گھر کے بزرگوں کا سایہ نعمت خداوندی

بزرگوں کا سایہ بہت بڑی نعمت ہے۔ ان کے دم سے آپ کی بہت سی پریشانیاں اور مشکلات دور ہوتی ہیں۔


سمیرا انور February 05, 2018
بزرگوں کی خدمت سعادت سمجھ کر کیجیے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

''ماہم بیٹی!مجھے آج کا اخبار تو اٹھاکر دیتی جاؤ ۔'' دادا جان نے اپنی عینک اٹھاتے ہوئے پاس سے گزرتی ہوئی پوتی سے کہا، جو فون کی اسکرین پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ اس نے نظر اٹھاکر بھی نہ دیکھا اور سنی ان سنی کرتے ہوئے دوسری طرف مڑ گئی۔ وہ بے بسی سے دروازے کی طرف دیکھنے لگے ،کیوں کہ اب مشکل سے ہی ان کی آواز گھر کے کسی فرد کو سنائی دیتی۔

'' بہو!یہ ٹی وی کی آواز تو ذرا کم کر دو ،اس شور سے میرا جی گھبراتا ہے ۔'' یہ کہتے ہوئے تسبیح ہاتھ میں تھامے بوڑھی خاتون لاؤنج میں بیٹھ گئیں ۔ بہو بیگم تو پہلے ہی ساس کی اس بے جا روک ٹوک سے تنگ تھیں،اب تو باقاعدہ منہ بنانے لگی تھیں۔ وہ تواب بچوں کو بھی ان کے قریب نہیں جانے دیتی تھیں اس لیے کہ وہ بچوں کونصیحتیںجو ہر وقت کرتی رہتی تھیں۔ان کو جھوٹ سے منع کرنے لگتیں تب بہو بیگم کو غصہ آتا ،اگر وہ ان کی بدتمیزی پر کچھ ڈانٹ لیتیں تب وہ بڑبڑانے لگتیں۔گھر کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے ان کا اتنا بھی حق نہیں تھا کہ وہ بچوں کو اچھے برے کی تمیز سکھا سکیں اور انھیں اخلاقیات کا درس دے سکیں۔

درج بالا مناظر آج ہمارے معاشرے میں عام ہوچکے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ گھر کی رونق اور مہکار بزرگوں کے دم سے ہے۔ ،ساس اور سسر اگر حیات ہیں تو وہ آپ کے گھر کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان کوآپ کی خصوصی توجہ چاہیے۔ نفسیاتی تقاضوں کے مطابق بزرگ اپنے بڑھاپے کی وجہ سے بہت حساس طبیعت اختیار کر لیتے ہیں، وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھنٹوں سوچتے رہتے ہیں۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ کوئی ان کے ساتھ وقت گزارے اور ان کا حال احوال بھی پوچھے ، ایک اچھی بہو اور خدمت گزار بیٹا ان کے احساسات کا خیال کرتے ہوئے انھیں ایک خوش گوار اور پرسکون زندگی دے سکتے ہیں ۔

گھر جس کی آپ مالکن ہیں وہ انھوں نے تنکا تنکا جوڑ کربنایا ہے۔ اب اسی گھر میں وہ اپنی مرضی کے مطابق رہ بھی نہیں سکتے۔ بچے بھی دادا ،دادی کا احترام نہیں کرتے اور ان کی کوئی بات بجانہیں لاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ خود اپنے ساس، سسر کو وہ اہمیت نہیں دیتیںجس کے وہ حق دار ہیں۔آپ کی اس بے توجہی کی وجہ سے ان کے لہجے میں چڑچڑاہٹ پیدا ہوجاتی ہے اور وہ خاموشی سے ایک کمرے کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔آپ کی اور سب گھر والوں کی تھوڑی سی توجہ گھر کے بوجھل پن کو دور کرسکتی ہے اور ایک خوش گوار تبدیلی سے ماحول بدل سکتی ہے۔

بزرگوں کا سایہ بہت بڑی نعمت ہے۔ ان کے دم سے آپ کی بہت سی پریشانیاں اور مشکلات دور ہوتی ہیں۔ وہ بچوں کی تربیت میں آپ کی مدد کرتے ہیں۔گھر کی دیکھ بھال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ ساس اور سسر کو اپنے ماں باپ کی طرح ہی سمجھیں جیسے ان کی تکالیف کا خیال رکھتی ہیں ویسے ہی شوہر کے والدین کو اہمیت دیں اور ان کے دکھ درد کو اپنا ہی سمجھیں۔

اگر آپ کچھ اصول وضوابط پر عمل پیرا ہوں تو گھر کے ماحول میں ایک مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ روزمرہ مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر گھر کے بزرگوں کے ساتھ بیٹھیں، ان سے مختلف مسائل پر مشورے لیں۔ اس طرح ایک تو انھیں ذہنی تسکین حاصل ہوگی اور دوسرا انھیں اس بات کا احساس ہوگا کہ وہ گھر کے بڑے ہیں اور ان کے فیصلے کو بھی اہمیت دی جارہی ہے۔ بازار جائیں تو ان کی پسند کی کچھ چیزیں خرید لائیں اگر وہ کچھ فرمائش کریں تو اس کو بھی پورا کرنے کی کوشش کریں۔کھانا پکانے میں بھی ان کی رائے شامل کر لیں اس طرح ان کے دل میں آپ کے لیے شفقت اور محبت میں مزید اضافہ ہوگا۔

بڑھاپے میں انسان بچپن جیسا رویہ اختیار کرلیتا ہے اور اس کی طبیعت میںحساسیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس لیے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ان کی شخصیت میں اتار چڑھاؤ اور ان کے رویے میں تبدیلی بڑھاپے کی وجہ سے ہے۔ البتہ آپ کی نرمی اور محبت بھرا انداز ان کی زندگی میں توازن پیدا کر سکتا ہے۔ بچوں کو سمجھائیں کہ وہ بھی دادا،دادی کے ساتھ بیٹھیں اور ان کے پسند یدہ موضوع پر بات چیت کریں۔ اگر وہ بچوں کو اچھے برے کی تمیز سکھائیں تو آپ درمیان میں نہ آئیں ،اس طرح بچے اپنے دادا ،دادی کی بات غور سے سنیں گے بلکہ ہر کام میں ان کی رائے کو محترم جانیںگے۔

جب گھر کے کاموں سے فارغ ہو ں توکچھ لمحے گھر کے بزرگوں کے ساتھ ضرور گزاریں۔ ان سے پوچھیں کہ ان کا بچپن کیسا تھا اور وہ دوستوں کے ساتھ کس طرح کی شرارتیں کرتے تھے۔ اس طرح وہ ماضی کی یادیں تازہ کرنے سے خوش ہو ں گے ،کیوں کہ ان کے پاس ماضی کی بہت سی یادیں محفوظ ہوتی ہیں اور پھر وہ دل چسپ اندازسے سناتے ہوئے خود کو ہلکا پھلکا بھی محسوس کریں گے۔

کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ رشتوں میں غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں ،ساس کی ہربات کو طعنہ یا تنقید مت سمجھیں، اپنی سوچ کو مثبت رکھنے کی کوشش کریں اس طریقے سے نہ صرف آپ پرسکون رہیں گی بلکہ گھر کا ماحول بھی اچھا رہے گا ۔کتب بینی کے شوقین بزرگوں کو وقتا فوقتا کتابیں لا کر دیتے رہیں اس طرح ان کا دل بھی بہلا رہے گا اور وہ خود کو اکیلا بھی محسوس نہیں کریں گے ۔

بزرگ والدین کا اپنے معمولات زندگی سے مکمل طور پر ایک طرف ہوجانے کا احساس ان کو نفسیاتی و جسمانی بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس نازک مرحلے میں گھر کے سب افراد کی بھرپور توجہ بہت مددگار ثابت ہوگی ۔ بزرگوں کی خدمت کرنا اپنی زندگی کا شعار بنائیں اور بچوں کو بھی اس بات کی ترغیب دیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں