اسلام آباد یونائیٹڈ پی ایس ایل ون کی کارکردگی دہرانے کے لیے پر عزم

اولین ایڈیشن کی چیمپئن ٹیم کے مالک علی نقوی کا خصوصی انٹرویو۔


اولین ایڈیشن کی چیمپئن ٹیم کے مالک علی نقوی کا خصوصی انٹرویو۔ فوٹو: ایکسپریس

MIRPUR: پاکستان سپرلیگ کے پہلے ایڈیشن میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔ مصباح الحق کی قیادت میں ٹیم نے بڑے ناموں پر مشتمل حریف ٹیوں کو زیر کیا۔

گزشتہ سال دوسرے ایڈیشن کے آغاز میں ہی سپاٹ فکسنگ سکینڈل کی وجہ سے اسلام آباد یونائیٹڈ اپنے اہم ترین کھلاڑیوں سے محروم ہو گئی جس کا اثر کارکردگی پر بھی پڑا۔ اس بار ٹیم بھرپور تیاریوں اور مربوط پلاننگ کے ساتھ میدان میں اتر رہی ہے۔

فرنچائز کے مالک علی نقوی کے ساتھ ''ایکسپریس'' کی خصوصی نشست میں ہونے والی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔

ایکسپریس: پی ایس ایل کا تیسرا ایڈیشن قریب آ گیا ہے، کیسی تیاریاں چل رہی ہیں؟

علی نقوی: زبردست تیاریاں ہیں، گزشتہ ایونٹ میں سپاٹ فکسنگ سکینڈل کی وجہ سے ٹیم کا توازن بگڑ گیا تھا، 2 اوپنرز، ایک اہم بولر اور ایک آل راؤنڈر کی خدمات سے محروم ہو گئے تھے، اس بار سکواڈ بڑا متوازن ہے،دنیا کے بہترین آل راؤنڈرز میں سے ایک آندرے رسل بھی آ رہے ہیں، پوری امید ہے کہ ٹیم پہلے ایڈیشن کی طرح بہترین کارکردگی پیش کرتے ہوئے فتوحات کا سفر جاری رکھے گی۔

ایکسپریس:وسیم اکرم کی رخصتی اور وقار یونس کی خدمات حاصل ہونے سے ٹیم کی کارکردگی پر کیا فرق پڑیگا؟

علی نقوی: ٹو ڈبلیوز صرف پاکستان کے ہی نہیں دنیا کے عظیم کرکٹرز میں شمار ہوتے ہیں،لیفٹ آرم پیسر نے اسلام آباد یونائیٹڈ کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا، انہوں نے بہترین انداز میں کھلاڑیوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی، دوسری جانب وقار یونس کوچنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، قومی ٹیم کے ساتھ بھی کام کر چکے، خاص بات یہ ہے کہ سابق سپیڈ سٹار نئے ٹیلنٹ کو نکھارنے میں گہری دلچسپی لیتے ہیں، ان میں کام کرنے کا بڑا جذبہ ہے، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ناصرف موجودہ ٹیم کی کارکردگی بہتر بنائیں گے بلکہ نئے باصلاحیت کھلاڑیوں کو سامنے لانے کا مشن بھی پورا کریں گے۔

ایکسپریس:وسیم اکرم کا زیادہ زور سکواڈ میں آل راؤنڈرز کی شمولیت پر رہا، کیا وقار یونس بھی اسی حکمت عملی پر کاربند رہیں گے؟

علی نقوی: سلیکشن کے معاملات میں میں کوئی مداخلت نہیں کرتا، سکواڈ کے حوالے سے فیصلے کوچ،کپتان اور اینالسٹ باہمی مشاورت سے کرتے ہیں، دوسری طرف یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں آل راؤنڈرز اہم کردار ادا کرتے ہیں، فہیم اشرف اور آندرے رسل کی موجودگی میں یہ شعبہ کافی مستحکم ہو گا لیکن صرف آل راؤنڈرز پر ہی انحصار نہیں کیا جا سکتا، ٹیم متوازن ہونی چاہیے جس میں ہر کھلاڑی کو اپنے رول اور ذمہ داری کا اندازہ ہو۔

ایکسپریس:شاداب خان تھوڑے عرصے میں ہی ایک سٹار کے طور پر ابھرے ہیں، اسلام آباد یونائیٹڈ کے لئے یہ بڑے فخر کی بات ہو گی؟

