معاشرہ کہاں ہے
تحقیق کرنی چاہیے کہ اچھے معاشرے جرم کو کیسے روک رہے ہیں، بھلائی کو کیسے پھیلا رہے ہیں۔
کسی کا بھی دل میلا ہوا اور وہ اسفل سافلین کی نہج تک پہنچ گیا، وہ گمراہی کی خوشنمائی میں ڈوبتا ہوا وہاں چلا گیا جہاں صرف یہی صدا آسکتی ہے کہ تف، تف، تف، وہ پکڑا گیا تو اس لیے نہیں کہ جرم سے سوچ کا تعفن معاشرے میں گھٹن پیدا کر رہا تھا، بلکہ اس خوف میں کہ جھونپڑی میں لگی آگ محلوں کو جلا کر راکھ نہ کردے، لوگ گریبان تک نہ پہنچ جائیں، فیصلے خود نہ ہونے لگیں اور ان کی ضرورت نہ رہے جو تہذیب کے حسین لبادے میں ملبوس مسند حکم پر جلوہ افروز ہیں۔
مگر اس پر بھی باتیں، کریڈٹ، بیانات، سیاست، تاویلیں، تماشے، پریس کانفرنسیں، یہ بھی ایسی ہی بے شرمی کہ تف، تف، تف۔ کوئی جنگل ہے کیا، یہ سماج کی کون سی شکل ہے، یہ بے حسی کا کون سا درجہ ہے، یہ تباہی کا کون سا مقام ہے، کوئی انسانیت ہے کیا، اس بیہودگی پر چھپانے کے بجائے منہ کھولنے کی جرات، کوئی سوچ تو دیکھے ان دکانداروں کی جن کے پاس بیچنے کے لیے یہ سودا ہے اور پھر وہ جو مستقبل کی سمت کا تعین کرنے والے، ترقی کی راہیں دکھانے والے، معاشرے کا آئینہ، جن کا یہ سودا ہے تو پھر مقصد کیا ہوگا، گویا کہ کچھ بھی بیچ دیں، بس دکان چمکے اور اس کا حاصل کیا؟
چند مزید ووٹ، ریٹنگ میں اضافہ، کچھ دیر مزید واہ واہ۔ کیا کمائی ہے اور اگر یہ کمائی تو پھر انجام بھی ایسی کمائی جیسا ہی ہوگا، خودنمائی کے اشتہار کے لیے تو اور بھی چیزیں ہیں اور ریٹنگ کے لیے کئی ایشوز، کسی اور معاملے میں نیچا دکھایا جاسکتا ہے، میدان کسی اور جگہ بھی سجایا جا سکتا تھا، ووٹ کسی اور کے نام پر بھی لیے جاسکتے ہیں، یہ کیا گھر میں نہیں رہتے، یہ سماج کا حصہ نہیں، ماں باپ، بیٹے، بہن، بیٹی، کسی رشتے سے واسطہ نہیں، کیا دل نہیں رکھتے، احساس مر گیا ہے شاید، کس مٹی سے بنے ہیں یہ لوگ، شاید مریں گے نہ انھیں زوال آئے گا، اخلاقیات سے عاری، بے ضمیر ہیں اسی لیے اپنے سوا کسی سے کوئی غرض نہیں۔
سوال تو یہ ہے کہ ایسا ہوا کیوں اور اگر ہوا تو پھر فوری گرفت کیوں نہ ہوئی اور گرفت کے لیے اتنا شور، جرم کیا یہ پہلا ہے، کتنی بار جاگ کر سوئے، اور کتنی بار یہ ہوگا، جرم بھیانک ہی ہوگا تو گرفت ہوگی؟ جرم چھوٹا بڑا ہوتا ہے؟ بے حرمتی، جنازے، سینہ کوبی، اشک باری، جذباتی مناظر کے بغیر نظام متحرک نہیں ہوگا، کیا ایک مجرم کو پکڑنے کے لیے پہلے پوری قوم شور مچائے، دہائیاں دے، پھر میڈیا بار بار جذبات بھڑکائے، سنسنی پھیلائے، لوگ سڑکوں پرآئیں، کاروبار بند ہو جائے، ٹریفک روک دیا جائے، املاک کو آگے لگائی جائے توڑ پھوڑ ہو، نعرے لگیں، پھر گولیاں چلیں پھر لاشیں گریں پھر سرکاری املاک پر قبضے کی کوشش ہو، پھر پارلیمنٹ میں مباحثے ہوں۔
