خبر کا اعتبار سچ کا جنازہ پہلا حصہ
مسئلہ یہ ہے کہ بری خبر ہائر ریٹنگ لاتی ہے، اس سے اخبار زیادہ فروخت ہوتے ہیں، چینل چل پڑتا ہے۔
آج کچھ افکارِ پریشاں کا صحافتی ذکر ہوجائے۔ معروف اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود نے زینب قتل کیس کے حوالہ سے ملزم عمران علی کے 37 اکاؤنٹس اور بدنام زمانہ پورن انڈسٹری سے روابط کے جتنے سنسنی خیز انکشافات کیے، اس کی گونج عدالت عظمیٰ تک پہنچی ، سپریم کورٹ نے ملک کے تمام مین اسٹریم روزناموں کے مالکان، سینئر صحافیوں، اینکرز اور صحافتی تنظیموں کے عہدیداروں کو پیدا شدہ صورتحال کی گمبھیرتا کو سلجھانے کے لیے بلایا، جہاں اینکر شاہد مسعود نے اپنی خبر کے دفاع میں ٹھوس شواہد، متعلقہ دستاویزات، غیر ملکی اور ملکی اکاؤنٹس کی رسیدیں، چیک نمبر، بینکوں کے نام مع ثبوت اور گواہ پیش نہیں کیے۔
عدالت نے انھیں ایک ماہ کے اندر قائم کردہ کمیٹی کے روبرو حقیقت سامنے لانے کی مہلت دی ہے۔ بعض سینئر صحافیوں نے خجالت اور ندامت دائمی سے بچنے کے لیے ڈاکٹر صاحب کو معافی آپشن استعمال کرنے کی پیش کش بھی کی، عدلیہ نے بھی قرار دیا کہ خبر سچ نکلی تو آپ کو تعریفی سند دیں گے، ورنہ تادیب و سزا کے لیے تیار رہیں۔ مگر ڈاکٹر صاحب بضد رہے کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا، میری اسٹوری ڈیولپنگ ہے۔ واپس جاکر اپنے ٹی وی پروگرام میں شعلہ نوائی اور آشفتہ سری کے نئے ریکارڈ قائم کیے کہ سرکار کے فاضل بزرجمہر میر تقی میر کے اس شعر کی تصویر بنے رہے کہ
منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ آزادی صحافت کے آئینہ میں خبر کی حرمت کیا ہوتی ہے، سچی اور جھوٹی خبر کے فرق کے اثرات و نتائج کی مار کہاں تک ہے، بے بنیاد اور بے پر کی اڑائی ہوئی خبر کی رفتار کا پیمانہ کیا ہے، حکومت، معاشرہ، میڈیا اور دنیا کو فیک نیوز کس درجہ ہلاتی، جھنجھوڑتی اور نیم جان کردیتی ہیں، ملک کے فہمیدہ حلقوں اور میڈیا مالکان کو کیا پیغام جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
عام تصور یہ ہے کہ لوگوں کو معاملات اور اطلاعات ملنی چاہئیں، بیش قیمت اور سچی معلومات، کوئی شہری اندھیرے میں نہ رہے، ایک مغربی مبصر کے مطابق الیکٹرانک میڈیا تبدیل ہوگیا ہے، خبر کی جگہ انٹرٹینمنٹ نے لے لی ہے، امریکی تجزیہ کار والٹر کرونکائیٹ نے اس تضاد کی نشاندہی یوں کی ہے کہ ریٹنگ کی مجبوری اور مارکیٹنگ کے دباؤ نے خبروں میں انفارمیشن اور انٹرٹینمنٹ کی باریک لکیر مٹا دی ہے.
وہ کہتے ہیں کہ ہماری پسند ناپسند اپنی جگہ، لیکن ہمارا تعلق خبر سے ہے، چاہے وہ فرنٹ پیج کی ہو یا بیک پیج کی، ادارتی کالم ہو، ہم روزمرہ کی خبریں بنارہے ہوتے ہیں، سیاست کی کوریج ہوتی ہے، یہ ہماری ذمے داری ہے کہ یقین کرلیں خبر درست اور سچی ہے، ہمیں اپنے تعصبات سے بالاتر ہونا چاہیے، یہی جرنلزم کی بنیاد ہے۔
یہی بات ماریو کومو نے کہی ہے، ان کا استدلال یہ ہے کہ اگر آپ نے خبر کو مینی پولیٹ کیا تو کل جج قانون توڑے گا، ایک اسمارٹ وکیل مجرم کو بری کروا دے گا، ایک چالاک اکاؤنٹنٹ کسی چور کو ٹیکس نیٹ سے بچائے گا، اور ایک غیر ذمے دار رپورٹر ادارہ کی ساکھ اور شہرت کو داغ دار کرنے سے نہیں ہچکچائے گا۔ ٹریسی مورگن کی نظر میں بری خبر روشنی کی رفتار سے چلتی ہے، جب کہ اچھی خبر کچھوے کی۔
اگر میڈیا کے لوگ یہ فیصلہ نہ کرسکیں کہ درحقیقت رپورٹنگ بزنس سے متعلق ہیں یا پروپیگنڈہ کرنے والے ہیں تو وہ سوچ لیں کہ قارئین و ناظرین اس فرق یا جعلسازی کا پتا لگا لیں گے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ نیوز میڈیا کا بیشتر حصہ بری خبروں سے لتھڑا ہوتا ہے، میڈیا مکمل اس کا ذمے دار نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ بری خبر ہائر ریٹنگ لاتی ہے، اس سے اخبار زیادہ فروخت ہوتے ہیں، چینل چل پڑتا ہے، بہ نسبت گڈ نیوز کے۔ جوزف پرنس شکایت کرتے ہیں کہ ہم پر ریڈیو، ٹی وی، سوشل میڈیا کی 24 گھنٹے بمباری ہوتی ہے، سننے اور پڑھنے والے کے اعصاب پر دباؤ ہے، جب کہ بری خبروں کا پلہ بھاری ہے۔
امریکا کے معروف اینکر اور صحافی گیری ایکرمین نے کہا کہ لوگ تذبذب میں ہیں کہ تفریح اور خبر کا فرق کیا ہے؟ جو لوگ جرنلزم میںآئے ہیں انھیں جرنلزم کی ابجد کا پتا نہیں۔ ٹی وی جرنلسٹ کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ہاکی میچ جیسی سنسنی پیدا کرتے ہیں، اس قبیلہ کے ماہرین خبر کو خرافات کی شکل میں ڈھالنے والوں سے سخت بیزار ہیں۔
والٹیئر کا مشہور قول ہے کہ بات اگر خبر کی ہے تو اس کی تصدیق کے لیے ''مقدس تصدیق'' کا انتظار کرنا چاہیے۔ گراہم ہاکس کا کہنا ہے کہ خبر کے مطابق خلائی تحقیق جاری ہے، وعدے ہیں کہ کریں گے اہل نظر تازہ خلائی بستیاں آباد، کائنات کی پوشیدہ معدنیات کا سراغ لگ جائے گا، خبریں دندناتی ہوئی آتی ہیں، مگر معاملہ اس وقت دشت و صحرا کا بن جاتا ہے جب سامنے ''جنک'' نیوز کا کچرا پڑا نظر آتا ہے۔
معروف شاعر ایذرا پاؤنڈ کا کہنا ہے کہ ادب خبر ہے جب تک کہ خبر رہے۔ کہتے ہیں کہ آزادی اظہار امریکا میں ایک نعمت ہے، مگر کیا اس آزادی کا استعمال آپ فوکس نیوز پر کرسکتے ہیں؟ ملین ڈالر سوال ہے، چنانچہ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ غلط فہمی دور ہونی چاہیے کہ کلیت پسندانہ یا آمریت کی ساری خبریں غلط ہوتی ہیں، کیونکہ جمہوریت ہمارے یہاں کب سچی خبروں کی جنت قرار پائی ہے۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے تو بصد سامان رسوائی صحافت کو سر بازار می رقصم تک پہنچا دیا۔ خیال آرائی کبھی مصدقہ خبر کی جگہ نہیں لے سکتی۔ مغربی ملکوں میں بھی یہ شکایت عام ہے کہ ٹی وی کی شام کی خبریں تفریحات کی شکل اختیار کرچکی ہیں، خبروں کی کہانیاں وہ لوگ لکھتے ہیں جن کی دلچسپی اسی میں ہے۔
ضروری نہیں کہ خبروں کی پریزنٹیشن سے حقیقت یا سچائی نمایاں ہوسکتی ہے، یعنی نیوز کاسٹر خوشی کی خبر ہنستے مسکراتے ہوئے اور غم کی خبر آبدیدہ ہوتے ہوئے سنائے، اس سے فرق نہیں پڑتا، خبر یا وائس اوور رپورٹ سنجیدہ تحقیق اور حقائق Facts سے سروکار رکھتی ہے، اسے اداکاری، بھونڈی صدا کاری، ریاکاری اور مسخرے پن سے دور رکھنے کی ضرورت ہے۔ چلتی کا نام گاڑی میڈیا ورلڈ کا سکہ رائج الوقت ہرگز نہیں، مثلاً ریبیکا لوز نے کہا کہ مجھے ایک فون کال آئی کہ ہم ''نیوز آف دی ورلڈ'' سے بول رہے ہیں، آپ کے اور فٹبال اسٹار ڈیوڈ بیکھم کے بارے میں تہلکہ خیز خبر دے رہے ہیں، ذرا انتظار کرنا۔ میرا تو دل ہی بیٹھ گیا۔ یہ یلو yellow جرنلزم ہے۔
اچھی طرح رپورٹ کی ہوئی خبر پبلک گڈ ہے، اسی طرح بری خبر عوام کے لیے بے سود اور خطرناک۔ جھوٹی خبر، بے بنیاد رپورٹ اور انکشاف سائبر ہتھیار بن سکتے ہیں، بڑی تباہی لاسکتے ہیں، بلا تحقیق سنی سنائی خبر کو آگے بڑھانے کی ہمارے پیغمبرؐ نے ممانعت کی ہے۔ اس سے فساد بھی پھیل سکتا ہے۔
خبر کی طربیہ ساخت کے بارے میں جین کاکشیو نے انوکھی بات کی کہ میرے پاس ایک عظیم المیہ خبر کا پیس ہے اور وہ یہ ہے کہ میں مرچکا ہوں۔ کئی ماہرین صحافت اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ احمق لوگ سسٹم کو فالو کرتے ہیں اور میڈیا کے نیوز چنگل میں پھنس جاتے ہیں، ان کا تھیسس یہ ہے کہ حکومت تو چاہتی ہے کہ اس کی دی ہوئی ہر خبر پر سچ کا گمان گزرے، اور عوام کی بھیڑچال وہی کہ سر جھکائے مویشی باڑے میں پہنچ جاتے ہیں۔
جعلی fake خبر کی جہاں تک بات ہے اس نے امریکا کی صحافتی جنت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، صدر ٹرمپ کی توپوں کا رخ میڈیا کے بڑے ہاؤسز کے خلاف ہے، ہمارے یہاں بھی جھوٹی اور پروپیگنڈہ خبریں اور رپورٹیں بار بار چھپ کر سچ کے منہ پر ٹیپ لگا دیتی ہیں، حالانکہ دانا کہتے ہیں کہ ''اصل خبر تو وہ ہے جسے ارباب اختیار اور بااثر میڈیا ہاؤسز دباتے ہیں، اور جو کچھ چھپتا ہے وہ اشتہاریات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے۔ اسی بزنس سے اخبارات اور چینلز کے گلشن کا کاروبار چلتا ہے۔
(جاری ہے)