شاہ زیب قتل کیس 2گواہوں کا بیان قلم بند جرح بھی مکمل
خصوصی عدالت میں گواہ پولیس اہلکار غلام عباس اور اے ایس آئی ریاض نے بیان دیے
شاہ زیب قتل کیس میں منگل کو 2گواہوں کا بیان قلم بند کرلیا گیا اور جرح بھی مکمل ہوگئی۔
عدالت نے ملزم کو بی کلاس کی سہولت فراہم کرنے کی درخواست پر سرکار کو نوٹس جاری کردیے، درخواست پر بدھ کو بحث ہوگی۔ منگل کو مقدمے میں نامزد شاہ رخ جتوئی، سجاد تالپور، اس کے بھائی سراج تالپور اور غلام مرتضٰی لاشاری کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج غلام مصطفیٰ میمن کے روبرو پیش کیا گیا۔ استغاثہ نے 2گواہوں کو پیش کیا تھا۔گواہ پولیس اہلکار غلام عباس نے اپنے بیان میں عدالت کو بتایا کہ وقوع کے روز وہ تھانے میں موجود تھا کہ سب انسپکٹر یاسین نے بتایا کہ علاقے میں فائرنگ ہوئی ہے۔
وہ ان کے ہمراہ جائے وقوع پر پہنچے تاہم وہاںکوئی نہیں تھا۔ موجود لوگوں نے بتایا کہ فائرنگ سے زخمی ہونے والے کو اسپتال لے گئے ہیں۔ وہ پولیس افسر کے ہمراہ ضیاء الدین اسپتال پہنچے جہاں زخمی ہلاک ہوچکا تھا ۔گواہ کے بیان پر وکیل صفائی جاوید میر ایڈووکیٹ نے جرح کی اور سوال کیاکہ کیا انھیںجائے وقوع پر گولیوں کے خول ملے تھے ؟جسکے جواب میں گواہ نے انکار کیا اور بتایا کہ انکے پہنچنے سے قبل 15کی موبائل نے خول برآمد کیے تھے۔
ایک اور سوال پر گواہ نے بتایا کہ مدعی کے بیان کے موقع پر اسکے عزیز اقارب بھی موجود تھے۔ دوسرے گواہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر ریاض احمد نے اپنے بیان میں بتایا کہ ملزم شاہ زیب نے تھانے میں اسکی موجودگی میں گاڑی میں رکھے بستول برآمدکرانے کا اعتراف کیا تھا۔ وہ تفتیشی افسر مبین اور ملزم کے ہمراہ گئے تھے، ملزم کی نشاندہی پر گاڑی ایک پلاٹ میں موجود تھی اور ملزم نے گاڑی کا دروازہ کھول کر پستول برآمد کرایا تھا۔
وکیل صفائی نے سوال کیا کہ کیا گاڑی کا دروازہ کھلا ہوا تھا؟ جس پر گواہ نے حامی بھری اور دوسرے سوال پر بھی کہا کہ جہاں گاڑی کھڑی تھے وہ آمد ورفت کے لحاظ سے مصروف علاقہ ہے۔ فاضل عدالت نے وکیل صفائی کی جرح مکمل ہونے کے بعد سماعت بدھ تک ملتوی کردی ، اس موقع پر وکیل صفائی نے فاضل عدالت میں ملزم کو جیل میں بی کلاس کی سہولت فراہم کرنے سے متعلق درخواست دائر کردی جس پر فاضل عدالت نے سرکار کو نوٹس جاری کیے۔ وکیل صفائی کی جانب سے عدالت میں پیش کردہ ملزم کی نشاندہی پر برآمد پستول کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔
عدالت نے ملزم کو بی کلاس کی سہولت فراہم کرنے کی درخواست پر سرکار کو نوٹس جاری کردیے، درخواست پر بدھ کو بحث ہوگی۔ منگل کو مقدمے میں نامزد شاہ رخ جتوئی، سجاد تالپور، اس کے بھائی سراج تالپور اور غلام مرتضٰی لاشاری کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج غلام مصطفیٰ میمن کے روبرو پیش کیا گیا۔ استغاثہ نے 2گواہوں کو پیش کیا تھا۔گواہ پولیس اہلکار غلام عباس نے اپنے بیان میں عدالت کو بتایا کہ وقوع کے روز وہ تھانے میں موجود تھا کہ سب انسپکٹر یاسین نے بتایا کہ علاقے میں فائرنگ ہوئی ہے۔
وہ ان کے ہمراہ جائے وقوع پر پہنچے تاہم وہاںکوئی نہیں تھا۔ موجود لوگوں نے بتایا کہ فائرنگ سے زخمی ہونے والے کو اسپتال لے گئے ہیں۔ وہ پولیس افسر کے ہمراہ ضیاء الدین اسپتال پہنچے جہاں زخمی ہلاک ہوچکا تھا ۔گواہ کے بیان پر وکیل صفائی جاوید میر ایڈووکیٹ نے جرح کی اور سوال کیاکہ کیا انھیںجائے وقوع پر گولیوں کے خول ملے تھے ؟جسکے جواب میں گواہ نے انکار کیا اور بتایا کہ انکے پہنچنے سے قبل 15کی موبائل نے خول برآمد کیے تھے۔
ایک اور سوال پر گواہ نے بتایا کہ مدعی کے بیان کے موقع پر اسکے عزیز اقارب بھی موجود تھے۔ دوسرے گواہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر ریاض احمد نے اپنے بیان میں بتایا کہ ملزم شاہ زیب نے تھانے میں اسکی موجودگی میں گاڑی میں رکھے بستول برآمدکرانے کا اعتراف کیا تھا۔ وہ تفتیشی افسر مبین اور ملزم کے ہمراہ گئے تھے، ملزم کی نشاندہی پر گاڑی ایک پلاٹ میں موجود تھی اور ملزم نے گاڑی کا دروازہ کھول کر پستول برآمد کرایا تھا۔
وکیل صفائی نے سوال کیا کہ کیا گاڑی کا دروازہ کھلا ہوا تھا؟ جس پر گواہ نے حامی بھری اور دوسرے سوال پر بھی کہا کہ جہاں گاڑی کھڑی تھے وہ آمد ورفت کے لحاظ سے مصروف علاقہ ہے۔ فاضل عدالت نے وکیل صفائی کی جرح مکمل ہونے کے بعد سماعت بدھ تک ملتوی کردی ، اس موقع پر وکیل صفائی نے فاضل عدالت میں ملزم کو جیل میں بی کلاس کی سہولت فراہم کرنے سے متعلق درخواست دائر کردی جس پر فاضل عدالت نے سرکار کو نوٹس جاری کیے۔ وکیل صفائی کی جانب سے عدالت میں پیش کردہ ملزم کی نشاندہی پر برآمد پستول کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