جرم کو بھیانک انسانیت سوز قرار دیا جائے، پولیس کا سربراہ، مقامی، ضلعی، صوبائی، ملکی انتطامیہ کا سربراہ نوٹس لیں، تب نظام متحرک ہو گا، کیا کسی ایم این اے، ایم پی اے، وزیر کی سفارش کے بغیر ایف آئی آر نہیں لکھی جائے گی، کیا سرکار کو جگانے کے لیے سڑکوں پرآنا ضروری ہے، جلاؤ گھیراؤ کے بغیر کام نہیں چلے گا۔
جرم کیا صرف ہمارے ملک ہمارے سماج کا ایشو ہے، جرم کہاں نہیں ہوتا، کیا امریکا، برطانیہ، یورپ، روس میں جرم نہیں ہوتے، برائی صرف یہاں نہیں بلکہ جہاں انسان ہیں وہاں برائی موجود ہے، جرم ہے، غلط کاریاں ہیں مگر اچھائیاں بھی وہاں ہی ہیں جہاں انسان ہیں، جرم پہلی بار ہوا نہ یہ آخری تھا، یہ ہمارے سماج کاحصہ ہے، اسے ہمیں روکنا ہے، ہر ملک میں، ہر معاشرے میں برائی اور جرم کو روکا جاتا ہے، اس کے لیے نظام موجود ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک اس لیے بھی کہلاتے ہیں کہ وہاں ترقی پسند سوچ ہے، وہاں نظام ہے، ریڈلائنز ہیں جہاں پاؤں آتے ہی گھنٹی بج جاتی ہے، ہمارے یہاں بھی نظام موجود ہے، ریڈلائنز ہیں مگر یہاں گھنٹی نہیں بجتی، کوئی متحرک نہیں ہوتا، متاثر اپنی قسمت سمجھ کر سرپیٹتا ہے اور بس، زیادہ شور مچے تو حکومت نوٹس لے لیتی ہے پھر چند دن شور اس کے بعد وقت گزرتے ہی معاملہ ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے، کوئی نہیں پوچھتا، کوئی جوابدہ ہی نہیں، نظام متحرک ہی نہیں ہوتا، کوئی کارروائی ہی نہیں ہوتی، نتیجہ چھوٹے موٹے واقعات المیوں میں بدل جاتے ہیں، پھر چند دن شور شرابے کے بعد سب بھول جاتے ہیں، ایسے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
یہ بے حسی سب سے بڑا المیہ ہے جو آج ہر طاقت کے سرچشمے کے ساتھ جڑی ہے، یہ شاید ہم میں سے نہیں؟ یا پھر نظام ٹھیک نہیں یا ہم ٹھیک نہیں، کہیں کچھ خرابی ہے، کچھ نقص ہے، خلا ہے جسے پرکرنا ہو گا، تحقیق کرنی چاہیے کہ اچھے معاشرے جرم کو کیسے روک رہے ہیں، بھلائی کو کیسے پھیلا رہے ہیں، انسان تو برائیوں اور اچھائیوں کا مجموعہ ہے، ان میں سے جو غالب ہیں وہ تاثر پیدا ہوتا ہے لیکن کیا کوئی شخص برا ہے تو اسے اس کے عملی مظاہرے کا موقع فراہم کرتے رہنا چاہیے۔
معاشرے اخلاقی، قانونی اور انتظامی ضابطوں کے ذریعے بند باندھا کرتے ہیں، ان ضابطوں پر ادارے اور پریشرگروپ عمل کراتے ہیں، پریشرگروپ گھر، محلے، شہر اورملکی سطح پرمختلف صورتوں میں موجود ہوتے ہیں، ادارے بھی انھی گروپوں کے ساتھ مختلف انداز میں کام کرتے ہیں اور ان گروپوں اور اداروں میں انسان ہی ہوتے ہیں اور انسان ایک دوسرے پر چیک ہوتے ہیں۔
