آئین وقانون کی حکمرانی کے لیے مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں

اگر سب ادارے اور سیاسی قیادت مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں تو مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔


Editorial February 05, 2018
اگر سب ادارے اور سیاسی قیادت مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں تو مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ہفتے کو اسلام آباد میں جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس اور خصوصی ٹربیونلز اور انتظامی عدالتوں کے ججز سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں محترم چیف جسٹس نے بڑے کھلے ڈھلے انداز میں باتیں کی' انھوں نے ملک کے عدالتی نظام کی خامیوں کا اعتراف بھی کیا اور پرعزم اور پرامید لہجے میں ان خامیوں کو دور کرنے کا عہد بھی کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے بڑی درد مندی سے ملک کو درپیش مسائل کے حوالے سے بھی باتیں کیں اور یہ بھی یاد کرایا کہ ریاست کے تین ستون ہیں، پارلیمنٹ سپریم ہے مگر اس سے تھوڑا سا اوپر دیکھیں تو آئین سپریم ہے، آئین کے تحت پارلیمنٹ سپریم ہے اور قانون پارلیمنٹ نے بنانے ہیں، یہ وہ قانون ہیں جن پر ہم عملدرآمد کر رہے ہیں کیونکہ ہم ان قوانین کے تابع ہیں جو مقننہ نے ہمارے لیے بنائے ہیں، ہم نے انھیں کی پیروی کرنی ہے اور انھیں کے مطابق انصاف کرنا ہے، ہم ان پر عملدرآمد کے پابند ہیں، ہمیں آنے والے قانون کا انتظار نہیں کرنا بلکہ اسی قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے جو موجود ہے، ججز کو قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہیں، ہمیں یہ اجازت نہیں کہ ہم اپنی خواہشات کے مطابق فیصلے کریں، تمام عدالتوں کے ججز قانون پر عمل کرنے اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے کے پابند ہیں۔

بلاشبہ عدالتیں ان ہی قوانین کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں جو قانون ساز ادارے بناتے ہیں، قانون ساز اگر قانون میں ابہام پیدا کریں گے تو پھر فیصلے بھی بعض اوقات مبہم لگتے ہیں، ان میں معزز جج صاحبان پر انگلی اٹھانا جائز نہیں، یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان بے شمار مسائل کا شکار ہے۔ پاکستان آج جن مسائل کا شکار ہے' اس کا ذمے دار کسی ایک ادارے کو نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ساری خرابی کے ذمے دار سیاستدان ہیں۔

پاکستان میں اداروں کے زوال اور سیاسی و جمہوری کلچر کی زبوں حالی میں مقتدر طبقات نے بحیثیت مجموعی اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ قانون سازی کے اعتبار سے اپنا حقیقی کردار ادا نہیں کر سکی' پارلیمنٹ نے جو قوانین بنائے یا اپنے بنائے ہوئے قوانین میں جو ترامیم کیں' ان میں ابہام چھوڑ دیے گئے' ایسا کیوں کیا گیا' اس کا جواب بھی یقیناً مقتدر اداروں' قانون دانوں' سیاستدانوں اور اہل علم کے پاس ہو گا۔

ادھر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج ہمارے پاس جو آئین کتابی صورت میں موجود ہے' اس میں ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور میں ہونے والی آئینی تبدیلیاں بھی شامل ہیں' ان قوانین کو اعلیٰ عدلیہ نے بھی سند بخشی اور پارلیمنٹ نے بھی۔ لہٰذا یوں دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئین میں جو ابہام موجود ہیں یا ایسی شقیں یا قوانین موجود ہیں جو مسائل کا سبب بنی ہیں' ان کے ذمے دار جہاں پارلیمنٹیرینز ہیں' وہاں ہمارے ملک کا قانون دان طبقہ اور سیاستدان بھی ہیں' اب مسائل اتنے بڑھ گئے ہیں کہ کسی کو بھی بحران سے نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ جناب چیف جسٹس نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ میرا ججز سے وعدہ ہے کر ہم پاکستان میں جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے اگر ایسا نہ ہوا تو میں یہاں نہیں رہوں گا' یہ میرا وعدہ ہے ، تاثر دیا جا رہا ہے کہ جمہوریت کو خطرہ ہے اور ہم اس کا حصہ بن گئے ہیں، ہم اس کاحصہ نہیں اور نہ کبھی حصہ ہوںگے ہم نے نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا ہے، سندھ ہائی کورٹ بار کے کیسں میں یہ فیصلہ دے چکے ہیں ، غلطیاں ہوئیں سب سے ہوئی ہوں گی، ہم سے بھی ہوئی ہوں گی ، میں دوسو اور دیگر کیسز کا حصہ نہیں تھا ، ہمیں تحمل سے کام کرنا چاہیے اورتوازن کو قائم رکھنا چاہیے ، جب توازن خراب ہو جائے تو پھر ادارے کی عزت، تکریم اور حفاظت کرنا ہماری ذمے داری ہے۔

بلاشبہ پاکستان کی بقا جمہوری نظام اور اداروں کے استحکام سے جڑی ہوئی ہے' پاکستان میں کئی بار جمہوریت کو ڈی ریل کیا جا چکا ہے' آج بھی یہ خطرات کسی حد تک موجود ہیں' ہماری عدلیہ نے تمام تر مسائل اور مشکلات کے باوجود ملک کے نظام کو مستحکم رکھنے کے لیے بہتر کردار ادا کیا ہے' غلطیاں ہر کسی سے ہوتی ہیں۔ غلطیاں صرف عدلیہ سے نہیں ہوئیں بلکہ ملک پر برسراقتدار آنے والے فوجی حکمرانوں اور سویلین حکمرانوں سے بھی ہوئی ہیں بلکہ زیادہ سنگین غلطیاں حکمرانوں کے کھاتے میں ہی آئیں گی۔

اگر سب ادارے اور سیاسی قیادت مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں تو مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ کوئی ایک ادارہ ملک کے مسائل حل نہیں کر سکتا۔ پاکستان کو مسائل سے نکالنے کے لیے ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر چلنا ہو گا۔ آئین و قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے مثبت اور تعمیری سوچ کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں