اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
سیاست دانوں کے وہی لچھن ہیں، وہ سیاست سیاست کھیل رہے ہیں، آنے والے الیکشن کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
''اور کیا دیکھنے کو باقی ہے'' تواتر سے ایک ہی جیسی خبریں آ رہی ہیں، ایسے دن تو کبھی نہیں آئے تھے، جب ٹی وی کھولو ایک ہی بریکنگ نیوز ہوتی ہے۔ مردہ بچہ ملا، زیادتی کی گئی، مردہ بچی ملی، زیادتی کی گئی، پاکستان کا شاید ہی کوئی شہر، قصبہ، گاؤں بچا ہو، جہاں یہ انسانیت سوز کام نہ ہوا ہو۔
پورا ملک سوگ میں ڈوبا ہوا ہے، شہری بیمار ہوگئے ہیں۔ گھر گھر خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے، بچے ہر گھر میں ہوتے ہیں، باپ کام پر چلے جاتے ہیں، مائیں گھر بار سنبھالنے میں لگ جاتی ہیں، بچے اسکول چلے جاتے ہیں یا گلی میں کھیلنے نکل جاتے ہیں اور یہ دو جگہیں ہیں جہاں سے درندے ان بچوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں، ایک اسکول کا راستہ اور دوسرا گلی۔ بچے غائب ہوتے ہیں اور دو چار روز بعد ان کی لاش ملتی ہے۔
یہ قباحتیں گزر رہی ہیں اور سیاست دان جلسے کر رہے ہیں۔ بیانات داغ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف بول رہے ہیں۔ جن کے بچے درندگی کا شکار ہو کر مار دیے گئے، وہاں سوگ ہے، سکون غائب ہے۔ دن رات کا رونا ہے۔ اور سیاست دانوں کے وہی لچھن ہیں، وہ سیاست سیاست کھیل رہے ہیں، آنے والے الیکشن کی تیاریاں ہو رہی ہیں، توڑ جوڑ ہو رہے ہیں، پارٹیاں بدلی جا رہی ہیں، سیاسی کبوتر ایک چھجے سے اڑ کر دوسرے چھجے پر جا رہے ہیں۔
بچے بچیاں تو گلی محلوں کی درندگی کا شکار ہو رہے ہیں ، ان ارب پتی، کروڑ پتی سیاست دانوں کے محلوں میں تو ہر روز عید اور ہر شب شب برات ہے، دیوالی ہے، بسنت ہے۔ ان کے بچے مسلح گارڈز کے حصار میں اسکول جاتے ہیں، ان سیاست دانوں کے بچوں کے اسکول بھی مسلح گارڈز کے پہرے میں ہوتے ہیں۔ یہ اغوا ہوتے بچے تو مصیبت کے مارے غریبوں کے بچے ہوتے ہیں۔ ان غریب مصیبت کے ماروں کا کون ہے۔ بس اوپر والا ہے، جو قیامت کے دن عدالت لگائے گا۔ مردان کی چار سالہ بچی اسما کے دادا اور چچا نے یہی کہا ہے کہ ''ہم نے اﷲ پر چھوڑ دیا ہے۔''
مظلوم اسما کا نہ پولیس نے ساتھ دیا اور نہ حکمرانوں نے خبر لی، اس کے گھر مرد ، عورتیں خوف و ہراس میں جی رہے ہیں۔ گھر کے باہر پولیس بیٹھی ہے، اسما کے گھر والے نظر بندی کا شکار ہیں۔ پولیس کے احکامات کے تحت چل رہے ہیں، ان سے ملنا ہے، اس سے بات کرنا ہے۔
اسمبلیوں والے اسی طرح چل پھر رہے ہیں جیسے 70 سال سے ان کے بزرگ چلتے پھرتے رہے اور موت آنے پر مر گئے اور اپنا اونچا مزار یا قبر بنا گئے، ان کے جانے کے بعد ان کے مزارات اور قبریں کمائی کا ذریعہ بن گئی ہیں اور اب پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، بھتیجے، بھانجے اسمبلیوں میں بیٹھے کھلا کھا رہے ہیں اور نہا رہے ہیں۔
