عمران علی اور راؤ انوار
دو خرابیوں کی وجہ مجرموں کے حوصلے بلند ہیں، انھیں یقین ہوتا ہے کہ قانون اور انصاف ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
پاکستان کے مختلف حلقوں کی جانب سے زینب کے قاتل عمران علی کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ زینب ایک 7 سالہ معصوم بچی تھی، عمران نے اس معصوم بچی کی آبرو ریزی کرکے اسے جس سفاکانہ طریقے سے قتل کیا اور اس کی لاش کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا، یہ ایک ایسی سفاکی اور بربریت تھی جس کی سزا اسے ملنی چاہیے۔
یہ بات یقینی ہے کہ اسے سزائے موت ہی ملے گی اور اس کی اس سفاکانہ حرکت کے پیش نظر اگر سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تو یہ غلط بات نہیں، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا اسے سرعام پھانسی دینے سے اس قسم کے جرائم ختم ہوجائیں گے؟
زینب کے قتل کے بعد میڈیا میں اس کے قاتل کے خلاف جس شدید نفرت کا اظہار کیا جا رہا ہے اور سرعام پھانسی کے مطالبے کیے جا رہے ہیں اس کے تناظر میں اس قسم کے جنسی مریضوں کی وحشیانہ کارروائیاں ختم ہوجانا چاہیے تھیں، لیکن ان دو ہفتوں کے دوران معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتیوں اور بہیمانہ قتل کی کئی وارداتوں کی خبریں میڈیا میں آتی رہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل صرف سخت سزائیں نہیں ہے۔
سب سے پہلے اس حقیقت پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے کہ زینب کے قاتل کی یہ پہلی واردات نہیں تھی، دوران تفتیش اس نے ایسی آٹھ وارداتیں کرنے کا اقرار کیا ہے، وہ بھی اسی ایک شہر قصور میں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مسلسل وارداتوں کے باوجود عمران علی آزاد تھا اور اطمینان سے اپنی وحشیانہ کارروائیاں کرتا رہا۔ نہ مقامی پولیس نے اسے گرفتار کیا نہ خفیہ ایجنسیوں نے اس کی گرفتاری میں کوئی مدد کی۔ عمران علی کی سفاکی کے خلاف اس وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہوش آیا جب میڈیا میں اس واردات کے خلاف ایک طوفان کھڑا ہوا۔
اگر میڈیا زینب کے معاملے کو نہ اٹھاتا تو یہ واردات بھی عمران کی آٹھ دوسری وارداتوں کی طرح گمنامی کے پردوں میں چھپی رہتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس وقت ہی نیند سے جاگتے ہیں جب کوئی واردات میڈیا میں طوفان کی طرح اٹھتی ہے، ورنہ پولیس گہری نیند میں سوئی رہتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس اصل مجرم ہے جس کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی جاتی۔
کراچی میں نقیب کے قتل کے خلاف بھی اس وقت انتظامیہ نیند سے بیدار ہوئی جب اس سنگین واردات کو میڈیا نے ہائی لائٹ کیا۔ اور ایس ایس پی راؤ انوار کے مجرمانہ کردار کا پردہ چاک کیا، ورنہ ایس ایس پی راؤ انوار ہیرو بنا ہوا تھا۔ ایس ایس پی راؤ انوار پولیس مقابلوں میں سیکڑوں افراد کو قتل کرنے کے باوجود ہیرو بنا رہا، کیونکہ اس کی پشت پر ''اوپر کے ہاتھ'' موجود تھے۔ آج جب راؤ انوار کے خلاف میڈیا میں طوفان اٹھا ہے تو وہ ڈھٹائی سے کہہ رہا ہے کہ وہ پولیس مقابلوں کے نام پر یہ خونیں کھیل اوپر کے اشاروں پر کھیلتا رہا۔
راؤ انوار اس حوالے سے بھی زیادہ مشہور ہوا کہ اس نے کراچی کی نمایندہ سیاسی جماعت کے کارکنوں کا پولیس مقابلوں کے نام پر قتل عام کیا اور راؤ انوار یہ قتل عام اوپر کے اکابرین کے اشاروں پر کرتا رہا۔ اس پس منظر میں راؤ انوار محض ایک کٹھ پتلی تھا، جو اوپر کے اشاروں پر پولیس مقابلوں کا یہ بہیمانہ کھیل کھیلتا رہا۔ یعنی اصل مجرم راؤ انوار نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو راؤ انوار کو استعمال کرتے رہے۔ راؤ انوار آج ڈھٹائی کے ساتھ ان ہاتھوں کو بے نقاب کرنے کی دھمکی دے رہا ہے جو اسے استعمال کرتے رہے۔
اس حوالے سے پہلی حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اس وقت ہی فرض شناس بنتے ہیں جب میڈیا کسی واردات، کسی جرم، کو ہائی لائٹ کرتا ہے، ورنہ یہ ادارے گہری نیند سوتے رہتے ہیں اس کی دو مثالیں ہمارے سامنے ہیں ایک زینب کا بہیمانہ قتل، دوسرے کراچی میں نقیب کا پولیس مقابلے کے نام پر سفاکانہ قتل۔
قصور کی 7 سالہ ننھی پری زینب عمران کا پہلا شکار نہیں تھی بلکہ وہ اس قسم کی آٹھ وارداتیں پہلے کرچکا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر زینب کا قتل میڈیا کی پہلی سرخی نہ بنتا تو کیا عمران علی پکڑا جاتا؟ بالکل نہیں، بلکہ عمران کے ماضی میں کیے جانے والے اٹھ جرائم کی طرح یہ کیس بھی گوشہ گمنامی کی نظر ہوجاتا۔ کیا اس صورتحال کا ازالہ ممکن ہے؟
مشکل ہے، اس کے لیے پورے نظام کو بدلنا پڑے گا، جو جرائم کو فروغ دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں اشرافیائی جرائم کے حوالے سے یہ بات سنی جاتی رہی ہے کہ کمسن بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں اشرافیائی مخلوق کی چابی رہی ہے اور اس گھناؤنے جرم میں بھی عمران علی جیسے جنس زدہ کرداروں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں، اس حوالے سے کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں، اس قسم کے جرم خواہ عمران کرتا رہا ہو یا اشرافیہ کے جنسی مریض کرتے رہے ہوں، اس کا علاج محض سزائے موت نہیں بلکہ اس نفسیات کا خاتمہ ہے جو انسانوں کو ان گھناؤنے جرائم پر اکساتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے سفاکانہ جرائم کے فروغ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کرپشن اور لاپرواہی کا زیادہ دخل ہوتا ہے، جس کا ازالہ ضروری ہے لیکن ان خرابیوں کا ازالہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان خرابیوں ، نفسیاتی امراض اور معاشرتی محرکات کا علاج نہیں کیا جاتا۔
اس حوالے سے ہمارے عدالتی نظام میں پائی جانے والی خرابیاں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں، اس حوالے سے اس مایوس کن حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کے دوسرے اداروں کی طرح عدلیہ میں بھی کرپشن کی بھرمار ہے خاص طور پر نچلی سطح پر کرپشن عام ہے اور اس بیماری کا اثر عدلیہ کے پورے جسم پر پڑ رہا ہے، عدالتی اکابرین اگرچہ اس بیماری کے وجود کا اعتراف کرتے ہیں لیکن اس کا علاج اس لیے نہیں کرپاتے کہ یہ بیماری ایک زہر کی طرح پورے معاشرے کے جسم میں پھیل چکی ہے۔
اس حوالے سے عدلیہ کی ایک کمزوری یہ ہے کہ یہاں عدالتی کارروائیاں کچھوے سے زیادہ سست رفتاری سے چلتی ہیں، عدالتی اکابرین عدلیہ کی اس سست رفتاری کو بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن اس مسئلے کو حل کرنے سے اس لیے معذوری ظاہر کرتے ہیں کہ وسائل کی کمی کے علاوہ 70 سال سے جاری و ساری اس سست رفتاری کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ وسائل کی کمی بھی بتلائی جاتی ہے۔ ان دو خرابیوں کی وجہ مجرموں کے حوصلے بلند ہیں، انھیں یقین ہوتا ہے کہ قانون اور انصاف ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
زینب کیس کی اس طوفانی پبلسٹی کے باوجود مردان میں ایک معصوم بچی کی عصمت دری اور قتل سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ مجرم بالکل خوفزدہ نہیں ہیں اور آزادی کے ساتھ جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ہماری محترم عدلیہ اعلیٰ سطح کی کرپشن کے خلاف جو سخت اقدامات کر رہی ہے اسی قسم کے سخت اقدامات سماجی جرائم کے خلاف بھی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غریب گھرانوں کی زینبوں کی آبرو اور جان کا تحفظ ہوسکے۔ اور معاشرے سے عمران علی اور راؤ انوار کا خاتمہ ہوسکے۔