بے عزتی جیسی عزت

مجھے اس واقعے میں، حال ہی میں ہونے والے ایک واقعے سے مماثلت نظر آئی۔


Shirin Hyder February 04, 2018
[email protected]

اس کے ماں باپ نے اس کا نام تو مشتاق رکھا تھا مگر بھلا ہو ہمارے پنجاب کے دیہہ کے رواج کا کہ کسی کو اس کے سیدھے نام سے بلانا ممنوع سمجھا جاتا ہے اور لاڈ سے اسے بگاڑ کر بلایا جایا ہے۔ اگر کسی کا تعلق کسی نچلے طبقے سے ہو تو اس کے نام کا بگڑنا تو لازمی ہوتا ہے۔ سو مشتاق کو بھی تاکا بننے میں زیادہ وقت نہ لگا اور اس کے باپ کے مرنے کے بعد جب اسے کچھ بگڑے ہوئے ''مہربانوں'' کا ساتھ ملا اور انھوںنے اسے نشے اور چوری چکاری پر لگا دیا تو وہ تاکے سے بھی ''تاکابدمعاش'' بن گیا۔

تاکے بدمعاش کی زندگی میں ہمارے ایک مہربان اورنیک بزرگ، امام دین کی سرپرستی لکھی تھی جو انھوں نے اسے ہدایت کے راستے پر لگا دیا۔ وہ تاکا جس کے ڈر سے لوگ مسجد کے باہر جوتے تک نہ اتارتے تھے کہ واپسی پر تاکا وہ جوتے چرا کر کاٹھ کے طور پر بیچ کر دو چار سوٹوں کا بندوبست کر لیتا، مسجد یا کسی بھی سبیل سے ٹونٹیاں اور کسی کی کھڑی ہوئی موٹر سائیکل کا کیریر بھی اتار کر بیچ دیتا۔

گاؤں کے گھروں کی نیچی دیواریں اور چھتوں سے ملی ہوئی چھتیں تاکے کی ان کارروائیوں کی راہ میں بہت معمولی رکاوٹیں شمار ہوتی تھیں وہ کسی بھی چھت سے اس گھر کے صحن میں اترتا اور صحن یا برآمدے میں رکھی ہر و ہ چیز اٹھا لیتا تھا جسے بیچ کر وہ ایک وقت کا نشہ پورا کر لیتا یا ایک جوئے کی بازی کھیل لیتا۔ اس کا دل اس لحاظ سے قناعت پسند تھا کہ وہ اسی دن سے زیادہ کی فکر نہ کرتا تھا، یعنی اتنا ہی چراتا تھا جس کی وجہ سے اس دن کا گزارہ چل جاتا تھا۔

ہاں توبات ہورہی تھی ان مہربان بزرگ کی جس سے اس کی کایا پلٹ گئی۔ چند دنوں میں وہ ہر برے کام سے تائب ہوا اور پھر باقاعدگی سے مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آنے لگا۔'' نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی! '' اوراس جیسے کئی محاورے اور ضرب المثال ایسی تھیں جنھیں وہ اپنے لیے سنتا اور مسکرا کر سر جھکا دیتا۔ اللہ نے اسے ہدایت کا راستہ عطا کیا تھا تو اسے اپنی ماضی کی غلطیوں کی واقعی شرمندگی تھی۔ فقط شرمندگی سے سر جھکا لیتا، کتنا عرصہ تک لوگ ایسا کریں گے؟

وہ سوچتا، کبھی نہ کبھی تو بھول جائیں گے۔ اس عمل کو تیزکرنے کے لیے اسے کچھ نیک اعمال کرنا ہوں گے، یہی سوچ کر اس نے اپنے ان مہربان بزرگ کے ساتھ ہدایت کے اس راستے پر اپنے جیسے بھٹکے ہوؤں کو چلانے کے لیے تبلیغ کا وہی کام شروع کر دیا جو کہ وہ بزرگ کر رہے تھے۔

پہلے تو اسے سیکھنا تھا سو وہ خاموشی سے ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں سنتا، کس طرح وہ مخاطب کو دلائل سے قائل کرتے ہیں، اس کا ادراک ہونا سب سے اہم تھا۔ ''راہ ہدایت سب کو نصیب نہیں ہوتی بیٹا، ہدایت کی بات صرف ان دلوں پر اثر کرتی ہے جن میں ہدایت کا بیج کہیں دبا ہوا پڑا ہوتا ہے، جن بچوں کے والدین نیک ہوتے ہیں اور بچے راہ سے بھٹک جاتے ہیں، ان کے اندر نیکی کی رمق ہوتی ہے، ہمیں اس رمق کو ڈھونڈنا اور اسے جگانا ہوتا ہے، تبھی برائی کا خاتمہ ہوتا ہے اور اچھائی کا پودا پروان چڑھتا ہے! '' استاد صاحب نے اسے بتایا تھا۔

'' یہ میرے برخوردار ہیں محمد مشتاق ! '' استاد صاحب نے اس کا تعارف کروایا تھا۔ وہ ایک تبلیغی محفل میں تھے جہاں انھیں کچھ نوجوانوں کی اصلاح کا کام کرنا تھا۔

'' اچھا ، کیا یہ آپ کا اپنا بیٹا ہے؟ '' مخاطب نے سوال کیا تھا۔

'' یہی سمجھیں ، یہ میرا روحانی شاگرد ہے! '' انھوں نے اضافہ کیا، '' اللہ نے اسے میرے لیے انعام کے طور پر بھیجا ہے، نہ صرف اسے خود میرے ذریعے رہنمائی حاصل ہوئی بلکہ یہ اس جوانی میں میرے ساتھ اس نیک عمل میں شامل ہوا ہے جس عمر میں نوجوان لڑکے کئی طرح کی برائیوں میں پڑے ہوئے ہوتے ہیں !'' وہ رکے ، '' یہ بھی ایسا ہی نوجوان تھا، آپ لوگوں جیسا، باقی نوجوانوں جیسا... نشے اور جوئے کی لت میں مبتلا، مگر اس کے نصیب اچھے تھے جو اللہ نے اسے مجھ سے ملا دیا اور میں نے اسے ہدایت کی روشنی دکھائی، یہ نماز روزے سے کوسوں دور تھا، نہ اسے موت کا خوف تھا نہ اچھائی کا تصور، مسجد سے اس کا تعلق اتنا ہی تھا کہ نمازیوں کے جوتے چراتا یا مسجد کی ٹونٹیاں اور انھیں بیچ کر اپنا نشہ پورا کرتا۔

گاؤں کے لوگ اس سے خوفزدہ تھے اور دعا ہی کرتے تھے کہ ان کی چیزیں چاہے چرا لے مگر ان کی بہو بیٹیاں اس سے محفوظ رہیں کیونکہ اسے نظر بازی کا شوق بھی تھا۔ اچھے خاصے نیک والدین کی اولاد تھا مگر اس کے اندر برائی کے بیچوں نے پرداخت پائی تھی '' ان کا لیکچر جاری تھا۔

'' اب اللہ کے فضل سے یہ ہر وقت حالت وضو میں رہتا ہے، کوئی نماز قضا نہ ہو جائے،اسے یہ خوف رہتا ہے۔ فرضی روزوں کے علاوہ سال کے آدھے دنوں میں بھی یہ نفلی روزے رکھتا ہے۔ اس کی اذان یا قرآت کی آواز مسجد کے اسپیکر سے گونجتی ہے تو لوگ گھروں میں کام روک کر سنتے ہیں ۔ سر جھکا کر چلتا ہے اور ہر چھوٹے بڑے کو سلام میں پہل کرتا ہے، دیکھیں اس میں کتنی تبدیلی آ گئی ہے، یہ میرا روحانی شاگرد بھی ہے اور میرا معاون بھی!!'' ان بزرگ کا لیکچر ختم ہوا اور سوال و جواب کا سیشن شروع ہو گیا۔ محمد مشتاق خاموشی سے اور پر تفکر انداز میں بیٹھا سب کچھ سن رہا تھا۔

'' آپ سے کچھ عرض کرنا تھا استاد محترم! '' واپس گاؤں پہنچ کر محمد مشتاق نے مودب انداز میں استاد صاحب سے کہا۔

'' ہاں ہاں ... کیا بات ہے؟ '' انھوں نے اس کے چہرے کو دیکھا اور اندازہ کیا کہ وہ بہت دیر سے یونہی حالت استغراق میں تھا، '' کہیں اس مشکل سفر سے تھک تو نہیں گئے ہو؟اپنا ماضی واپس تو نہیں کھینچتا؟ ''

'' نہیں استاد محترم ... میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ ماضی کو بھلا کر میں نے اس مشکل مگر بہترین راستے کا چناؤ کیا تھا، اس راستے کی کٹھنائیاں بھی جانتا تھا اوراب اس کے ثمرات سے بھی آگاہ ہوں ، اسے چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں مگر آپ سے ایک درخواست کرنا تھی! ''

''کہو بیٹا!! ''

'' کہنا یہ تھا کہ جب میں برائی کے راستے پرتھا تو کسی نے مجھے یوں برا کہا نہ اس طرح میرے ''کارناموں '' کی تشہیر کی، مگر جس دن سے میں نے برائی کا راستہ چھوڑا ہے اس دن سے آپ نے دنیا میں ہر اس شخص کو بھی میرے برے ماضی سے آگاہ کر دیا ہے جو کہ مجھے ذاتی طور پر جاننا تو کجا ، کبھی ملا تک نہ تھا۔ دوسروں کو اپنے کارنامے سناتے ہوئے آپ کو یہ تک بھول جاتا ہے کہ آپ کو دوسروں کے عیبوں کی پردہ داری کرنے کا حکم بھی ہے، نہ کہ آپ نے میری ایسی منفی تشہیر کر دی ہے کہ مجھے کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا، ابھی تو میں نے باقی زندگی گزارنی ہے اور میں جہاں جاتا ہوں لوگ جو مجھے جانتے بھی نہیں، آپ کے ایک لیکچر کے بعد انھیں علم ہو جاتا ہے کہ یہ محمد مشتاق چند ماہ پہلے '' تاکا بدمعاش'' تھا!! '' اس نے بات یہاں تک کر کے سانس لی، '' استاد امام دین کو دنیا جس کارنامے کی داد دیتی ہے اس نے محمد مشتاق کی وہ پبلسٹی کی ہے کہ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا !!''

آپ سب نے یہ واقعہ سوشل میڈیا پر یا کسی نہ کسی اور حوالے سے سنا ہو گا۔ مجھے اس واقعے میں ، حال ہی میں ہونے والے ایک واقعے سے مماثلت نظر آئی جب اگلے روز میں ایک '' راہنما '' کو ٹیلی وژن کی اسکرین پر دیکھ رہی تھی، آپ سب نے بھی دیکھا ہو گا کہ اپنے جوش خطابت میں وہ کسی کو تاکا بنائے ہوئے تھے... ایک باپ کو شو پیس کی طرح بٹھا رکھا تھا جس کی بیٹی ، صرف اس کی نہیں، پوری قوم کی بیٹی تھی اور اس کی بے حرمتی ہم سب کی بے حرمتی ہے۔ اس سے متعلقہ واقعات کی جزئیات کو کھول کھول کر بیان کرتے ہوئے، اپنے پولیس افسران کو لوگوں کے سامنے کھڑا کر کے انھیں ہیرو کے طور پر پیش کرتے اور ان کے لیے تالیاں بجواتے ہوئے... وہ مجھے بالکل اس شخص کی طرح لگے، جنھیں اپنی پبلسٹی کرتے ہوئے یہ بھول جاتا تھا کہ تاکے کو بھی اسی دنیا میں رہنا اور لوگوں کا سامنا کرنا تھا۔ اس باپ کو تو کچھ بولنے ہی نہیں دیا گیا!!

زینب کے ساتھ جو کچھ ہوا اس نے اس کے والدین کو تو جیتے جی ہی مار دیا مگر جو کسر باقی رہ گئی تھی وہ محترم نے پوری کر دی، انھیں بھی تو اپنے تاج میں کامیابی کا ایک اور پنکھ سجانا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں