زندہ رہا تو کراچی کیس کے فیصلے پر ہر حال میں عمل کرائینگے چیف جسٹس
4 اپریل کو خودکراچی جاکر اس مقدمے کو سنوں گا، اگر زندہ نہ رہا تو پھرکچھ نہیں کہہ سکتا،
لاہور:
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ اگر زندہ رہا تو 4 اپریل کو خودکراچی جاکر اس مقدمے کو سنوں گا، فیصلے پر ہر حال میں عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔
اگر زندہ نہ رہا تو پھرکچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ ریمارکس انھوں نے منگل کوضلعی عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے بارے میں مقدمے کی سماعت کے دوران اس وقت دیے جب خیبر پختونخوا حکومت کے وکیل خالد انور نے بتایا کراچی کے لوگ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن ہیں اور عوام کی اکثریت کراچی کے بارے میں عدالتی فیصلے کو سراہتی ہے۔
خالد انور نے کہا کہ اس فیصلے پر عملدرآمد سب سے اہم مسئلہ ہے ۔ قبل ازیں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ضلعی عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے بارے میں پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف خیبر پختونخوا حکومت کی درخواست سماعت کیلیے منظورکرکے فریقین کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا ۔ سماعت 2 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔ واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سول ججوں کی تقرری کے حکومتی فیصلے کو مسترد کرکے تقرری کا تمام اختیار ہائی کورٹ کو دینے کا حکم دیا،اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔
فاضل بینچ نے ایگزیکیٹو مجسٹریسی نظام کو غیر آئینی قرار دیے جانے کے بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر درخواست اپیل میں تبدیل کر کے فریقین کو نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کی۔ بلوچستان حکومت کی طرف سے خواجہ حارث پیش ہوئے اور بتایا کہ صوبائی حکومت نے ضابطہ فوجداری میں ترمیم کرکے ایگزیکٹو مجسٹریسی نظام کو بحال کیا تاکہ انتظامی معاملات کی انجام دہی میں تیزی لائی جا سکے۔
عدالت نے اس نکتے پراٹارنی جنرل کومعاونت کیلیے طلب کرلیاہے کہ ایگزیکٹو مجسٹریسی نظام سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوتی ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا اس کیس کو سننے کے بعد یہ کہا جا سکے گا کہ ایگزیکٹیو اور جوڈیشل مجسٹریٹ الگ الگ عہدے ہیں، سماعت 6ہفتے بعد ہوگی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ اگر زندہ رہا تو 4 اپریل کو خودکراچی جاکر اس مقدمے کو سنوں گا، فیصلے پر ہر حال میں عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔
اگر زندہ نہ رہا تو پھرکچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ ریمارکس انھوں نے منگل کوضلعی عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے بارے میں مقدمے کی سماعت کے دوران اس وقت دیے جب خیبر پختونخوا حکومت کے وکیل خالد انور نے بتایا کراچی کے لوگ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن ہیں اور عوام کی اکثریت کراچی کے بارے میں عدالتی فیصلے کو سراہتی ہے۔
خالد انور نے کہا کہ اس فیصلے پر عملدرآمد سب سے اہم مسئلہ ہے ۔ قبل ازیں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ضلعی عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے بارے میں پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف خیبر پختونخوا حکومت کی درخواست سماعت کیلیے منظورکرکے فریقین کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا ۔ سماعت 2 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔ واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سول ججوں کی تقرری کے حکومتی فیصلے کو مسترد کرکے تقرری کا تمام اختیار ہائی کورٹ کو دینے کا حکم دیا،اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔
فاضل بینچ نے ایگزیکیٹو مجسٹریسی نظام کو غیر آئینی قرار دیے جانے کے بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر درخواست اپیل میں تبدیل کر کے فریقین کو نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کی۔ بلوچستان حکومت کی طرف سے خواجہ حارث پیش ہوئے اور بتایا کہ صوبائی حکومت نے ضابطہ فوجداری میں ترمیم کرکے ایگزیکٹو مجسٹریسی نظام کو بحال کیا تاکہ انتظامی معاملات کی انجام دہی میں تیزی لائی جا سکے۔
عدالت نے اس نکتے پراٹارنی جنرل کومعاونت کیلیے طلب کرلیاہے کہ ایگزیکٹو مجسٹریسی نظام سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوتی ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا اس کیس کو سننے کے بعد یہ کہا جا سکے گا کہ ایگزیکٹیو اور جوڈیشل مجسٹریٹ الگ الگ عہدے ہیں، سماعت 6ہفتے بعد ہوگی۔