انڈر19 ورلڈکپ میں بھارت کی ٹائٹل فتح پاکستان نمبر 3 تو بن گیا مگر
ایسی ہار ناقابل قبول اور اس سے ہمارے کرکٹ سسٹم میں موجود خامیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔
انڈر19 ورلڈکپ کا بھارت کی فتح کے ساتھ اختتام ہو گیا، فائنل میں جس سنسنی خیز مقابلے کی توقع تھی ویسا نہیں ہوا، بھارتی ٹیم نے حریف کو آؤٹ کلاس کر دیا، ایسا لگتا تھا کہ آسٹریلوی جونیئرز ذہنی طور پر میچ سے قبل ہی شکست تسلیم کر چکے تھے اس لیے وہ بیٹنگ کے بعد بولنگ میں بھی بجھے بجھے دکھائی دیے۔
بھارت کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کے پاس اچھے فاسٹ بولرز موجود نہیں مگر اب سینئر کی طرح جونیئر لیول پر بھی اسے کئی اچھے پیسرز کا ساتھ میسر آ گیا ہے، انڈر19 ٹیم میں شامل کملیش نگار کوٹی اور شیوم ماوی نے پورے ایونٹ میں اچھی رفتار سے سوئنگ بولنگ کی۔
فائنل میں تو تمام ہی بولرز نے اپنا کردار بخوبی نبھایا اور آسٹریلیا کو 216 رنز سے آگے نہ بڑھنے دیا، حالانکہ نیوزی لینڈ کی کنڈیشنز ان کے اپنے ملک جیسی ہی ہیں پھر بھی کینگرو بیٹسمین اچھا کھیل پیش نہ کر سکے، بعد میں منجوت کارلا نے سنچری بنا کر بھارت کو آسانی سے ٹرافی کا حقدار بنا دیا، دیگر بیٹسمینوں نے بھی فتح میں اپنا حصہ ڈالا،اس سے پہلے ایونٹ میں شبمان گل بہترین بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے چلے آئے تھے۔
آسٹریلوی بولرز بھی شاید پہلے ہی ہمت ہار چکے تھے اس لیے انھوں نے زیادہ محنت نہیں کی، عمدہ کھیل کی بدولت بھارتی ٹیم بلاشبہ اس فتح کی حقدار تھی، اس میں سابق اسٹار راہول ڈریوڈ کا بھی بڑا کردار ہے، انھوں نے نوجوان کھلاڑیوں کی بہترین رہنمائی کر کے انھیں اس قابل بنایا کہ بڑی بڑی ٹیموں کو ٹف ٹائم دے سکیں، میں نے نیوزی لینڈ میں ایونٹ کے کئی میچز کی کوریج کی۔
اس دوران ایک دن ایئرپورٹ پر راہول ڈریوڈ سے بھی ملاقات ہوئی، اس وقت میں یہی سوچ رہا تھا کاش ہمیں بھی ان جیسا کوئی سابق اسٹار مل جائے تو پاکستانی جونیئر ٹیم کی قسمت بدل جائے مگر بدقسمتی سے ہمارے سابق عظیم کرکٹرز کو سینئرز کی کوچنگ میں ہی زیادہ دلچسپی ہے،کیونکہ اس میں زیادہ پیسہ، میڈیا کی توجہ وغیرہ ہے۔
ایونٹ میں پاکستان نے تیسری پوزیشن حاصل کی لیکن میں سمجھتا ہوں مجموعی کارکردگی اتنی اچھی نہیں تھی، ٹیم افغانستان سے لگاتار تین میچز ہار چکی ہے اور مجھے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ تیسری پوزیشن کا میچ جیت جاتی، وہ تو قسمت نے ساتھ دیا اور بارش کے سبب بغیر کھیلے ہی ایونٹ کا بہتر اختتام کر لیا۔
ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں افغانستان سے شکست کے بعد گرین شرٹس نے آئرلینڈ، سری لنکا اور جنوبی افریقہ کو زیر کر کے سیمی فائنل میں جگہ بنائی جہاں بھارت نے203 رنز سے آؤٹ کلاس کر دیا، ٹیم صرف69 رنز پر ڈھیر ہو گئی جو افسوسناک تھا۔ ایسی ہار ناقابل قبول اور اس سے ہمارے کرکٹ سسٹم میں موجود خامیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔
پی سی بی کو چاہیے کہ ایک کمیٹی بنا کر شکست کی وجوہات کا جائزہ لے اورخامیوں کو دور کرے تب ہی کوئی بہتری آئے گی، یونس خان یا مصباح الحق جیسے کسی سابق کھلاڑی کو جونیئر ٹیم کا تین سال کیلیے کوچ بنا کر اسے مکمل اختیارات دیے جائیں، راتوں رات تو نہیں لیکن امید ہے کھیل میں بہتری ضرور آئے گی، ہمیں نوعمر کھلاڑیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے، انھیں جو سہولتیں، کوچنگ وغیرہ ملی انھوں نے اسی کے مطابق پرفارم کیا، اب بورڈ مثبت اقدامات کرے تو اگلے ورلڈکپ میں ٹیم مختلف روپ میں نظر آئے گی۔
آخر میں کچھ اپنے دورئہ نیوزی لینڈ کا بھی ذکر کر دوں، میں نے یہاں سینئر ٹیم کے بعد جونیئرز کے بھی کئی میچز دیکھے، افسوس کی بات یہ ہے کہ ٹیم مینجمنٹ نے کھلاڑیوں کے انٹرویوز کا موقع نہ دیا، میں نے میڈیا منیجر سے سرفراز احمد اور محمد عامر کے انٹرویوز کیلیے درخواست کی جو قبول نہ کی گئی، ٹور میں موجود واحد پاکستانی صحافی کے ساتھ ایسا سلوک افسوسناک ہی قرار دیا جا سکتا ہے، البتہ انڈر19 ٹیم کے کئی کرکٹرز سے بات چیت کا موقع ملا،مجھے امید ہے کہ ان میں سے کئی مستقبل کے اسٹارز ثابت ہوںگے، اس کیلیے بس انھیں مسلسل محنت کا سلسلہ جاری رکھنا ہو گا۔
بھارت کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کے پاس اچھے فاسٹ بولرز موجود نہیں مگر اب سینئر کی طرح جونیئر لیول پر بھی اسے کئی اچھے پیسرز کا ساتھ میسر آ گیا ہے، انڈر19 ٹیم میں شامل کملیش نگار کوٹی اور شیوم ماوی نے پورے ایونٹ میں اچھی رفتار سے سوئنگ بولنگ کی۔
فائنل میں تو تمام ہی بولرز نے اپنا کردار بخوبی نبھایا اور آسٹریلیا کو 216 رنز سے آگے نہ بڑھنے دیا، حالانکہ نیوزی لینڈ کی کنڈیشنز ان کے اپنے ملک جیسی ہی ہیں پھر بھی کینگرو بیٹسمین اچھا کھیل پیش نہ کر سکے، بعد میں منجوت کارلا نے سنچری بنا کر بھارت کو آسانی سے ٹرافی کا حقدار بنا دیا، دیگر بیٹسمینوں نے بھی فتح میں اپنا حصہ ڈالا،اس سے پہلے ایونٹ میں شبمان گل بہترین بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے چلے آئے تھے۔
آسٹریلوی بولرز بھی شاید پہلے ہی ہمت ہار چکے تھے اس لیے انھوں نے زیادہ محنت نہیں کی، عمدہ کھیل کی بدولت بھارتی ٹیم بلاشبہ اس فتح کی حقدار تھی، اس میں سابق اسٹار راہول ڈریوڈ کا بھی بڑا کردار ہے، انھوں نے نوجوان کھلاڑیوں کی بہترین رہنمائی کر کے انھیں اس قابل بنایا کہ بڑی بڑی ٹیموں کو ٹف ٹائم دے سکیں، میں نے نیوزی لینڈ میں ایونٹ کے کئی میچز کی کوریج کی۔
اس دوران ایک دن ایئرپورٹ پر راہول ڈریوڈ سے بھی ملاقات ہوئی، اس وقت میں یہی سوچ رہا تھا کاش ہمیں بھی ان جیسا کوئی سابق اسٹار مل جائے تو پاکستانی جونیئر ٹیم کی قسمت بدل جائے مگر بدقسمتی سے ہمارے سابق عظیم کرکٹرز کو سینئرز کی کوچنگ میں ہی زیادہ دلچسپی ہے،کیونکہ اس میں زیادہ پیسہ، میڈیا کی توجہ وغیرہ ہے۔
ایونٹ میں پاکستان نے تیسری پوزیشن حاصل کی لیکن میں سمجھتا ہوں مجموعی کارکردگی اتنی اچھی نہیں تھی، ٹیم افغانستان سے لگاتار تین میچز ہار چکی ہے اور مجھے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ تیسری پوزیشن کا میچ جیت جاتی، وہ تو قسمت نے ساتھ دیا اور بارش کے سبب بغیر کھیلے ہی ایونٹ کا بہتر اختتام کر لیا۔
ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں افغانستان سے شکست کے بعد گرین شرٹس نے آئرلینڈ، سری لنکا اور جنوبی افریقہ کو زیر کر کے سیمی فائنل میں جگہ بنائی جہاں بھارت نے203 رنز سے آؤٹ کلاس کر دیا، ٹیم صرف69 رنز پر ڈھیر ہو گئی جو افسوسناک تھا۔ ایسی ہار ناقابل قبول اور اس سے ہمارے کرکٹ سسٹم میں موجود خامیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔
پی سی بی کو چاہیے کہ ایک کمیٹی بنا کر شکست کی وجوہات کا جائزہ لے اورخامیوں کو دور کرے تب ہی کوئی بہتری آئے گی، یونس خان یا مصباح الحق جیسے کسی سابق کھلاڑی کو جونیئر ٹیم کا تین سال کیلیے کوچ بنا کر اسے مکمل اختیارات دیے جائیں، راتوں رات تو نہیں لیکن امید ہے کھیل میں بہتری ضرور آئے گی، ہمیں نوعمر کھلاڑیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے، انھیں جو سہولتیں، کوچنگ وغیرہ ملی انھوں نے اسی کے مطابق پرفارم کیا، اب بورڈ مثبت اقدامات کرے تو اگلے ورلڈکپ میں ٹیم مختلف روپ میں نظر آئے گی۔
آخر میں کچھ اپنے دورئہ نیوزی لینڈ کا بھی ذکر کر دوں، میں نے یہاں سینئر ٹیم کے بعد جونیئرز کے بھی کئی میچز دیکھے، افسوس کی بات یہ ہے کہ ٹیم مینجمنٹ نے کھلاڑیوں کے انٹرویوز کا موقع نہ دیا، میں نے میڈیا منیجر سے سرفراز احمد اور محمد عامر کے انٹرویوز کیلیے درخواست کی جو قبول نہ کی گئی، ٹور میں موجود واحد پاکستانی صحافی کے ساتھ ایسا سلوک افسوسناک ہی قرار دیا جا سکتا ہے، البتہ انڈر19 ٹیم کے کئی کرکٹرز سے بات چیت کا موقع ملا،مجھے امید ہے کہ ان میں سے کئی مستقبل کے اسٹارز ثابت ہوںگے، اس کیلیے بس انھیں مسلسل محنت کا سلسلہ جاری رکھنا ہو گا۔