ہمیں شرم آنی چاہیے 

تواتر سے اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں کہ کسی نے کسی پر بھی ’’توہین رسالت‘‘ کا الزام لگایا اور مجمع جمع ہوگیا۔


Raees Fatima February 04, 2018
[email protected]

سال نوکا آغازکئی سانحات سے ہوا ہے۔ پہلے زینب پھر کائنات، صائمہ، انتظار احمد اور نقیب اللہ ۔ یکے بعد دیگرے کتنے گھروں پہ قیامت ٹوٹ پڑی 300 بچوں کے ساتھ بدعملی اتنا بڑا سانحہ ہے کہ پوری قوم سکتے میں ہے، لیکن اغوا، قتل، بدفعلی اور زیادتی کے ساتھ ساتھ پچھلے دنوں دو اور سانحے ایسے ہوئے کہ کلیجہ پھٹ گیا۔ ٹنڈو غلام علی میں جو واردات مذہب کے نام پر کی گئی اس نے باشعور اور حساس لوگوں کو رنجیدہ کردیا ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے محمد علی جناح کو لوگ پوری طرح بھول چکے ہیں۔ وہ صرف کرنسی نوٹوں پہ موجود ہیں، باقی کہیں نہیں یا پھر کراچی میں ان کا مزار اب ایک تفریح گاہ ہے۔ بہت سے آنے والوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ انھوں نے مسلمانوں کیلیے ایک علیحدہ مملکت بناتے ہوئے تمام اقلیتوں کے لیے برابری کے حقوق رکھے تھے۔ اندرون سندھ سے بے شمار ہندو پنڈت بھارت چلے گئے، ہندو برادری کی شکایات کا کوئی ازالہ نہیں کیا گیا۔ اسی طرح عیسائی برادری کو بھی نشانہ بنایا گیا، قائد اعظم کا پاکستان تو 1971ء میں ختم ہوگیا۔

اب یہ کن قوتوں کا پاکستان ہے کسی کو نہیں معلوم اور جو نیا پاکستان بنانے کی بات کرتے ہیں وہ کہاںبنے گا؟ اقلیتوں سے ناانصافی کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ وہ پاکستانی جو دیار غیر میں کام کر رہے ہیں یا مختلف ملکوں میں رہ رہے ہیں ان پر بھی زندگی تنگ کی جاسکتی ہے۔ قانون کی عملداری مفقود ہے۔

غریب ایک مرغی چرالے تو جیل میں بند اور نامی گرامی ممبران اسمبلی پورے پورے بینک ہضم کر جائیں تو ان کی طرف انگلی بھی نہ اٹھے۔ گویا پاکستان میں قانون موم کی ناک ہے جسے جب چاہے اور جس طرح چاہے موڑا توڑا جاسکتا ہے۔ سیاسی عمل دخل کی وجہ سے سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کو تحفظ حاصل ہے۔ لیکن غریب کا جینا محال ہے۔

ٹنڈو غلام علی میں پسند کی شادی جرم بن گئی، پولیس نے بے گناہ لوگوں پر تشدد کیا اور کسی کی نہ سنی۔ نئی نویلی دلہن انیتا مسیح نے پریم مسیح سے شادی کی، لیکن ٹنڈو غلام علی کی پولیس نے بلاتصدیق محض ایک اطلاع پر نئی نویلی دلہن کو گرفتار کرلیا اور پریم مسیح کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ الزام یہ لگایا گیا تھا کہ شنکر مسیح گاؤں کے رہائشی پریم مسیح کے گھر میں کسی مسلمان لڑکی کو زبردستی رکھا ہوا ہے۔ شک کی بنیاد یہ تھی کہ انیتا اردو بولتی تھی، رہن سہن بھی اردو بولنے والوں کی طرح کا تھا۔

صرف یہی نہیں بلکہ یہ الزام بھی لگایا گیا کہ لڑکی گھر سے بھاگ کر آئی ہے اور اپنے ساتھ زیور وغیرہ بھی لائی ہے۔ جب کہ حقیقت یہ تھی کہ انیتا مسیح کرسچن ہے اس کے والد کا نام کولوس مسیح ہے جو انتقال کرچکے ہیں۔ ان کی مادری زبان اردو ہے۔ انیتا پڑھی لکھی لڑکی ہے اور چار سال حیدرآباد کے لیڈی گرام اسپتال میں بطور نرس کام کرچکی ہے۔ پولیس نے بنا ثبوت کے پریم مسیح کے گھر پر دھاوا بولا دونوں میاں بیوی کو گھسیٹتے ہوئے پولیس موبائل میں ڈال کر تھانے لے گئے۔

روایتی حربہ استعمال کرتے ہوئے گھر کی تمام چیزوں کو تہس نہس کردیا، نقدی اور زیورات بھی لے گئے۔ بعد میں جب تمام دستاویزات اور سرٹیفکیٹ سامنے آئے تو پولیس نے جان چھوڑی۔ لیکن یہ واقعہ ہوا کیوں؟ اور پولیس نے بغیر کسی ثبوت کے انیتا اور پریم کو گرفتار کیوں کیا؟ ایک اخباری نمایندے کو ایس۔ایچ او ٹنڈو غلام نے بتایا کہ انھیں (ایس ایچ او) جے یو آئی (ف) ضلع بدین کے امیر مولانا خان محمد جمالی سمیت مقامی رہنما حافظ زبیر احمد میمن نے فون کرکے اطلاع دی کہ گاؤں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک مسلمان لڑکی کو کرسچن فیملی نے زبردستی رکھا ہوا ہے۔

یہ اطلاع دے کر پولیس کو تصدیق کرنے کو کہا گیا۔ لہٰذا انھوں نے اپنے فرسودہ روایتی طریقے سے تفتیش کی اور جب جرم ثابت نہ ہوا تو بغیر معذرت کیے انیتا اور اس کے شوہر کو چھوڑ دیا گیا۔ یہ واقعہ پولیس کی نااہلی کا بین ثبوت ہے۔ انیتا کی یہ شکایت بجا ہے کہ وہ اقلیت ہیں لیکن پاکستانی ہیں۔ انھیں بھی اتنے ہی حقوق حاصل ہیں جتنے کسی دوسرے شہری کو۔ لیکن انیتا کرسچن ہے اور غریب ہے اس لیے پولیس نے ان پر ہاتھ ڈالنا اپنا فرض سمجھا۔ پتہ نہیں اس واقعے کا مقامی انتظامیہ نے کوئی نوٹس لیا یا نہیں۔

شاید انیتا اور اس کا شوہر میڈیا سے مدد مانگتے تو ان کا کیس مضبوط ہوکر سامنے آتا لیکن ایسا ہوا نہیں۔ غالباً ان کا سامان اور نقدی وغیرہ بھی واپس نہیں ملی۔ کیا یہ قائد اعظم کا پاکستان ہے جس میں اقلیتی اس قدر غیر محفوظ ہیں۔ جن مقتدر شخصیات کی جانب سے ایس ایچ او کو فون کرکے تصدیق کرنے کو کہا تھا کم ازکم ان میں اتنی اخلاقی جرأت تو ہونی چاہیے تھی کہ متاثرہ خاندان سے معذرت کرتے اور پولیس کو تنبیہہ تاکہ آیندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔

دوسرا تکلیف دہ واقعہ چارسدہ، شب قدر میں رونما ہوا جہاں ایک طالب علم نے توہین رسالت کا الزام لگا کر کالج کے پرنسپل سریر احمد کو قتل کردیا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ سیکنڈ ایئر کا طالب علم فہیم اشرف نے فیض آباد دھرنے میں شرکت کی تھی جس کے باعث اس کی حاضریاں کم تھیں اور اسے غیر حاضر ظاہر کیا گیا تھا۔ وقوعہ والے روز بھی غیر حاضر ہونے پر پرنسپل نے تنبیہہ کی تھی جس پر اشتعال میں آکر فہیم نے پرنسپل پر اندھا دھند گولیاں چلا دیں اور چلاتا رہا کہ پرنسپل توہین رسالت کا مرتکب ہوا تھا۔ ملزم کو گرفتار کرلیا گیاہے۔

مذکورہ طالب علم سیر سپاٹے کے لیے دوستوں کے ساتھ اسلام آباد گیا تھا جہاں کچھ وقت کے لیے وہ فیض آباد دھرنے میں بھی شریک ہوگیا تھا۔ جس کی وجہ سے کالج سے وہ غیر حاضر رہا۔ سوال یہ ہے کہ ایک کالج کے طالب علم کے پاس اسلحہ کہاں سے آیا؟ کیا مذکورہ کالج میں ہتھیار لانے اور ساتھ رکھنے کی اجازت ہے؟ اگر نہیں تو پھر ملزم کس طرح اس جرم کا مرتکب ہوا؟

افسوس اس بات کا ہے کہ لاکھوں کوششوں کے باوجود ہم مذہبی انتہا پسندی کی طرف جا رہے ہیں۔ تواتر سے اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں کہ کسی نے کسی پر بھی ''توہین رسالت'' کا الزام لگایا اور مجمع جمع ہوگیا۔ بغیر کسی تصدیق اور تفتیش کے الزام کو قبول کرلیا گیا۔ توہین رسالت کا کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔

حکومت کو ایسے واقعات کا نوٹس لینا چاہیے۔ ورنہ ہم دنیا بھر میں بدنام ہوجائیں گے۔بالکل ایسے ہی جیسے بہن یا بیٹی کو جائیداد میں سے حصہ نہ دینے کے لیے اسے قتل کردینا اور پھر کہنا کہ ''غیرت کے نام پہ قتل ہوا ہے'' کاروکاری ہو، غیرت کے نام پر قتل ہو یا توہین رسالت کا الزام لگا کر کسی کو بھی مار دینا، کسی طور پر بھی صحیح نہیں۔ لیکن افسوس کہ حکومت کو کسی بات کی فکر نہیں۔ جمہوریت کا ایک حسن تو یہ ہے کہ آمریت کے جاتے ہی ڈالر اوپر ہی اوپر اٹھ رہا ہے۔

دوسرے جمہوریت کے بچوں نے انتہا پسندی اور عصبیت کے شیش ناگوں کو جنم دے دیا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی ضیا الحق کا تحفہ ہے۔ افغانی اور ہیروئن بھی موصوف کی دین تھی اور اب جمہوریت کے پالنے میں مذہبی انتہا پسندی کو جھولا جھلایا جا رہا ہے۔ اے خدا ہم کہاں جا رہے ہیں۔ سیکنڈ ایئر کا ایک معمولی طالب علم اپنے ساتھ اسلحہ رکھتا ہے اور پرنسپل کو ڈانٹنے پر مار ڈالتا ہے یہ کہہ کر کہ اس نے ''توہین رسالت'' کی تھی۔ بہت خوب خاصا ہوشیار طالب علم لگتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