عوام کو ریلیف دینے کی ضرورت
قومی اداروں اور اقتصادی شعبوں میں رابطہ، تعلقات کار اور اشتراک...
کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہفتہ وار بنیادوں پر مقرر کرنے، 3 لاکھ ٹن کھاد درآمد کرنے اور پی ایس او کو 6 ماہ کے کریڈٹ پر ٹرم کنٹریکٹ کی بنیاد پر ایک سال کے لیے فرنس آئل خریدنے سمیت واپڈا کو منگلا ڈیم ریزنگ، گومل زام ڈیم، کچی کینال، رینی کینال سمیت دیگر ڈیموں کی تعمیر کے لیے 10ارب روپے کی گارنٹی دینے کی منظوری دے دی۔
تاہم قرضے کی واپسی کا فیصلہ ڈپٹی چیئرمین منصوبہ بندی کمیٹی کی سربراہی میں قائم کمیٹی کرے گی، تاجکستان کو 30ہزار ٹن چینی برآمد کرنے کی بھی منظوری دی گئی۔ ای سی سی کا اجلاس منگل کو وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی زیر صدارت ہوا جس میں کاشتکاروں کی سہولت کے لیے 50 کلوگرام کھاد کی بوری کی قیمت ڈیڑھ سو روپے کی مزید کمی کے ساتھ 1450روپے کرنے کی تجویز دی گئی اور 6 لاکھ ٹن یوریا درآمد کرنے کی سفارش کی گئی۔
ملک میں جاری لوڈ شیڈنگ، بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے نظام میں خرابیوں اور قومی معیشت پر توانائی بحران کے پڑنے والے اجتماعی نقصانات کا اگر اجمالی سا جائزہ بھی لیا جائے تو پٹرولیم مصنوعات کی تجرباتی بنیادوں پر ہفتہ وار قیمتوں کے ردوبدل کا فیصلہ ملکی معیشت اور عوام کو معاشی طور پر صدمات سے ہی دوچار کرے گا اور یہ تجربہ ایک عذاب اور سہی سے کم نہیں ہو گا۔ شاید اسی لیے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے اپنے اجلاس میں اس فیصلہ کو مسترد کر دیا ہے۔
وزارت پٹرولیم کی طرف سے تیل کی قیمتیں ہفتہ وار بنیادوں پر مقرر کرنے کی سمری کی منظوری دیتے ہوئے بھی یہ کہا گیا کہ قیمتیں تجرباتی بنیادوں پر ہفتہ وار مقرر کی جائیں گی اور اس کا عوام اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر اثرات کا ''جائزہ'' لیا جائے گا حالانکہ تیل کی قیمتوں نے عوام کا جو حال کر رکھا ہے اسے مرزا غالب کے اس مصرعے میں خوبی سے بیان کیا جا سکتا ہے کہ ''جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا'' یہی وہ ٹیپ کا بند ہے جس پر عوام اپنی بے بسی کا شاید شکوہ بھی کسی سے نہیں کر سکتے۔
بہرکیف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں سہ ماہی اور پھر ماہانہ اضافے اور ٹرانسپورٹ کرایوں کے ہولناک اثرات سے اب تک حکمران اور ان کے بزرجمہر واقعی لاعلم تھے کہ اب ہفتہ وار قیمتوں کا تجربہ کرکے وہ مزید دیکھنا چاہتے ہیں مرغ بسمل کے عوامی رقص کا تماشہ کیسا ہو گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تجربہ غیردانشمندانہ اور مرے پر سو درے کے مصداق ہو گا۔ اس فیصلے کا مضطرب اور معاشی بدحالی کے شکار عوام کسی طور خیرمقدم نہیں کریں گے بلکہ اس کا ممکنہ ردعمل خوشگوار بھی نہیں ہو گا۔
اجلاس میں ہائی اوکٹین کی قیمت ڈی ریگولیٹ کرنے کی بھی مشروط منظوری دی گئی، اس طرح ہائی اوکٹین کی قیمت پر فریٹ ختم ہو جائے گا اور ملک بھر میں اس کی یکساں قیمت نہیں ہو گی۔ دراصل اس تجرباتی جائزہ سے ٹرانسپورٹ کے شعبے کی صورتحال میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آسکے گی۔ واضح رہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نئی پٹرولیم پالیسی 2012 ء کی باضابطہ منظوری دی جائے گی۔
کونسل نے نئی پٹرولیم پالیسی کی اصولی منظوری پہلے ہی دے رکھی ہے تاہم وزارت پٹرولیم کو پالیسی پر صوبوں کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، وزارت پٹرولیم اور صوبوں کے درمیان 3 نکات پر اعتراضات دور کر دیے گئے ہیں، 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو تیل و گیس میں 50فیصد ملکیتی حقوق اور رائلٹی کی مد میں گیس اور نقد ادائیگی کی تجاویز تسلیم کر لی گئی ہیں، مجوزہ پالیسی میں صوبوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ رائلٹی کا 50فیصد مقامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کریں۔
زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھائو کی سیاست نے قومی معیشت اور اہل سیاست کو استحکام کے اہداف سے دور رکھا ہے جس کے نتیجہ میں بجلی کے بحران کے باعث صنعتی ترقی رکی ہوئی ہے، ٹرانسپورٹ کرایوں سے لے کر بجلی کے بلوں کی ادائیگی تک کچھ بھی عام آدمی کے بس میں نہیں رہا۔ لوڈ شیڈنگ نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے، ارباب اختیار اقتصادی منصوبوں کی منظوری ٹھنڈے کمروں میں بند ہو کر دینے کے عادی ہیں مگر اب وقت تجربوں کا نہیں۔ ملک کو قومی امنگوں سے ہم آہنگ فیصلوں کی ضرورت ہے جس سے عام آدمی کو معاشی سکون حاصل ہو سکے اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی آئے۔
ہر کسان اور ہاری کو کھاد سستی ملے، زرعی قرضوں کی حصولی آسان ہو، دیہات اور شہروں کے معیار زندگی میں تفاوت کم سے کم ہو' جاگیردارانہ سوچ کا خاتمہ ہو، صحیح جمہوری رویوں کو فروغ حاصل ہو۔ تجربے اسی سمت میں ہونے چاہییں جو یقیناً نتیجہ خیز بھی ہو سکتے ہیں۔ ہفتہ وار پٹرولیم قیمتوں سے عوام میں بے چینی بڑھے گی۔ ارباب اختیار کو ملک بھر میں ہونے والے عوامی احتجاجوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ معیشت کے استحکام کے حوالے سے صورتحال اطمینان بخش نہیں' بدانتظامی، بدامنی، کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال، قانون و آئین کی بے توقیری کا کلچر جڑ پکڑتا نظر آتا ہے۔
یہ سماجی و معاشی ترقی کے لیے زہر قاتل ہے ۔ قومی اداروں اور اقتصادی شعبوں میں رابطہ، تعلقات کار اور اشتراک عمل کی فضا مثالی ہونی چاہیے مگر صورتحال اس کے برعکس ہے۔ افراط و تفریط، محکموں میں رابطہ کے فقدان اور عدم جواب دہی کا منظر ہے مثلاً چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ریمارکس ہیں کہ کرپشن کے 83 ارب روپے مل جائیں تو لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے۔ ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ہر ہفتہ تیل کی قیمتوں میں رد و بدل سے عوام کا برا حال ہو جائے گا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پلاسٹک دانہ کی اسمگلنگ پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایران اور افغانستان سے ملحقہ سرحدوں پر اسمگلنگ کے سدباب کے لیے کوششیں تیز کرنے اور انٹیلی جنس اور ایویلیوایشن ڈیپارٹمنٹس کی استعداد کار میں اضافہ کی ہدایت کی ہے۔ سیکریٹری ریونیو ڈویژن نے بتایا کہ پاکستان عالمی قوانین کے تحت افغانستان کو اشیاء منگوانے کے لیے راہداری دینے کا پابند ہے، کراچی بندرگاہ پرراہداری سامان کی سکیننگ،انسپیکشن اور ایگزامینیشن کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں ٹرانزٹ ٹریڈ میں کمی واقع ہوئی ہے اور ملکی درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔
ادھر تباہ حال ریلوے کے حکام کا کہنا ہے بلیک لسٹ ہونے والے ٹھیکے داروں کا تمام ریکارڈ 15 اگست تک ایف آئی اے کو بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ بلیک لسٹ ہونے کے باوجود کئی ٹھیکے دار اب بھی کام کر رہے ہیں۔ ٹریڈ سیکٹر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ معیشت میں قومی اداروں کا حصہ بڑھانے اور نظام کو شفاف بنانے کی غرض سے اہم قومی اداروں کے سالانہ بنیادوں پر بلارکاوٹ آڈٹ کا میکنزم ترتیب دے، کراچی اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدور نے صنعتوں کی منتقلی، بدامنی جب کہ سیمنٹ کی برآمدات میں کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیمنٹ انڈسٹری معاشی سرگرمیوں کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ سیمنٹ انڈسٹری کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرے۔
سندھ ہائیکورٹ میں ناقص سی این جی کٹس کے بارے میں مقدمہ کی سماعت ہو رہی ہے۔ امید ہے کہ حکومت پٹرولیم قیمتوں میں استحکام کے لیے تجربات کے بجائے ٹھوس اقدامات کو یقینی بنائے گی تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔ اس حوالے سے ایک تجویز یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر کم از کم تین ماہ بعد نظرثانی کی جائے تاکہ عوام ان نرخوں میں ہونے والے آئے روز کے رد و بدل سے پیدا ہونے والے معاشی اور مالی دھچکوں سے محفوظ رہ سکیں اور ان کے لیے اپنے گھریلو بجٹ چلانا ممکن رہے۔