادی والے گھرکوماتم کدہ بنادیں گے،اسی دوران مولانا عبدالعزیزنے لاؤڈاسپیکرپر اعلان کیاکہ دولہاکواٹھا کر مسجد میں لے آؤ۔6اپریل کوایک اورایف آئی آردرج کروائی گئی کہ لال مسجد کے طلبانے سڑک کو دونوں اطراف سے بند کردیاہے۔
جبکہ مولانا عبدالعزیز بارباراسپیکرپراعلان کررہے ہیں کہ ہم حکومت کونہیں مانتے اور نفاذ شریعت کااعلان کرتے ہیں اورہم بزورقوت حکومتی مشینری سے لڑکررہیں گے،3جولائی کواسسٹنٹ انسپکٹرجنرل پولیس(اسپیشل برانچ)کی ایک رپورٹ میں کہاگیامسلح طلبالال مسجد کے اندر سے آئے اور موقع پر موجود ایک انسپکٹراور8مسلح جوانوں سے ہاتھاپائی کرکے4عدداسمال مشین گنیں چھین کرفرارہوگئے،مسلح افراد مورچوں میں موجودتھے اور لال مسجد کی انتظامیہ لاؤڈاسپیکرپرفدائین کو تیار رہنے کے اعلانات کررہی تھی۔
اسی دوران لال مسجدسے فائرنگ ہوئی اوررینجرز کے لانس نائیک مبارک حسین کوشہیدکردیاگیا۔حساس اداروں کی طرف سے5 ماہ کے دوران جنوری سے جون تک لگ بھگ100 سے زائد مواقع پر اطلاع دی گئی جہاں لال مسجد کی انتظامیہ نے اسلحے کے زور پر عوام الناس کوہراساں کیا،قتل و غارت گری،فتنہ گیری اوراسی نوع کے مختلف واقعات کیے،حکومتی اداروں نے کمیشن کوبتایا کہ 3جولائی2007 کے واقعے کے بعد ضلع مجسٹریٹ نے حکومت سے درخواست کی کہ حالات پولیس کے کنٹرول سے باہرنکل گئے لہٰذافوج طلب کی جائے۔
بعدازاں وزارت داخلہ نے بھی وزارت دفاع سے لال مسجد کے اطراف امن وامان کی بحالی کے لیے فوج طلب کرنے کہا تھا۔ ذرائع کے مطابق حکومتی اداروں نے لال مسجدکمیشن کواپنی رپورٹ میں مرحوم صحافی سلیم شہزاد کی القاعدہ اورطالبان کے بارے میں لکھی گئی کتاب کے بعض حصے بھی شامل کیے ہیں جن میں سلیم شہزادنے لال مسجدانتظامیہ کے القاعدہ اورطالبان سے قریبی تعلقات کے بارے میں انکشاف کیاتھا۔