اگر ہمارے یہاں حالات کنٹرول ہونے کے بجائے اوپر سے نیچے تک خراب ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ مجموعی طور پر تباہ حال ہے جہاں لاقانونیت پوری طرح حاوی ہے، ایسے حالات میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہی ہوتا ہے، جس کا جو جی چاہتا ہے کرتا ہے اور جتنی طاقت و ہمت ہوتی ہے اس کے ساتھ کرتا ہے، اس میں دونوں عوامل کارفرما ہوتے ہیں اچھے بھی اور برے بھی مگر بغیر نظام کے کام کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ برے کی شدت زیادہ ہو تو برائی نظرآتی ہے اور اگر اچھے کا وزن زیادہ ہو تو وہ حاوی نظر آتا ہے لیکن اگر نظام فعال ہو تو کنٹرول نظرآتا ہے، ہمارا معاشرہ چونکہ تباہ حال ہے اس لیے فردی خصوصیات حاوی ہیں، دیکھیے ایک نہایت ہی ڈھیٹ سیاستدان نے طاقتور ترین وزیراعظم کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا، ماضی کے پسماندہ اور کمزور ریاستی ستون نے پہلے ایک نہایت مضبوط صدر کو ناک آؤٹ کیا اور آج طاقت کے تمام ایوانوں کو ہلا کر رکھا ہوا ہے۔
ایک بے آواز وشکل نقارخانے نے طوفان مچایا ہوا ہے، سب اس سے بچتے پھر رہے ہیں، وہ روز پردہ نشینوں کو بے نقاب کر رہا ہے لیکن یہاں ہی محافظ قتل کرتے ہیں، شفیق سمجھے جانے والے اخلاق کی پست ترین وادیوں میں ملتے ہیں، وہ جسے انگلی پکڑ کرراہ دکھائی گئی بڑا ہو ا تو رہنماکو ہی مار ڈالا، یہ فردی خصائل کی جھلکیاں ہیں معاشرہ کہاں ہے، نظام کہاں ہے، قانون کہاں ہے؟
مگر اس پر بھی باتیں، کریڈٹ، بیانات، سیاست، تاویلیں، تماشے، پریس کانفرنسیں، یہ بھی ایسی ہی بے شرمی کہ تف، تف، تف۔ کوئی جنگل ہے کیا، یہ سماج کی کون سی شکل ہے، یہ بے حسی کا کون سا درجہ ہے، یہ تباہی کا کون سا مقام ہے، کوئی انسانیت ہے کیا، اس بیہودگی پر چھپانے کے بجائے منہ کھولنے کی جرات، کوئی سوچ تو دیکھے ان دکانداروں کی جن کے پاس بیچنے کے لیے یہ سودا ہے اور پھر وہ جو مستقبل کی سمت کا تعین کرنے والے، ترقی کی راہیں دکھانے والے، معاشرے کا آئینہ، جن کا یہ سودا ہے تو پھر مقصد کیا ہوگا، گویا کہ کچھ بھی بیچ دیں، بس دکان چمکے اور اس کا حاصل کیا؟
