ایسا کچھ کرکے چلو
ہم محب وطن اور ذی شعور انگشت بدنداں ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
NEW YORK:
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ''ایمان دار قیادت ملی تو لوگوں کی زندگیاں بدل جائیں گی اور اگر آئینی ذمے داری پوری نہ کی تو عوام کا ہاتھ اور ہمارا گریبان ہوگا۔'' لیکن وطن عزیز کا المیہ یہ ہے کہ اس کے قیام کوستر سال گزر گئے اسے نہ ایمان دار قیادت میسر آئی اور نہ ہی کسی نے آئینی ذمے داری پوری کی، نہ ہی عوام کا ہاتھ کسی ارباب اختیار کے گریبان تک پہنچ سکا۔ اسے بے چارے کمزور عوام کی ستم ظریفی ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے ہاں زینب کا سانحہ ہو یا نقیب اللہ کا معاملہ ہمارے سماج کا پہاڑ جیسا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی واقعہ جتنا بھی اندوہناک کیوں نہ ہو اس کا دورانیہ ہمارے ہاں چوبیس گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتا۔ ہمارے معاشرے کی آنکھیں کھلی لیکن بصارت سے عاجز ہیں۔ ہم کسی بھی سانحے کی حقیقی اذیت کا احساس نہیں کر پاتے۔ یہ رویہ ہماری فطرتِ ثانیہ میں راسخ ہوچکا ہے۔ تازہ لہو کے چھینٹے ہی اسے جگاتے ہیں اور وہ بھی مختصر مدت کے لیے اس کے بعد ہم زندگی کے معمول کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی قوم ہمہ وقت غم میں ڈوبی نہیں رہ سکتی لیکن جس برق رفتاری سے ہم یہ صفحہ پلٹتے ہیں اس کی مثال کائنات میں اور کہیں نہیں ملتی۔ جب لرزہ دینے والے واقعات مربوط، منظم اور طویل المدت اقدامات کے متقاضی ہوں تو ہم ایک بلٹ ٹرین کی مانند گزر جاتے ہیں۔ دو سال قبل قصور شہر ہی میں ایک گروہ نے تین سو بچوں کو جبری طور پر فحش فلموں کے لیے استعمال کیا تھا اور یہ کوئی راز نہیں یہ خبر پوری دنیا میں رپورٹ ہوئی تھی۔
لیکن آج ہمارے ہاں کسی کو بھی یہ جاننے میں دلچسپی نہیں کہ اس کیس کا کیا بنا اور اس کا ارتکاب کرنے اورگرفتار ہونے والوں کا کیا بنا؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم برق رفتار جذباتی رو میں بہنے کا ظرف رکھتے ہیں، ٹھوس حقائق پر رکھنا، غور کرنا، وجوہ کا کھوج لگانا، آیندہ کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام کی عملی تدبیر کرنا ہماری سرشت میں شامل ہی نہیں۔
ہم محب وطن اور ذی شعور انگشت بدنداں ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور حالات جوں کے توں رہے تو ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ آئی جی سندھ نے گزشتہ ماہ ہائی کورٹ میں یہ رپورٹ دی ہے کہ سندھ پولیس کے بارہ ہزار افسران اور اہلکار جرائم میں ملوث ہیں۔ یہ چشم کشا رپورٹ کیا کہتی ہے کہ آخر ہمارے ملک کا قانون کیسا ہے اس کی سیاست کس نہج کو پہنچ چکی ہے؟
دنیا کے وہ ممالک جو تہذیب وتمدن پر اپنی اقدار استوارکرکے مثالی جمہوریت سے مستفید ہو رہے ہیں، ان ممالک میں سیاست کو ختم کا ذریعہ جانا جاتا ہے بلکہ اسے درجۂ عبادت پر فائزکیا جاتا ہے۔ سیاست دان کے بارے میں ان ممالک میں عمومی رائے یا تاثر یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو انتہائی متحمل مزاج، مدبر اور دور اندیش ہو، لیکن افسوس اسے وطن عزیز پر اس لیے قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ یہاں سیاست کا مطمع نظر بھی مختلف ہے اور بہت سے سیاست دان ان اوصاف سے بالکل تہی داماں کہ جو سیاست دانوں کا خاصہ ہوتے ہیں یا ہونے چاہئیں۔
ہماری اصل حرماں نصیبی بھی یہی ہے کہ بالعموم نہ سیاست خالص ہے نہ سیاست دان پختہ کار اور دیانت دار۔ اس وقت جب ملک چاروں طرف سے خطرات کی زد میں ہے، ہماری سیاست اور بعض سیاست دان بدترین طرز عمل کا مظاہرہ کرنے میں مشغول ہیں۔ قانون سازی کے اعلیٰ ترین ادارے پر لعنت بھیجی جا رہی ہے ، زبانیں بے لگام ہیں، اوئے توئے، ابے تبے کا چلن عام ہے، دشنام طرازیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہتے ہوئے کسی کی زبان نہیں رکتی۔ الغرض ہرکوئی ہیجانی و اضطرابی کیفیت کا شکار ہے۔
کاش پارلیمنٹ جیسی سپریم جگہ پر بیٹھنے والے جان پاتے کہ کوئی بھی آئینہ انسان کی اتنی اچھی تصویر کشی نہیں کرتا جتنی اس کی گفتگو کرتی ہے۔ جائے حیرت ہے کہ ہر کوئی ہیجانی اور اضطرابی کیفیت کا شکار ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ہر کسی کو اقتدار کے سوا کسی شے کی کوئی فکر نہیں، کسی کو اقتدار بچانے کی اور کسی کو اقتدار کے حصول کی، اسی کشمکش میں اخلاقیات کی حدیں پامال کی جا رہی ہیں، ذاتیات پر رکیک حملے ہو رہے ہیں، ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کو ہی سیاست کا ہدف سمجھ لیا گیا ہے۔
آخر یہ سب لیلائے اقتدار کے لیے نہیں تو پھر اسے کیا معنی و مفہوم دیے جائیں؟ کسے نہیں معلوم کہ گالی کے جواب میں گالی دی جائے تو معاملات بگڑا ہی کرتے ہیں اور پارلیمنٹ یا اسمبلی کو مچھلی مارکیٹ بنانے سے گریز کی روایت ہی اس کے تقدس کو بحال کرے گی۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بعض سیاست دان اپنا آپ کھو بیٹھے ہیں اور خود ان اداروں کے بارے میں بھی دریدہ دہنی سے گریز نہیں کر رہے جو انھیں دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں اور وہ یہ سمجھنے پر ذرہ برابر آمادہ نہیں کہ پاکستان کسی نئے سیاسی انتشارکا متحمل نہیں ہوسکتا۔
ہمارے معاشرتی سدھارکے ذمے دار جان لیں کہ ہمارے ہاں جرم و سزا کے حوالے سے برسہا برس سے لچک، چشم پوشی اور جانے دینے کا سکوت طاری ہے اور اگر ایک بار ایسا سکوت طاری ہوجائے تو پھر معاشرے دوبارہ سے زندہ نہیں ہوتے۔ معاشرے میں مخالفتیں ختم کرانے سے مصنوعی قبرستان پیدا تو ہوجاتا ہے مگر یہ قبرستان زندہ انسانوں کو مردہ بنا دیتا ہے، پھر نہ تخلیق ہوتی ہے، نہ ملک سے وفاداری ہوتی ہے اور نہ ہی بہادری کا ہنر رہتا ہے، قبرستان کے مردوں سے توقع ہی کیا ہوسکتی ہے؟
سزا و جزا کے اسلامی نظام کے نفاذ کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے کو جنگی بنیادوں پر اصلاح اور افراد کی کردار سازی کی اشد ضرورت ہے تاکہ حق اور باطل، سچ اور جھوٹ، ثواب وگناہ، اچھائی و برائی میں نہ صرف واضح فرق ہو بلکہ معاشرہ حق، سچ، اچھائی اور ثواب کے کاموں کا ساتھ دے اور باطل، جھوٹ، گناہ اور برائی کے کاموں سے دوسروں کو روکے۔
مقام شکر ہے کہ چیف جسٹس جس محنت، تندہی اور جانفشانی سے عوامی مشکلات اور مسائل کے حل، صحت اور تعلیم کی سہولتوں کی بہتری اور شہریوں کی حق تلفیوں کے ازالے کے لیے کام کر رہے ہیں، جس کا اندازہ ان کی جانب سے اہم قومی اور عوامی معاملات میں ازخود لیے جانے والے نوٹسوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس کے ان اقدامات سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ہمارے بیشتر ادارے اپنی ذمے داریاں صحیح طور پر انجام نہیں دے رہے ہیں۔
پارلیمنٹ بلاشبہ ملک کا اعلیٰ ترین آئینی ادارہ ہے۔ آئین کی تشکیل اور قانون سازی اسی کا کام ہے۔ عدالتیں بھی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے آئین اور قانون کی محافظ اور ان کے تحت فیصلے کرنے کی پابند ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قومی معاملات میں پارلیمنٹ کا کردار ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں جس قدر فعال اور موثر ہوتا ہے، ہم ابھی اس معیار سے بہت پیچھے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں بار بار پارلیمانی نظام کی بساط کا لپیٹا جانا اور طاقت کے اصل منبع کا کہیں اور واقع ہونا ہے، جب کہ خود حکمرانوں اور ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے بھی پارلیمنٹ کو بالعموم وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو پارلیمنٹ کا استحقاق ہے۔
آئین کا تقاضا ہے کہ قومی اہمیت کے تمام معاملات اور پالیسی سازی اور فیصلے پارلیمنٹ ہی میں ہوں، وزرا اور حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے تمام ارکان پارلیمنٹ اجلاسوں میں اپنی حاضری یقینی بنائیں، قومی اہمیت کے تمام معاملات پر پارلیمنٹ میں سیر حاصل گفتگو کا اہتمام کیا جائے اور حل طلب مسائل کو غیر ضروری تاخیر اور ٹال مٹول کا نشانہ بنانے سے گریزکیا جائے تاکہ نہ عدلیہ کو ازخود نوٹسوں کے ذریعے معاملات کے حل کے لیے مداخلت کرنی پڑے نہ کسی اور جانب سے پارلیمنٹ کے خلاف کسی اقدام کا کوئی جواز پیدا ہو سکے۔