ان اسمبلیوں والوں کو ''کچھ کہنا'' بے کار ہے۔ یہ خود اچھی طرح جانتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ ''وہ کیا ہیں'' عمران خان اور شیخ رشید نے کھلے عام ان پر لعنت بھیجی۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ (عمران اور شیخ رشید کے علاوہ) دائیں بائیں بیٹھے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین، بیٹھے رہے۔ یہ دونوں اور شیخ رشید بھی آمروں، جابروں، ظالموں کے شانہ بشانہ چلتے پھرتے رہے ہیں۔
''یہ'' تو غریبوں کو ''کمی کمین'' کہتے ہیں، جب کہ یہ اسمبلیوں والے خود پتا نہیں ''کیا ہیں''۔
دیکھو! اب ظلم اپنی حدوں سے بھی پار نکل گیا ہے۔ اب تو ''دو بدو جنگ'' ہی رہ گئی ہے۔ غریب تو ویسے ہی ہر طرح سے مر رہا ہے۔ غریب کا کیا جائے گا؟
حبیب جالب کو گئے 23 برس ہوگئے، مگر وہ اپنے ''بولوں'' کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے، اس نے بولا تھا:
حکمراں ہوگئے کمینے لوگ
خاک میں مل گئے نگینے لوگ
پاکستان کا ''ہائیڈ پارک'' کراچی پریس کلب تھا۔ جہاں جالب نے اپنی طویل مثنوی سناتے ہوئے یہ شعر پڑھا تھا۔ سامعین میں حسین شہید سہروردی کی بیٹی بیگم اختر سلیمان بیٹھی تھیں۔ جالب نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ''یہ سہروردی صاحب کی بیٹی بیٹھی ہیں، سہروردی صاحب جیسے لوگ ''نگینے'' تھے، مگر ظالموں کے ''گٹھ جوڑ'' نے ''نگینے'' لوگوں کو حکمران نہ بننے دیا اور نتیجہ یہ کہ چند گھرانے آباد ہوتے گئے اور کروڑوں بربادی کی نذر ہوگئے۔
مے فیئر اپارٹمنٹ لندن، سوئس بینک، سرائے محل اور پانامہ پیپر والے 450 پاکستانی خوش رہیں اور پھولیں پھلیں، اتنا کہ پھٹ جائیں۔
میں اور کیا کہوں! کیا لکھوں! یہ معصوم بچے، درندگی کا شکار ہوئے اور پھر مار دیے گئے۔ ان حالات سے بڑھ کر بھی ''اور حالات'' ہوسکتے ہیں۔ کوہاٹ کی میڈیکل کی طالبہ عاصمہ کو قتل کرنے سے پہلے قاتل نے عمرے کا ویزہ لگوایا، جہاز کا ٹکٹ تک کروایا اور عاصمہ کو گولیاں مار کر طے شدہ پروگرام کے مطابق کوہاٹ اسلام آباد آیا اور عمرہ کرنے چلا گیا، خدا کے گھر کے لیے اور سراپا رحمت ہی رحمت کے دربار کے لیے۔
اس دنیا میں کھلی چھوٹ ہے، کیسے کیسے ظالم، مکروہ لوگ متبرک مقامات پر حاضر ہوتے ہیں، تو کیا انھیں ''اچھا'' کہا جائے؟ کسی انسان کی جان لینے سے بدترین فعل اور کوئی نہیں۔
آج میں آپ کو حبیب جالب کی نظم ''جمہوریت'' کا ایک حصہ سناؤں گا، یہ نظم فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں 1962 میں لکھی گئی اور مادر ملت محترم فاطمہ جناح (بمقابلہ ایوب خان) کے لاکھوں کے جلسے میں پڑھی گئی:
یہ ملیں، یہ جاگیریں، کس کا خون پیتی ہیں
بیرکوں میں یہ فوجیں، کس کے بل پہ جیتی ہیں
کس کی محنتوں کا پھل، داشتائیں کھاتی ہیں
جھونپڑوں سے رونے کی کیوں صدائیں آتی ہیں
جب شباب پر آکر کھیت لہلہاتا ہے
کس کے نین روتے ہیں، کون مسکراتا ہے
کاش تم کبھی سمجھو، کاش تم کبھی جانو
دس کروڑ انسانو!
انقلاب زندہ باد!
(نوٹ: 1960 میں پاکستان بشمول بنگلہ دیش دس کروڑ آبادی کا ملک تھا)
پورا ملک سوگ میں ڈوبا ہوا ہے، شہری بیمار ہوگئے ہیں۔ گھر گھر خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے، بچے ہر گھر میں ہوتے ہیں، باپ کام پر چلے جاتے ہیں، مائیں گھر بار سنبھالنے میں لگ جاتی ہیں، بچے اسکول چلے جاتے ہیں یا گلی میں کھیلنے نکل جاتے ہیں اور یہ دو جگہیں ہیں جہاں سے درندے ان بچوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں، ایک اسکول کا راستہ اور دوسرا گلی۔ بچے غائب ہوتے ہیں اور دو چار روز بعد ان کی لاش ملتی ہے۔
یہ قباحتیں گزر رہی ہیں اور سیاست دان جلسے کر رہے ہیں۔ بیانات داغ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف بول رہے ہیں۔ جن کے بچے درندگی کا شکار ہو کر مار دیے گئے، وہاں سوگ ہے، سکون غائب ہے۔ دن رات کا رونا ہے۔ اور سیاست دانوں کے وہی لچھن ہیں، وہ سیاست سیاست کھیل رہے ہیں، آنے والے الیکشن کی تیاریاں ہو رہی ہیں، توڑ جوڑ ہو رہے ہیں، پارٹیاں بدلی جا رہی ہیں، سیاسی کبوتر ایک چھجے سے اڑ کر دوسرے چھجے پر جا رہے ہیں۔
بچے بچیاں تو گلی محلوں کی درندگی کا شکار ہو رہے ہیں ، ان ارب پتی، کروڑ پتی سیاست دانوں کے محلوں میں تو ہر روز عید اور ہر شب شب برات ہے، دیوالی ہے، بسنت ہے۔ ان کے بچے مسلح گارڈز کے حصار میں اسکول جاتے ہیں، ان سیاست دانوں کے بچوں کے اسکول بھی مسلح گارڈز کے پہرے میں ہوتے ہیں۔ یہ اغوا ہوتے بچے تو مصیبت کے مارے غریبوں کے بچے ہوتے ہیں۔ ان غریب مصیبت کے ماروں کا کون ہے۔ بس اوپر والا ہے، جو قیامت کے دن عدالت لگائے گا۔ مردان کی چار سالہ بچی اسما کے دادا اور چچا نے یہی کہا ہے کہ ''ہم نے اﷲ پر چھوڑ دیا ہے۔''
مظلوم اسما کا نہ پولیس نے ساتھ دیا اور نہ حکمرانوں نے خبر لی، اس کے گھر مرد ، عورتیں خوف و ہراس میں جی رہے ہیں۔ گھر کے باہر پولیس بیٹھی ہے، اسما کے گھر والے نظر بندی کا شکار ہیں۔ پولیس کے احکامات کے تحت چل رہے ہیں، ان سے ملنا ہے، اس سے بات کرنا ہے۔
اسمبلیوں والے اسی طرح چل پھر رہے ہیں جیسے 70 سال سے ان کے بزرگ چلتے پھرتے رہے اور موت آنے پر مر گئے اور اپنا اونچا مزار یا قبر بنا گئے، ان کے جانے کے بعد ان کے مزارات اور قبریں کمائی کا ذریعہ بن گئی ہیں اور اب پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، بھتیجے، بھانجے اسمبلیوں میں بیٹھے کھلا کھا رہے ہیں اور نہا رہے ہیں۔
ان اسمبلیوں والوں کو ''کچھ کہنا'' بے کار ہے۔ یہ خود اچھی طرح جانتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ ''وہ کیا ہیں'' عمران خان اور شیخ رشید نے کھلے عام ان پر لعنت بھیجی۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ (عمران اور شیخ رشید کے علاوہ) دائیں بائیں بیٹھے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین، بیٹھے رہے۔ یہ دونوں اور شیخ رشید بھی آمروں، جابروں، ظالموں کے شانہ بشانہ چلتے پھرتے رہے ہیں۔
''یہ'' تو غریبوں کو ''کمی کمین'' کہتے ہیں، جب کہ یہ اسمبلیوں والے خود پتا نہیں ''کیا ہیں''۔
دیکھو! اب ظلم اپنی حدوں سے بھی پار نکل گیا ہے۔ اب تو ''دو بدو جنگ'' ہی رہ گئی ہے۔ غریب تو ویسے ہی ہر طرح سے مر رہا ہے۔ غریب کا کیا جائے گا؟
حبیب جالب کو گئے 23 برس ہوگئے، مگر وہ اپنے ''بولوں'' کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے، اس نے بولا تھا:
حکمراں ہوگئے کمینے لوگ
خاک میں مل گئے نگینے لوگ
پاکستان کا ''ہائیڈ پارک'' کراچی پریس کلب تھا۔ جہاں جالب نے اپنی طویل مثنوی سناتے ہوئے یہ شعر پڑھا تھا۔ سامعین میں حسین شہید سہروردی کی بیٹی بیگم اختر سلیمان بیٹھی تھیں۔ جالب نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ''یہ سہروردی صاحب کی بیٹی بیٹھی ہیں، سہروردی صاحب جیسے لوگ ''نگینے'' تھے، مگر ظالموں کے ''گٹھ جوڑ'' نے ''نگینے'' لوگوں کو حکمران نہ بننے دیا اور نتیجہ یہ کہ چند گھرانے آباد ہوتے گئے اور کروڑوں بربادی کی نذر ہوگئے۔
مے فیئر اپارٹمنٹ لندن، سوئس بینک، سرائے محل اور پانامہ پیپر والے 450 پاکستانی خوش رہیں اور پھولیں پھلیں، اتنا کہ پھٹ جائیں۔
میں اور کیا کہوں! کیا لکھوں! یہ معصوم بچے، درندگی کا شکار ہوئے اور پھر مار دیے گئے۔ ان حالات سے بڑھ کر بھی ''اور حالات'' ہوسکتے ہیں۔ کوہاٹ کی میڈیکل کی طالبہ عاصمہ کو قتل کرنے سے پہلے قاتل نے عمرے کا ویزہ لگوایا، جہاز کا ٹکٹ تک کروایا اور عاصمہ کو گولیاں مار کر طے شدہ پروگرام کے مطابق کوہاٹ اسلام آباد آیا اور عمرہ کرنے چلا گیا، خدا کے گھر کے لیے اور سراپا رحمت ہی رحمت کے دربار کے لیے۔
اس دنیا میں کھلی چھوٹ ہے، کیسے کیسے ظالم، مکروہ لوگ متبرک مقامات پر حاضر ہوتے ہیں، تو کیا انھیں ''اچھا'' کہا جائے؟ کسی انسان کی جان لینے سے بدترین فعل اور کوئی نہیں۔
آج میں آپ کو حبیب جالب کی نظم ''جمہوریت'' کا ایک حصہ سناؤں گا، یہ نظم فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں 1962 میں لکھی گئی اور مادر ملت محترم فاطمہ جناح (بمقابلہ ایوب خان) کے لاکھوں کے جلسے میں پڑھی گئی:
یہ ملیں، یہ جاگیریں، کس کا خون پیتی ہیں
بیرکوں میں یہ فوجیں، کس کے بل پہ جیتی ہیں
کس کی محنتوں کا پھل، داشتائیں کھاتی ہیں
جھونپڑوں سے رونے کی کیوں صدائیں آتی ہیں
جب شباب پر آکر کھیت لہلہاتا ہے
کس کے نین روتے ہیں، کون مسکراتا ہے
کاش تم کبھی سمجھو، کاش تم کبھی جانو
دس کروڑ انسانو!
انقلاب زندہ باد!
(نوٹ: 1960 میں پاکستان بشمول بنگلہ دیش دس کروڑ آبادی کا ملک تھا)