علی نقوی: نوجوان کرکٹر کو صلاحیتوں کی بنیاد پر ہی منتخب کیا تھا، اہم بات یہ ہوتی ہے سامنے آنے والے ٹیلنٹ کو مزید نکھار کر طویل کیریئر کی بنیاد رکھی جائے،ہمارے لئے بڑی خوشی کی بات ہے کہ شاداب خان کرکٹ کے میدانوں میں ملک کی خدمت کر رہے ہیں، اتنی کم عمری میں انٹرنیشنل سطح پر پذیرائی ملنے کا فائدہ یہ ہے کہ مزید 20 سال تک کھیل سکتے ہیں۔ اسلام آباد یونائیٹڈ پاکستان کرکٹ کو مزید کئی سٹارز دینے کیلئے کوشاں ہے، حسین طلعت ڈومیسٹک کرکٹ کے بہترین پرفارمر ہیں، پی ایس ایل میں ابھی ان کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے نہیں آئیں،امید ہے کہ آگے چل کر وہ بھی ایک بڑے کرکٹر کے روپ میں سامنے آئیں گے، صاحبزادہ فرحان میں بھی بے پناہ ٹیلنٹ ہے جس کی ایک جھلک شائقین دیکھ بھی چکے ہیں۔

ایکسپریس:کیا فرنچائز پی ایس ایل کے علاوہ دیگر لیگز میں بھی اپنی ٹیموں کو بھیجنے کا پلان رکھتی ہے؟

علی نقوی: فرنچائز کرکٹ میں دو چیزیں اہم ہوتی ہیںِ، پہلی یہ کہ کھلاڑیوں کا معاشی تحفظ یقینی بنایا جائے، دوسری یہ کہ اتنی زیادہ کرکٹ نہ کھلائیں کہ پلیئرز ذہنی اور جسمانی طور پر تھکاوٹ کا شکار نظر آئیں، دنیائے کرکٹ میں اسلام آباد یونائیٹڈ کی اچھی پہچان ضرور چاہتے ہیں لیکن کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہتے کہ یہ دونوں پہلو نظر انداز ہو جائیں۔

ایکسپریس:سپاٹ فکسنگ سیکنڈل کے بعد اسلام آباد یونائیٹڈ کا بحرانی صورتحال سے نکلنے کا تجربہ کیسا رہا؟

علی نقوی: اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا کمبی نیشن بری طرح متاثر ہوا، 4 اہم ترین پلیئرز ایک دم سکواڈ سے نکل جائیں تو بیٹنگ بولنگ دونوں بری طرح متاثر ہوتے ہیں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ اتنا بڑا جھٹکا لگنے کے باوجود ٹیم بکھری نہیں، قومی ٹیم کی الگ بات ہوتی ہے لیکن پی ایس ایل میں کھلاڑی مختلف ملکوں کے شامل ہوتے ہیں، اس طرح کے حالات میں ٹیمیں ٹوٹ جاتی ہیں لیکن اسلام آباد یونائیٹڈ کا شیرازہ نہیں بکھرا، میچز کھیلے اور آخر تک حریف ٹیموں کا مقابلہ بھی کیا۔

ایکسپریس:اس ضمن میں کس کا کردار سب سے اہم رہا؟

علی نقوی: مصباح الحق میرے رشتہ دار نہیں، پڑھے لکھے اور متوازن شخصیت کے حامل ہونے کی وجہ سے وہ مشکل صورتحال میں بھی گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوتے، پی سی بی نے سپاٹ فکسنگ سکینڈل کا بتایا تو میرے ساتھ ڈین جونز اور وسیم اکرم موجود تھے، تینوں نے بات کی ، ظاہر ہے کہ ایک ان چاہی صورتحال اچانک سامنے آ گئی تھی، مصباح الحق کو بلایا گیا تو انہوں نے کہا کہ نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن جو ہو گیا اس کو تو نہیں ٹال سکتے، سب کو مل کر ٹیم کو آگے لے کر چلنا ہو گا، پھر مصباح الحق نے تمام پلیئرز کو متحد رکھا اور ٹیم ایکشن میں نظر آئی، برے وقت میں کپتان اور کھلاڑیوں کی ثابت قدمی پر آسٹریلوی کرکٹر شین وارن بھی حیران تھے اور انہوں نے دل کھول کر اس جذبے کی تعریف کی، مصباح الحق کی شخصیت کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ وہ بظاہر زیادہ متحرک نظر نہ آنے کے باوجود پوری طرح کھیل میں توجہ رکھتے ہوئے اہم اور بروقت فیصلے کرتے ہیں، بیٹسمین تو وہ خود بھی بہت اچھے لیکن بولرز کا بہترین استعمال کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں، مثال کے طور پر محمد عرفان بولنگ کر رہے ہوں تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مصباح خود بھی ان کے ساتھ پورے ایکشن کا حصہ ہیں۔

ایکسپریس:کیا شائقین پی ایس ایل کے تمام میچز پاکستان میں دیکھنے کی امید کر سکتے ہیں؟

علی نقوی: پی سی بی، فرنچائزز، شائقین سب کی خواہش ہے کہ پاکستان پورے ایونٹ کی میزبانی کرے، ایسا ضرور ہو گا لیکن کب فی الحال اس کے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا، لاہور میں پی ایس ایل فائنل کا انعقاد، ورلڈ الیون کی آمد، ٹی ٹوئنٹی میچ میں سری لنکا کی میزبانی اس ضمن میں اٹھائے جانے والے بڑے مثبت اقدامات ہیں، رواں سال لاہور میں 2 میچز کے بعد کراچی میں فائنل انتہائی اہمیت کا حامل ہے، شہرِ قائد میں میچ کے انعقاد کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ دیگر شہروں میں بھی کرکٹ ہو سکتی ہے، میری خواہش ہے کہ اگلے سال کم از کم 10 میچ پاکستان کے مختلف شہروں میں ہوں۔

ایکسپریس:کیا اتنی بڑی تعداد میں میچز کے لئے غیرملکی کرکٹرز تیار ہو جائیں گے؟

علی نقوی: اس ضمن میں بہادرانہ سوچ رکھنی ہو گی، نہیں آنا چاہتے تو نہ آئیں، لیگ اپنے قدموں پر کھڑی ہو رہی ہے، ورلڈ الیون اور سری لنکا کی آمد سے غیرملکی کرکٹرز کو قائل کرنے کے لئے مثال مل چکی، بتدریج آگے بڑھتے رہنا ہو گا۔

ایکسپریس:کیا مصباح الحق اور دیگر قومی کرکٹرز غیرملکیوں کو پاکستان آنے کیلئے قائل کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں؟

علی نقوی: جی! مصباح الحق سمیت سب کی بات ہوتی ہے، اسلام آباد یونائیٹڈ نے ڈین جونز کو بادشاہی مسجد میں آزادی سے گھومتے پھرتے اور میدان میں کھیلتے دکھایا، غیرملکیوں کی پرامن ماحول میں میزبانی کی دیگر مثالوں میں بھی اہم کردار ادا کیا، یہ سلسلہ جاری رکھنا ہو گا، ہم کوئٹہ میں نمائشی میچ کروائیں گے، 15 ہزار لوگ ایک اچھے ماحول میں کھیل سے لطف اندوز ہوں گے تو دنیا کو ایک اور مثبت پیغام جائے گا۔

ایکسپریس:پی ایس ایل کا ایونٹ ختم ہوتے ہی فرنچائزز کی طرف سے خاموشی دیکھنے میں آتی ہے، کیا کچھ ایسا پروگرام ہے کہ سرگرمیاں سال بھر جاری رہیں؟

علی نقوی: مارچ میں ایونٹ ختم ہونے کے بعد فوری طور پر تو لوگوں کی توجہ حاصل کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، بہرحال تھوڑے وقفے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ سرگرمیاں شروع کر دیں گے، ہمارے گزشتہ ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام میں 25 سے 30 ہزار کھلاڑی شریک ہوئے، یہ پروگرام راولپنڈی اور اسلام آباد تک محدود تھے لیکن بدین اور لاڑکانہ سے بھی پلیئرز آئے، مقامی رنگ دینے کے لئے ٹیمیں بھی مختلف علاقوں کے ناموں پر رکھی گئی تھیں، حسین طلعت اور دیگر نامور کرکٹرز کو ٹیموں میں شامل کیا گیا تاکہ نوجوان کھلاڑیوں کو سٹارز کی موجودگی میں آگے بڑھنے کی تحریک ملے، رواں سال زیادہ ایونٹس ہوں گے جن کا سلسلہ جون سے شروع ہو گا اور چوتھے ایڈیشن کے آغاز تک جاری رہے گا۔

ایکسپریس:ہانگ کانگ لیگ میں اسلام آباد یونائیٹڈ کی شرکت کا تجربہ کیسا رہا؟

علی نقوی: یہ چھوٹی لیگ ہے تاہم ہانگ کانگ میں بڑی تعداد میں پاکستانی آباد ہیں، ایشین کمیونٹی بھی کافی ہے ، وہاں کرکٹ کے فروغ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، ابھی تک یہ تجربہ خوشگوار رہا۔

ایکسپریس:کیا اسلام آباد یونائیٹڈ کی انٹرنیشنل سطح پر پہچان کے لئے بھی کچھ اقدامات اٹھائے ہیں؟

علی نقوی: پی ایس ایل پاکستان کی پراڈکٹ ہے، اس کے بڑے خریدار بھی ابھی تک ملک میں ہی ہیں، سوشل میڈیا پر پرستاروں کی تعداد کے لحاظ سے پی ایس ایل کے بعد اسلام آباد یونائیٹڈ دوسرے نمبر پر ہے، اس میں 44 ملکوں سے تعلق رکھنے والے شائقین شامل ہیں، زیادہ تر پاکستانی ہوں گے لیکن دیگر بھی ہیں،ہماری طرف سے پیغامات انگلش میں دیئے جانے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ شائقین تک بھی پہنچ سکیں۔

ایکسپریس:پی ایس ایل میں کن کرکٹرز کو اپنا فیورٹ سمجھتے ہیں؟

علی نقوی: اپنے سکواڈ میں شامل تمام کھلاڑیوں کو ہی بہترین سمجھتا ہوں، خواہش ہے کہ اسلام آباد یونائیٹڈ کا نیا ٹیلنٹ جمع کر کھیلے۔ میری نظر میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کیون پیٹرسن غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل اور اکثر کئی غیریقینی سٹروکس کھیل جاتے ہیں، لاہور قلندرز میں یاسر شاہ کی مہارت اور جذبہ قابل تعریف ہے، محمد عامر کراچی کنگز کے لئے بہترین ا ثاثہ ہیں، پشاور زلمی میں ڈیرن سیمی کا رویہ اور سپرٹ بڑی اہمیت رکھتی ہے، حسن علی اپنی کارکردگی سے گہرا تاثر چھوڑتے ہیں، ملتان سلطانز طویل قامت اور نیچرل ٹیلنٹ کا بہتر انداز میں فائدہ اٹھائیں تو محمد عرفان تہلکہ مچا سکتے ہیں۔

ایکسپریس:پی ایس ایل کے کچھ معاملات میں پی سی بی پر تنقید بھی ہوتی ہے، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

علی نقوی: پی ایس ایل ون ایک مشن کے طور پر لیا گیا اور سب کے بھرپور جذبے کی بدولت کامیاب ہوا، ایونٹ کے انعقاد میں پی سی بی، فرنچائزز، میڈیا، پرستار سب نے بھرپور معاونت کی، اب اس پراپرٹی کو بچانا اور آگے بڑھانا ہے، اس ضمن میں کوئی مصلحت آڑے نہیں آنی چاہیے۔

ایکسپریس:پی ایس ایل کے مالی معاملات پر مطمئن ہیں؟

علی نقوی: فی الحال پریشانی کی کوئی بات نہیں، گزشتہ دنوں واجبات کی ادائیگیوں کے حوالے سے کچھ خبریں آئی تھیں، چھوٹے موٹے مسائل ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کو منظر عام پر نہیں آنا چاہیے تھا، ہمیں ادائیگی میں کوئی دقت نہیں ہوئی، سب معاملات کلیئر ہیں تاہم میرے خیال میں بہتر ہو گا کہ میڈیا رائٹس بھی پی سی بی فروخت کرے اور آمدن کا ایک مرکزی ذریعہ ہو جس میں سب کا فائدہ ہے، میری نظر میں مارکیٹنگ وغیرہ کے مسائل بہت چھوٹے ہیں، اگر ہم پی ایس ایل کا معاشی تحفظ اور ساکھ دونوں یقینی بنا لیں تو مستقبل روشن سے روشن تر ہوتا جائے گا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں