طرزِ حکمرانی
یہ طرزِحکمرانی جبر اورظلم پرکھڑا ہوا ہے، ہمارے جیسے ممالک میں اس کو تبدیل کرنے کے لیے سیکڑوں برس چاہیے۔
بلبن پہلے دن دربارمیں بطورسلطان بیٹھا تھا۔ درباری ترک امراء سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔بلبن نے دیکھا کہ درباری ہنسی مذاق کررہے ہیں۔ ایک درباری تو قہقہے لگارہا تھا۔ یہ تمام امراء ترک غلام تھے جوسالہاسال بلبن کے ساتھی رہے تھے۔اس نے محسوس کیاکہ درباری اس کی بات کو اس درجہ احترام اورتوجہ سے نہیں سن رہے،جواس کامتقاضی ہے۔بلبن نے فوراً دربار منسوخ کیااورواپس رہائش گاہ چلا گیا۔ اس کے بعد چند بنیادی فیصلے کیے۔
سلطان یا بادشاہ اور اس کے دربادریوں میں ہرطرح کا فاصلہ ہونا چاہیے۔ عام آدمی سے سلطان کا رابطہ حد درجہ کم ہونا چاہیے۔ بلبن کی سوچ نے برصغیرمیں بادشاہ، دربار اور رعایا کا تعلق ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیا۔یہ تبدیلی آج کے دن تک کسی نہ کسی صورت میں موجودہے۔
سب سے پہلے بلبن نے فیصلہ کیاکہ دربارمیں اس کی کرسی یاتخت بیش قیمت ہوناچاہیے۔اس میں ہیرے جواہرات جڑے ہوںتاکہ درباریوں پردولت کا رعب اور دبدبہ جم جائے۔چنانچہ سونے،چاندی اورقیمتی پتھروں سے مزین چھتراورتخت بنوائے گئے۔ پھر بادشاہ کی سواری بے حدمنفرد،قیمتی اوربڑھیاہونی چاہیے۔ چنانچہ جس گھوڑے یادیگرجانورپربلبن سواری کرتا تھا، اسے بھی قیمتی زیورات سے سجایاجاناشروع ہوگیا۔
گھوڑوں کے ماتھوں پرسونے کے زیوارات باندھے جاتے تھے۔ ان پرانتہائی قیمتی کپڑا رکھاجاتا۔ بلبن یہاں تک نہیں رکا۔ اس نے اپنے کپڑوں پر بھرپورتوجہ دی۔ملبوسات میں سونے کی تاریں اور لکیریںاستعمال کی جاتی تھیں۔سلطان کا سرکاری پروٹوکول اس درجہ بڑھادیاگیاکہ خداکی پناہ۔ تخت کے اردگردطویل قامت سپاہی ننگی تلواریں لیے کھڑے رہتے تھے۔ انھیں گھنٹوں اسی طرح ساکت کھڑے ہونے کی مشق کرائی جاتی تھی۔جب بادشاہ باہرنکلتاتھاتویہ سپاہی سواری کے اردگرد بھاگنا شروع کردیتے تھے۔بلند آواز سے سلطان کی سواری کے متعلق اعلان کرتے جاتے تھے۔ رعایا کاک وئی فرد بلبن سے ملنے کی جرات نہیں کرتا تھا۔
بلبن نے برصغیرمیں ایک نئے نظریے کو پیش کیا۔وہ تھاکہ حکمران ہرطریقے سے تمام لوگوں سے برتر ہے۔خداکاخصوصی طورپرچناہواانسان ہے۔اس کی حکم عدولی قطعاًنہیں کی جاسکتی۔برصغیرمیں بلبن پہلا حکمران تھاجس نے بادشاہ کے عہدہ کو خدائی اخیتارات کا حامل کرڈالا،جسکی مثال کم ازکم پہلے نہیں ملتی۔
مغل بادشاہوں نے بھی اس روایات کوقائم رکھا۔ بلکہ بے حدبڑھاوادیا۔اپنے رہنے کے لیے قیمتی ترین قلعے اورمحل تعمیرکرائے۔ رعایاکوجانورکی حیثیت پررکھا۔ انگریز نے آکردوہاتھ آگے کاکام کرڈالا۔وائسرے کاپرٹوکول اور رہائش گاہ کسی طورپر مغل بادشاہ سے کمترنہیں تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انگریز نے انتہائی ذہانت سے ایک ایسی کلاس پیداکردی،جومقامی لوگوں پرحکمرانی توکرے مگررعایا سے ان کا تعلق واجبی ساہو۔یہ تدبیرمکمل طورپرکامیاب رہی۔ بادشاہ کانام بدل گیا۔مگراس کا رہن سہن تقریباًاسی ٹھاٹ باٹھ کارہاجوپہلے تھا۔
یہ صرف برصغیرکامسئلہ نہیں تھا بلکہ پورے یورپ بلکہ دنیامیں حکمران اسی کروفرسے رہتے تھے۔ منفرداورعام لوگوں سے دور۔فرانس اوربرطانیہ کی علمی بغاوت نے ہرچیزتبدیل کرڈالی۔صنعتی انقلاب اوراس کے بعد،انھیں معلوم ہوگیاکہ حکمران اوررعایاکے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہوناچاہیے۔بلکہ وزیراعظم یاصدرکوکڑے انسانی معیارپرعمل کرناچاہیے۔یہ تحریک کسی نہ کسی طور پر برصغیرمیں ضرورآئی مگراس کے نتائج وہ نہیں تھے،جس طرح یورپ بالخصوص برطانیہ میں سامنے آئے تھے۔
تقسیم کے بعد ہمارے حکمرانوں نے بہت نیم دلانہ طریقے سے اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی ناکام کوشش کی۔حکمران وزیراعظم، صدر،وزراء اعلیٰ اورگورنراسی شان وشوکت سے رہنے کی کوشش کرنے لگے جوتاج برطانیہ کی حکومت میں تھی۔ وسیع وعریض سرکاری رہائش گاہیں،قیمتی ترین گاڑیاں،پروٹوکول اورہٹوبچوکی قدیم رسم رائج رہی۔
برطانیہ میں ہاؤس آف کامنزمیں منتخب ہونے والے ایم پی انتہائی سادہ ِزندگی گزارنے پرمجبورکردیے گئے۔کئی بار ملاحظہ کیاکہ ایم پی، عام ٹرین میں سفرکرتاہوا،ویسٹ منسٹر پہنچا۔اپنابیگ ہاتھ میں اُٹھاکرپارلیمنٹ میں داخل ہوا اور سرکاری کام کرنے کے بعدبالکل اسی طرح واپس چلا گیا۔ مقصدیہ تھاکہ حکمرانوں کوعام آدمی کی سطح پر رکھا جائے۔
وزیراعظم برطانیہ، دس ڈاؤننگ اسٹریٹ پرضروررہتاہے۔مگر اس میں ایک کمرے کااضافہ نہیں کرسکتا۔ٹونی بلیرنے جب اپنے بڑھتے ہوئے خاندان کے پیش نظرایک نیاکمرہ بنانے کی تجویزدی،تواسے فی الفوررَدکردیاگیا۔برطانوی حکمرانوں کا پروٹوکول تقریباًنہ ہونے کے برابررہا۔ ہاں 9/11 کے بعدسیکیورٹی کومضبوط کردیاگیاتاکہ کوئی دہشتگردان لوگوں تک نہ پہنچ سکے۔
امریکی اشرافیہ نے بھی اپنے طرزِحکمرانی کوبدل لیا۔ ریاست کا گورنر عام لوگوں سے ہروقت ملتارہتاہے۔ایک دوست پہلی بارامریکا گیا۔ ایک خوبصورت باغ میں سیرکررہا تھا۔کسی نے بتایاکہ ریاست کے گورنرکادفتربھی اسی باغ میں ہے۔ساتھ ان کی اہلیہ بھی تھی۔دونوں گورنرکے دفترچلے گئے۔
وہاں اسٹاف کو کہا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں اور گورنر کو ملناچاہتے ہیں۔ اسٹاف گورنرکے پاس گیاتواس نے فوراًملنے کے لیے آمادگی کا اظہار کر دیا۔ صرف یہ کہاکہ آدھے گھنٹے تک مصروف ہے۔ لہٰذا مہمانوں کو تیس منٹ انتظار کرنا پڑیگا۔ ٹھیک تیس منٹ بعد، گورنر دفتر سے خودباہر آیا۔ دونوں مہمانوں کے ساتھ دس پندرہ منٹ گپ شپ لگاتا رہا۔ پھر آرام سے واپس چلا گیا۔ گورنر کانام رونلڈ ریگن تھااوراس وقت کیلیفورنیااسٹیٹ کا حاکم تھا۔یہ1974ء کاواقعہ ہے۔اب بتائیے کہ کیایہ سب کچھ ہمارے ملک میں ممکن ہے۔جواب آپ خودہی تلاش کرلیجئے۔
آزادی کے بعدہمارے حکمرانوں نے اپنے طوراطوار نہیں بدلے۔ مغربی دنیاکے حکمران، عوام کی طرح ہوگئے۔ مگرمسلمان ملکوں کے مقتدرطبقے نے تبدیل ہونے سے انکارکردیا۔ اکیسویں صدی کے اندربھی مسلمان ممالک میں ایسے بادشاہ،شہزادے اور شہزادیاں موجودہیں،جواپنے اپنے ملکوں کے تمام وسائل اور اختیارات پرقابض ہیں۔ان کے ذاتی اخراجات اس قدرزیادہ بلکہ بے رحم ہیں کہ انسان حیران ہوجاتاہے۔
ایک مسلمان ملک کابادشاہ، چھٹیاں گزارنے کے لیے تیونس گیا۔ سیکڑوں نوکر،کنیزیں ساتھ تھیں۔ چار ہوٹلوں کوبادشاہ کی مرضی کے مطابق آراستہ کیاگیا۔بیسیوں بیش قیمت گاڑیاں اورہوائی جہازساتھ گئے۔کیاآپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ چھٹیوں پرکتنا پیشہ خرچ ہوا۔ دل تھام کر بیٹھیے۔چنددنوں میں بادشاہ سلامت نے تیرہ بلین ڈالرکی خطیررقم خرچ ڈالی۔آپ لندن یاپیرس چلے جائیے۔سب سے بڑے اورعیش وعشرت کے سامان سے آراستہ محلات، مسلمان بادشاہوں، ولی عہدوں اورشہزادوں کے ہیں۔ دنیا کے مہنگے ترین جوئے خانوں میں یہ لوگ کروڑوں ڈالرہار کر بڑے آرام سے واپس چلے جاتے ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ حکمرانی کے قدیم اصولوں کو جس طرح مغرب نے تبدیل کرکے اپنایا،مسلمان ممالک نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ شخصی حکومت، دربار،محل،اَن گنت غلام۔بالکل اسی طرح موجود ہیں۔ جس طرح سیکڑوں برس پہلے کاراج تھا۔
پاکستان میں حالات بالکل اسی طرح کے تونہیں لیکن قدرے ملتے جلتے ہیں۔آئے دن حکمران طبقے کے لاؤلشکر، گاڑیوںاورپہرے داروں کودکھایاجاتاہے۔درجنوں گاڑیاں اورسیکڑوں محافظ ان لوگوں کے لیے مختص کیے جاتے ہیں۔قیمتی ترین پرائیویٹ جیٹ ان لوگوں کی سرکاری سواری ہے۔ان جہازوں کوجس بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے، کبھی آپ ان کے عملے سے پوچھیے۔ نزدیک ترین سفر بھی ہیلی کاپٹر پر کیا جاتا ہے۔ مقتدر طبقے نے محلات بنا رکھے ہیں۔ ہمارے ملک میں حکمران طبقہ بالکل اسی روایت پرعمل کررہاہے جوبلبن نے سیکڑوں برس پہلے برصغیرمیں متعارف کرائی تھی۔
عام آدمی کی زندگی پرغورکیجیے۔ہمارے جیسے ممالک میں توپیدا ہی ذلیل ہونے کے لیے ہواہے۔ مگر سوچیے،کہ اگر کسی عام آدمی کووزیراعظم،وزیراعلیٰ یا کسی بھی مقتدرشخص سے جائزکام پڑجائے،توکیاوہ مسئلہ کوحل کرانے کے لیے ان لوگوں سے مل سکتا ہے۔ سوال ہی پیدانھیں ہوتا۔ ہاں،جہاں حکمران محسوس کرینگے کہ کوئی ایساواقعہ پیش آرہاہے،جہاں جانے سے ان کے امیج پرمثبت اثرپڑیگا، تو جھٹ پٹ وہاں پہنچ جائیں گے۔مگرمچھ کے آنسوبہائیںگے۔جھوٹے وعدے کرینگے اورانصاف کامذاق اُڑاتے ہوئے فوراًواپس آجائیں گے۔
ہماراطرزِحکمرانی کسی صورت میں بھی عوام دوست نہیں ہے۔اس میں کوئی استثناء نہیں۔ ہر صوبے میں بالکل ایک جیسے معاملات ہیں۔مغربی دنیا نے جس سچ کوتین سو برس پہلے سمجھ لیاتھا،اس حقیقت کو ہم نے عملی طور پر ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ مقتدر طبقہ بلبن کے درباری ماڈل کاذکرکیے بغیراس پرعمل پیراہے۔ یہ طرزِحکمرانی جبر اورظلم پرکھڑا ہوا ہے۔ ہمارے جیسے ممالک میں اس کو تبدیل کرنے کے لیے سیکڑوں برس چاہیے۔ یا شاید ہزاروں نوری سال!