پاک ایران معاشی منصوبوں میں امریکی رکاوٹ

پاکستان خود بھی ٹرمپ کے نشانے پر ہے مگر اپنی سلامتی کے ساتھ ساتھ ایران کی سلامتی اور بقا کے قائم رہنے کا خواہاں ہے۔


عثمان دموہی February 04, 2018
[email protected]

NEW DELHI: گزشتہ دنوں ایران میں ہونے والی عوامی شورش سے امریکا اور اس کے حواریوں کو ضرور خوشی ہوئی ہوگی مگر پاکستانیوں کو اس اچانک شورش نے تشویش اور پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ پاکستان ایران کا دوست ہی نہیں برادر ملک ہے۔ پاکستان ایران کی شروع سے ہی قدر کرتا ہے اور ہمیشہ اس کی خوشحالی اور مضبوطی کا خواہاں رہا ہے۔

حالیہ شورش کی وجہ اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے اس کی تہہ میں ایرانی ذرائع کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ تھے جنھوں نے مظاہرین کی ہمت افزائی کرکے جلتی پر مزید تیل چھڑکنے کا کردار ادا کیا اور واضح کردیا ہے کہ وہ صرف ایران کے ہی نہیں تمام مسلم ممالک کے دشمن ہیں۔ ان کا ایجنڈا بھی اب سب پر ظاہر ہوچکا ہے کہ وہ مسلمانوں سے صلیبی جنگوں کا بدلہ لینے کے لیے امریکی صدارتی کرسی پر براجمان ہوئے ہیں۔ وہ پہلے دن سے ہی مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ انھوں نے ایران کو خاص طور پر ہدف بنایا ہوا ہے جب کہ ایرانی حکومت امریکا سے مخلصانہ تعلقات رکھنے کی خواہش رکھتی ہے۔

اوباما حکومت جوہری مسئلے پر ایران کے رویے سے مطمئن ہوکر ہی اس سے ایک معاہدہ کرچکی ہے۔ جس کی رو سے ایران پر جو شرائط عائد کی گئی ہیں ایرانی حکومت نے انھیں قبول کرلیا تھا۔ دراصل اوباما حکومت اپنے آٹھ سالہ دور میں اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ صرف اسرائیل کی فرمائش پر ایران جیسے اہم ملک کا ہمیشہ بائیکاٹ جاری نہیں رکھا جاسکتا۔ ایران سے بہرصورت تعلقات بہتر بنانا خود امریکا کے مفاد میں ہے۔

ایک تو ایران تیل کی دولت سے مالا مال ہے جس سے امریکا بھی مستفید ہوسکتا ہے۔ ایران کی مدد سے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیائی خطے میں موجودہ کشیدہ صورتحال کو ختم کرکے وہاں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ ایران چونکہ افغانستان کے بغل میں واقع ہے چنانچہ اس پر بھی پاکستان کی طرح افغانستان میں حالات خراب کرنے، طالبان کو پناہ دینے اور انھیں تربیت دینے جیسے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔

اوباما کے نزدیک ایران کے ساتھ مل کر افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ عالمی معیشت کے ابتر حالات پر بھی ایران کے ذریعے مثبت اثرات مرتب کیے جاسکتے ہیں پھر ایران کی مارکیٹ بھی مغربی ممالک کے لیے کھل سکتی ہے۔ ایران مغربی ممالک سے اپنی ضرورت کی چیزیں درآمد کرکے مغربی ممالک کے لیے زرمبادلہ کمانے کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔

ایران سے جوہری معاہدے کے بعد واقعی مغرب کو ایران سے فائدہ پہنچنا شروع ہوگیا تھا۔ ایران نے فرانس سے سیکڑوں مسافر ہوائی جہاز خریدنے کے آرڈر دے دیے تھے مگر پھر ہوا یہ کہ امریکن الیکشن میں ٹرمپ نے کامیابی حاصل کرلی اور انھوں نے ایران سے امریکا کی پرانی دشمنی کو زندہ کردیا اور پہلی فرصت میں ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کردیا جو ختم تو نہیں ہو پایا اس لیے کہ یورپی یونین اور روس نے ٹرمپ کو ایسا کرنے سے روک دیا مگر ٹرمپ اب بھی معاہدے کو ختم کرنے پر مصر ہیں اور اب اسے ختم کرنے کے لیے پھر نئی دھمکی دے دی ہے۔

ایران میں ہونے والے عوامی مظاہروں کو ٹرمپ نے ہوا دے کر خود کو مودی کی طرح عالمی دہشت گرد ثابت کردیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مودی نے بلوچستان میں اور ٹرمپ نے ایران میں تخریب کاروں کی جو ہمت افزائی کی ہے اسے عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ مودی کی پاکستان سے دشمنی کی وجہ کشمیر ہے اور ٹرمپ کی ایران سے مخاصمت کے پیچھے اسرائیل ہے۔

دراصل ٹرمپ اسرائیل کی خواہش کے مطابق ایران کو عراق لیبیا اور شام کی طرح تباہ حال اور غیر موثر ملک بنانا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ ایران سے اس لیے بھی سخت برہم ہیں کیونکہ ایران نے روس کے ساتھ مل کر شام کے خلاف امریکی عزائم کو ناکام بنادیا ہے۔ گوکہ پاکستان خود بھی ٹرمپ کے نشانے پر ہے مگر پاکستان اپنی سلامتی کے ساتھ ساتھ ایران کی سلامتی اور بقا کے قائم و دائم رہنے کا خواہاں ہے۔

پاکستان نے ایران کو بھارت سے قریبی تعلقات رکھنے کے باوجود بھی کبھی اس سے کوئی شکایت نہیں کی مگر بھارت کی ایران سے دوستی کی وجہ سراسر پاکستان دشمنی ہے۔ وہ وہاں چاہ بہار بندرگاہ کو صرف گوادر بندرگاہ کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے تعمیر کر رہا ہے مگر وہ اور بات ہے کہ گوادر کی بندرگاہ کی اہمیت اور افادیت کو کسی طرح بھی کم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک قدرتی اور اسٹریٹیجک محل وقوع سے مرصع بندرگاہ ہے۔ جو چاہ بہار سے مختلف اور اس سے زیادہ تجارتی افادیت کی حامل ہے۔

اس بندرگاہ کا چین کو پسند آنا اور اس پر اربوں ڈالر خرچ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس بندرگاہ پر تو امریکا اور روس کی بھی شروع سے نظریں رہی ہیں۔ بھارت چاہ بہار بندرگاہ کی آڑ میں اپنے کئی جاسوس پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے لیے بھیجتا رہا ہے۔ کلبھوشن انھی میں سے ایک ہے جسے رنگے ہاتھوں بلوچستان سے پکڑا گیا ہے۔ ایران کو اس معاملے پر بھارت سے ضرور باز پرس کرنا چاہیے تھی گو کہ ایران نے اس سلسلے میں وضاحت کی ہے مگر پاکستان کو مطمئن نہیں کیا جاسکا ہے۔ لگتا ہے ایرانی حکومت مودی کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر پاکستان کے مفادات سے بے بہرہ ہوگئی ہے۔

ایران کی یہ بے رخی پاکستان کے لیے ایک المیہ ہے مگر اس کے باوجود بھی پاکستانی حکومت ایران کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دے رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل جاوید قمر باجوہ ایران کے دورے پر گئے تھے وہ وہاں ایران سے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور اسے ہر سطح پر پاکستان کی مدد فراہم کرنے کی پیشکش کرکے آئے ہیں۔

ایران نے بھی اب پاکستان کے خلوص کا جواب خلوص سے دیا ہے، جس کی مثال پاک ایران ٹرین سروس کی بحالی کے فیصلے سے دی جاسکتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان محفوظ آمد و رفت کے لحاظ سے یہ پیش رفت دونوں کی دوستی میں ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا کہا جاسکتا ہے۔ ایران نے پاکستان کی چین کے ون بیلٹ اور ون روڈ منصوبے میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔

ایران نے گوادر بندرگاہ کو بھی استعمال کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے جب کہ بھارت چین کے ون بیلٹ اور ون روڈ جیسے نادر اور عظیم منصوبے کو پہلے ہی رد کرچکا ہے چونکہ وہ جنوبی ایشیا پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے اور اسے چین کی چھوٹے ممالک کے معاشی مسائل کو حل کرنے والی پالیسی پسند نہیں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو ایران سے اپنے ملتوی پروجیکٹس کو پھر سے بحال کرنا چاہیے۔ اب التوا میں پڑے گیس پائپ لائن منصوبے پر بلاتاخیر کام شروع ہونا چاہیے۔

یہ سراسر پاکستان کے اپنے مفاد کا منصوبہ ہے۔ اس سے پاکستان میں گیس کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کیا جاسکے گا۔ گھریلو صارفین کے علاوہ صنعتی یونٹس کو بھی ان کی ضرورت کی گیس فراہم کی جاسکے گی۔ بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بھی ایران سے بجلی حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونا چاہیے۔ جہاں تک امریکا کا معاملہ ہے کہ وہ ان منصوبوں کے راستے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے تو اب امریکا سے قطعی ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

جب ٹرمپ مسلسل پاکستان کی بے حرمتی کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ہماری امداد پر بھی قدغن لگا دی گئی ہے تو ہمیں اپنے کام اپنی مرضی سے کرنا چاہئیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب امریکا نے بھارت کو ایران میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے اس کی چاہ بہار بندرگاہ کو تعمیر کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے تو پھر پاکستان پر پابندی کیسی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں