شاہ زیب کے قاتل پکڑ میں آ گئے

شاہ زیب قتل کیس در حقیقت دولت کی طاقت اور قانون کی بالا دستی کے درمیان ایک جنگ پر مبنی ہے۔


طاہر نجمی February 04, 2018
[email protected]

KARACHI: یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کیے بغیر کوئی معاشرہ ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ ہمارے ملک میں ایک عدالتی نظام کام تو کر رہا ہے لیکن لوگوں کو بر وقت انصاف کی عدم فراہمی کی لا تعداد مثالیں ہر روز مشاہدے میں آتی ہیں جن سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پاکستان میں بالا دست طبقات اور کمزور و غریب کے لیے انصاف و قانون کے تقاضے الگ الگ ہیں، قانون عام انسان اور انصاف صرف اشرافیہ کے لیے ہے، جسکے پاس دولت ہے وہ کچھ بھی کریں، کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا، غریب آدمی چھوٹی سی بھی غلطی کر لے تو اسے بڑی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔

یہ تاثر اس وقت مزید پختہ ہوگیا جب گزشتہ دسمبر میں سندھ ہائی کورٹ نے شاہ زیب کو قتل کرنیوالے ملزمان کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیکر دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ خارج کردی تھی جس کے بعد ملزمان ضمانت پر رہا ہوگئے اس فیصلے سے پوری قوم بالخصوص قانون کی بالا دستی پر یقین رکھنے والوں کو ایک دھچکا سا لگا تھا اور مایوسی پھیلی تھی، قانون بالا دست طبقات کے سامنے بے بسی کی تصویر بن کر رہ گیا تھا، دولت کی چکا چوند میں قانون کی نظریں بھی چندھیائی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔

اس تاثر کو تقویت مل رہی تھی کہ پاکستان میں بالا دست طبقات نے قانون کو موم کی ناک بنا دیا ہے، جسے جب چاہتے ہیں، جیسے چاہتے ہیں، اپنی مرضی سے اپنے مفاد میں موڑ دیتے ہیں، ملزمان کی رہائی سے معاشرے میں یہ پیغام بھی گیا کہ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظریہ رائج ہے۔

تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے سے انصاف کا بول بالاہوتا اور قانون کی بالا دستی قائم ہونیکی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس مقدمے کی خاص بات یہ ہے کہ 5 سال قبل واقعہ رونما ہونے سے لے کر اب تک دولت کی طاقت کے زعم میں مبتلا قاتل کے ورثاء مجرم کو قانون کے شکنجے سے بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں، مقتول کے ورثاء کومبینہ طور پر ڈرا دھمکا کر صلح نامہ بھی کیا جاچکا ہے۔

قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر دولت کے بل بوتے پر انصاف سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے، جب قتل کی واردات ہوئی تب بھی ملزم قانون کو چکمہ دیکر بیرون ملک فرار ہوگیا تھا، اس وقت بھی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کی کاوشوں سے ملزم کی گرفتاری عمل میں لائی گئی تھی اور اب جب ملزم سزا سے بچ نکل رہے تھے تب بھی سپریم کورٹ ہی اپنا کردار ادا کرتی ہوئی نظر آرہی ہے اورامید پیدا ہوچلی ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے گا۔

پانچ سال قبل 24دسمبر2012ء کی رات مقتول شاہ زیب نے کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں بااثر باپ کے بیٹے شاہ رخ جتوئی اور اس کے دوستوں کو اپنی بہن سے چھیڑ خانی کرنے سے روکا تھا، جس پر دولت کے نشے میں سرشار ملزمان نے شاہ زیب کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا، اس واقعہ سے پورے ملک میں خوف کی لہر دوڑ گئی تھی،کیونکہ بہنیں ہر گھر میں موجود ہیں اور غیرت مند بھائی بھی۔یہ مقدمہ معاشرے میں قانون کی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے ایک بہترین کیس تھا۔ ابتداء میں اسے اسی طرح برتا بھی گیا، مگر پھر قانون طاقتوروں کے آگے ہانپنے لگا اور بالآخر ہانپتے ہانپتے چاروں شانے چت ہوگیا۔

سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ملزمان ضمانت پر رہا ہوگئے، قانون کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی اس سے زیادہ واضح مثال اور کیا ہوگی کہ جب تک ملزم قید میں رہا، وہ بیماری کا بہانہ کرکے اسپتال میں وقت گزارتا رہا، رہائی کا پروانہ ملتے ہی بیماری نو دو گیارہ ہوگئی، ملزم ہشاش بشاش اٹھ کر گھر کو روانہ ہوگیا۔ چونکہ شاہ زیب کے ورثا مجرمان کے ساتھ صلح کرچکے تھے اس لیے صاف نظر آرہا تھا کہ دولت جیت جائے گی، مگر بھلا ہو سول سوسائٹی کا کہ جس نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔

بعد ازاں چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے ان درخواستوں کو از خود نوٹس میں تبدیل کردیا، گزشتہ دنوں مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر مقدمے میں ملوث مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت سراج تالپور، مرتضیٰ لاشاری اور نواب سجاد علی تالپورکو دوبارہ گرفتار کرنیکا حکم دیدیا، عدالت کے حکم پر پولیس نے کمرہ عدالت میں موجود مجرمان کو گرفتار کرکے سینٹرل جیل کراچی منتقل کردیا، عدالت نے اپنے حکم میں وزارت داخلہ کو کہا کہ جب تک قتل کے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک مجرمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیے جائیں۔ عدالت نے ہائیکورٹ سے بھی کہا کہ وہ مجرمان کی اپیلوں کی درخواستوں پر اپنا فیصلہ 2ماہ میں سنائے۔

شاہ زیب قتل کیس در حقیقت دولت کی طاقت اور قانون کی بالا دستی کے درمیان ایک جنگ پر مبنی ہے، جس میں کبھی دولت کی طاقت کا پلڑا بھاری ہوجاتا ہے تو کبھی قانون کی بالا دستی غالب آجاتی ہے۔ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ باعث اطمینان ہے، اس سے قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانے اور عدالتی نظام میں اصلاحات لانیکا سنہری موقع میسر آیا ہے۔

یہاں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ بااثر طبقات نے قصاص و دیت کے اسلامی قانون کو بھی کھیل بنادیا ہے، اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں، کوئٹہ میں ٹریفک سارجنٹ کو کچلنے والے رکن بلوچستان اسمبلی عبدالمجید اچکزئی بھی ببانگ دہل اعلان کرتے رہے کہ میں خون بہا دینے کو تیار ہوں، قتل کی قیمت کتنی ہے، ایک لاکھ، دولاکھ، چار لاکھ، اور اب کراچی میں نقیب اللہ محسود کو ماورائے عدالت قتل کرنیوالے سابق ایس پی راؤ انوار نے بھی مقتول کے ورثاء کو قصاص و دیت کی پیشکش کردی ہے۔

اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر قتل کرنے والا مالدار اور بااثر ہے تو وہ باآسانی دیت کی رقم دیکر جتنے مرضی قتل کرتا پھرے، اس کو سو خون معاف کر دیے جائیں گے، دوسری جانب ہزارہا لوگ جیلوں میں ساری زندگی اس لیے سڑیں کہ ان کے پاس پیسہ نہیں جس کے دم پر وہ مخالفین کو دبا سکیں یا للچا سکیں۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اگر قاتل و مقتول کے خاندانوں میں غربت و امارت کا فرق حائل ہو تو کیا پھر دیت کا قانون لاگو ہوسکتا ہے؟

وطن عزیز میں لوگوں کو بروقت اور شفاف انداز میں انصاف نہ ملنے سے صورت حال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ عدالتی نظام میں اصلاحات لانا ناگزیر ہوگیا ہے، ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ نظام میں موجود خرابیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، اس کیس کو مثال بناکر ایسی اصلاحات متعارف کرا دی جائیں کہ آئندہ کوئی طاقتور کسی قانونی رعایت سے فائدہ نہ اٹھاسکے، اس بات کا بھی نوٹس لیا جائے کہ بااثر طبقات کس طرح قانون کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔

اگر کسی کو سزا مل بھی جاتی ہے تو وہ بیماری کا بہانہ بناکرپہلے جیل کے اسپتال اور پھر وہاں سے دوسرے اسپتال منتقل ہوجاتا ہے، شاہ زیب قتل کیس کا مجرم بھی اسی رعایت کا فائدہ اٹھاتا رہا اور اب توہین عدالت کے جرم میں سزا پانے والے نہال ہاشمی بھی اڈیالہ جیل پہنچتے ہی بیمار ہوگئے، انھیں اسپتال کے جیل میں بھیجنا پڑا۔ لہذا ضروری ہے کہ بااثر طبقات جن قانونی رعایتوں کا فائدہ اٹھاکر قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کے لیے ایسے تمام راستے بند کر دیے جائیں۔

خوش آئند امر یہ ہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار عدلیہ میں اصلاحات لانیکی ضرورت پر مختلف مواقع پر زور دینے کے بعد اس کی عملی شروعات بھی کر چکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سپریم کورٹ سے لے کر سول عدالتوں تک ہر سطح پر عدالتی اصلاحات کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کندھے سے کندھا ملا کر چلیں۔

عدلیہ کے لوگوں اور بالخصوص وکلاء کو اس نیک کام میں چیف جسٹس کا ہاتھ بٹانا چاہیے، قوانین میں تبدیلی پارلیمان کا کام ہے جب کہ عدلیہ کا کام قانون کی تشریح اور اس کے تحت فیصلہ کرنا ہے۔ ارکان مقننہ کو اپنی توجہ قانون سازی پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ عدالتی نظام کو ایسا بنادیا جائے کہ آئندہ کوئی اس سے نا جائز فائدہ نہ اٹھاسکے، ملزم خواہ کوئی بھی ہو کسی طورپربھی انصاف کے آہنی شکنجے سے بچ کر نہیں نکلنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