چند مزید ووٹ، ریٹنگ میں اضافہ، کچھ دیر مزید واہ واہ۔ کیا کمائی ہے اور اگر یہ کمائی تو پھر انجام بھی ایسی کمائی جیسا ہی ہوگا، خودنمائی کے اشتہار کے لیے تو اور بھی چیزیں ہیں اور ریٹنگ کے لیے کئی ایشوز، کسی اور معاملے میں نیچا دکھایا جاسکتا ہے، میدان کسی اور جگہ بھی سجایا جا سکتا تھا، ووٹ کسی اور کے نام پر بھی لیے جاسکتے ہیں، یہ کیا گھر میں نہیں رہتے، یہ سماج کا حصہ نہیں، ماں باپ، بیٹے، بہن، بیٹی، کسی رشتے سے واسطہ نہیں، کیا دل نہیں رکھتے، احساس مر گیا ہے شاید، کس مٹی سے بنے ہیں یہ لوگ، شاید مریں گے نہ انھیں زوال آئے گا، اخلاقیات سے عاری، بے ضمیر ہیں اسی لیے اپنے سوا کسی سے کوئی غرض نہیں۔
سوال تو یہ ہے کہ ایسا ہوا کیوں اور اگر ہوا تو پھر فوری گرفت کیوں نہ ہوئی اور گرفت کے لیے اتنا شور، جرم کیا یہ پہلا ہے، کتنی بار جاگ کر سوئے، اور کتنی بار یہ ہوگا، جرم بھیانک ہی ہوگا تو گرفت ہوگی؟ جرم چھوٹا بڑا ہوتا ہے؟ بے حرمتی، جنازے، سینہ کوبی، اشک باری، جذباتی مناظر کے بغیر نظام متحرک نہیں ہوگا، کیا ایک مجرم کو پکڑنے کے لیے پہلے پوری قوم شور مچائے، دہائیاں دے، پھر میڈیا بار بار جذبات بھڑکائے، سنسنی پھیلائے، لوگ سڑکوں پرآئیں، کاروبار بند ہو جائے، ٹریفک روک دیا جائے، املاک کو آگے لگائی جائے توڑ پھوڑ ہو، نعرے لگیں، پھر گولیاں چلیں پھر لاشیں گریں پھر سرکاری املاک پر قبضے کی کوشش ہو، پھر پارلیمنٹ میں مباحثے ہوں۔
جرم کو بھیانک انسانیت سوز قرار دیا جائے، پولیس کا سربراہ، مقامی، ضلعی، صوبائی، ملکی انتطامیہ کا سربراہ نوٹس لیں، تب نظام متحرک ہو گا، کیا کسی ایم این اے، ایم پی اے، وزیر کی سفارش کے بغیر ایف آئی آر نہیں لکھی جائے گی، کیا سرکار کو جگانے کے لیے سڑکوں پرآنا ضروری ہے، جلاؤ گھیراؤ کے بغیر کام نہیں چلے گا۔
جرم کیا صرف ہمارے ملک ہمارے سماج کا ایشو ہے، جرم کہاں نہیں ہوتا، کیا امریکا، برطانیہ، یورپ، روس میں جرم نہیں ہوتے، برائی صرف یہاں نہیں بلکہ جہاں انسان ہیں وہاں برائی موجود ہے، جرم ہے، غلط کاریاں ہیں مگر اچھائیاں بھی وہاں ہی ہیں جہاں انسان ہیں، جرم پہلی بار ہوا نہ یہ آخری تھا، یہ ہمارے سماج کاحصہ ہے، اسے ہمیں روکنا ہے، ہر ملک میں، ہر معاشرے میں برائی اور جرم کو روکا جاتا ہے، اس کے لیے نظام موجود ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک اس لیے بھی کہلاتے ہیں کہ وہاں ترقی پسند سوچ ہے، وہاں نظام ہے، ریڈلائنز ہیں جہاں پاؤں آتے ہی گھنٹی بج جاتی ہے، ہمارے یہاں بھی نظام موجود ہے، ریڈلائنز ہیں مگر یہاں گھنٹی نہیں بجتی، کوئی متحرک نہیں ہوتا، متاثر اپنی قسمت سمجھ کر سرپیٹتا ہے اور بس، زیادہ شور مچے تو حکومت نوٹس لے لیتی ہے پھر چند دن شور اس کے بعد وقت گزرتے ہی معاملہ ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے، کوئی نہیں پوچھتا، کوئی جوابدہ ہی نہیں، نظام متحرک ہی نہیں ہوتا، کوئی کارروائی ہی نہیں ہوتی، نتیجہ چھوٹے موٹے واقعات المیوں میں بدل جاتے ہیں، پھر چند دن شور شرابے کے بعد سب بھول جاتے ہیں، ایسے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
یہ بے حسی سب سے بڑا المیہ ہے جو آج ہر طاقت کے سرچشمے کے ساتھ جڑی ہے، یہ شاید ہم میں سے نہیں؟ یا پھر نظام ٹھیک نہیں یا ہم ٹھیک نہیں، کہیں کچھ خرابی ہے، کچھ نقص ہے، خلا ہے جسے پرکرنا ہو گا، تحقیق کرنی چاہیے کہ اچھے معاشرے جرم کو کیسے روک رہے ہیں، بھلائی کو کیسے پھیلا رہے ہیں، انسان تو برائیوں اور اچھائیوں کا مجموعہ ہے، ان میں سے جو غالب ہیں وہ تاثر پیدا ہوتا ہے لیکن کیا کوئی شخص برا ہے تو اسے اس کے عملی مظاہرے کا موقع فراہم کرتے رہنا چاہیے۔
معاشرے اخلاقی، قانونی اور انتظامی ضابطوں کے ذریعے بند باندھا کرتے ہیں، ان ضابطوں پر ادارے اور پریشرگروپ عمل کراتے ہیں، پریشرگروپ گھر، محلے، شہر اورملکی سطح پرمختلف صورتوں میں موجود ہوتے ہیں، ادارے بھی انھی گروپوں کے ساتھ مختلف انداز میں کام کرتے ہیں اور ان گروپوں اور اداروں میں انسان ہی ہوتے ہیں اور انسان ایک دوسرے پر چیک ہوتے ہیں۔
اگر ہمارے یہاں حالات کنٹرول ہونے کے بجائے اوپر سے نیچے تک خراب ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ مجموعی طور پر تباہ حال ہے جہاں لاقانونیت پوری طرح حاوی ہے، ایسے حالات میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہی ہوتا ہے، جس کا جو جی چاہتا ہے کرتا ہے اور جتنی طاقت و ہمت ہوتی ہے اس کے ساتھ کرتا ہے، اس میں دونوں عوامل کارفرما ہوتے ہیں اچھے بھی اور برے بھی مگر بغیر نظام کے کام کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ برے کی شدت زیادہ ہو تو برائی نظرآتی ہے اور اگر اچھے کا وزن زیادہ ہو تو وہ حاوی نظر آتا ہے لیکن اگر نظام فعال ہو تو کنٹرول نظرآتا ہے، ہمارا معاشرہ چونکہ تباہ حال ہے اس لیے فردی خصوصیات حاوی ہیں، دیکھیے ایک نہایت ہی ڈھیٹ سیاستدان نے طاقتور ترین وزیراعظم کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا، ماضی کے پسماندہ اور کمزور ریاستی ستون نے پہلے ایک نہایت مضبوط صدر کو ناک آؤٹ کیا اور آج طاقت کے تمام ایوانوں کو ہلا کر رکھا ہوا ہے۔
ایک بے آواز وشکل نقارخانے نے طوفان مچایا ہوا ہے، سب اس سے بچتے پھر رہے ہیں، وہ روز پردہ نشینوں کو بے نقاب کر رہا ہے لیکن یہاں ہی محافظ قتل کرتے ہیں، شفیق سمجھے جانے والے اخلاق کی پست ترین وادیوں میں ملتے ہیں، وہ جسے انگلی پکڑ کرراہ دکھائی گئی بڑا ہو ا تو رہنماکو ہی مار ڈالا، یہ فردی خصائل کی جھلکیاں ہیں معاشرہ کہاں ہے، نظام کہاں ہے، قانون کہاں ہے؟