عالمی برادری کی بے حسی اور کشمیریوں کی بے بسی کا عالمی دن 5 فروری
درحقیقت کشمیری 70 سال سے نہیں بلکہ 200 سال سے ظلم و ستم کا سامنا کر رہے ہیں
ہر سال 5 فروری کا دن آتا ہے اور یونہی گزر جاتا ہے لیکن کشمیر کے حالات نہیں بدلتے۔ پاکستانی حکمراں گھسے پٹے بیانات جاری کرتے ہیں، سیاست دان روایتی تقاریر کرتے ہیں، کالم نگار مضمون اور بلاگرز بلاگ لکھ دیتے ہیں۔ تاریخ بدل جاتی ہے لیکن نہیں بدلتی تو کشمیر کی تقدیر نہیں بدلتی۔ باقی رہے عوام تو انہیں 5 فروری سے چھٹی کے سوا کوئی دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ اس دن بھی لوگ بھارتی فلمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ٹی وی پر اگر کشمیریوں پر مظالم کی خبر بھی چلے تو چینل بدل دیتے ہیں۔
اس دنیا میں 5 فروری کو یوم کشمیر اگر صحیح معنوں میں کوئی مناتا ہے تو وہ کشمیری ہیں جو آزادی کےلیے قربانیاں دے رہے ہیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں؛ جنہوں نے 70 سال گزرنے کے باوجود بھارت کے آگے سر نہیں جھکایا اور ظلم کے خلاف سینہ سپر ہیں۔
درحقیقت کشمیری 70 سال سے نہیں بلکہ اس سے بھی پہلے 1819ء سے یعنی تقریباً 200 سال سے مظالم کا سامنا کر رہے ہیں، جب راجہ رنجیت سنگھ کی فوجوں نے افغانستان کی درانی سلطنت کو شکست دے کر کشمیر پر قبضہ کیا تھا جس کے نتیجے میں کشمیر پر مسلمانوں کی 400 سالہ حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ پھر 1845 میں انگریزوں اور سکھوں میں معاہدہ ہوا جس کے تحت انگریزوں نے 75 لاکھ روپے کے عوض کشمیر کو ڈوگرہ سکھ حکمراں گلاب سنگھ کو فروخت کردیا۔ پھر تقسیم ہندوستان کے وقت کشمیریوں نے مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کی حیثیت سے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تو انگریزوں اور ہندوؤں میں ملی بھگت کے باعث بھارت نے اس پر قبضہ کرلیا۔
اس سارے عرصے میں کون سا ظلم ہے جو ان کشمیریوں نے نہیں جھیلا۔ ان کے لاکھوں بیٹوں کو شہید کردیا گیا۔ لاکھوں لوگ زخمی ہوئے۔ ہزاروں بہنوں بیٹیوں کی عزتیں لوٹی گئیں۔ ماؤں کی گودیں اجاڑ دی گئیں، جوان لڑکیوں کو بیوہ کردیا گیا، ان کے سہاگ ان سے چھین لیے گئے۔ بے شمار لوگوں کو لاپتا کردیا گیا۔ لیکن تمام قربانیوں اور نقصانات کے باوجود آج بھی کشمیر بھارت کے سامنے سینہ سپر ہے اور ظلم کے آگے جھکنے کو تیار نہیں۔
کشمیری اپنے سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں۔ جسموں پر زخم سجا رہے ہیں۔ لیکن ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ آج بھی ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وہاں شہدا کو پاکستان کے قومی پرچموں میں لپیٹ کر سپرد خاک کیا جاتا ہے۔ میچ سے قبل پاکستان کا قومی ترانا پڑھا جاتا ہے۔ 14 اگست کو یوم آزادی منایا جاتا ہے اور 26 جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ پر یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔ لیکن ہمارا کشمیر کے ساتھ رویہ کتنا اجنبی اور سرد مہری پر مبنی ہے؟۔
عالمی برادری اور اقوام متحدہ اس ظلم کو روکنے میں ناکام ہیں۔ 70 سال اقوام متحدہ نے محض حق خودارادیت کی قراردادیں پاس کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ بلکہ اب تو اس نے کشمیر پر بیانات دینے بھی چھوڑ دیئے ہیں۔ کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ کا کشمیر پر آخری بیان کب سامنے آیا تھا؟ سوچ کر بتائیے، کیا کبھی اقوام متحدہ نے کسی تنازع میں کوئی مؤثر کردار ادا کیا ہو؟ کشمیر، شام، فلسطین، عراق، کسی بھی جگہ کہیں بھی اس کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ تو پھر خالی خولی بیانات کا کیا فائدہ؟ ایسے ادارے کو بند کردینا اور تالا لگادینا چاہیے۔
https://www.youtube.com/watch?v=oeFdF1xw7Kw
میری نظر میں یوم کشمیر کو اس کی روح کے مطابق منانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے ٹھوس اور عملی اقدامات کیے جائیں جن سے بھارت کو نقصان پہنچے۔ اس کی فلموں، اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے؛ اور اسے یہ باور کرایا جائے کہ کشمیری اور پاکستانی یک جان دو قالب ہیں جو ایک دوسرے کےلیے کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے گریز نہیں کریں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس دنیا میں 5 فروری کو یوم کشمیر اگر صحیح معنوں میں کوئی مناتا ہے تو وہ کشمیری ہیں جو آزادی کےلیے قربانیاں دے رہے ہیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں؛ جنہوں نے 70 سال گزرنے کے باوجود بھارت کے آگے سر نہیں جھکایا اور ظلم کے خلاف سینہ سپر ہیں۔
درحقیقت کشمیری 70 سال سے نہیں بلکہ اس سے بھی پہلے 1819ء سے یعنی تقریباً 200 سال سے مظالم کا سامنا کر رہے ہیں، جب راجہ رنجیت سنگھ کی فوجوں نے افغانستان کی درانی سلطنت کو شکست دے کر کشمیر پر قبضہ کیا تھا جس کے نتیجے میں کشمیر پر مسلمانوں کی 400 سالہ حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ پھر 1845 میں انگریزوں اور سکھوں میں معاہدہ ہوا جس کے تحت انگریزوں نے 75 لاکھ روپے کے عوض کشمیر کو ڈوگرہ سکھ حکمراں گلاب سنگھ کو فروخت کردیا۔ پھر تقسیم ہندوستان کے وقت کشمیریوں نے مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کی حیثیت سے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تو انگریزوں اور ہندوؤں میں ملی بھگت کے باعث بھارت نے اس پر قبضہ کرلیا۔
اس سارے عرصے میں کون سا ظلم ہے جو ان کشمیریوں نے نہیں جھیلا۔ ان کے لاکھوں بیٹوں کو شہید کردیا گیا۔ لاکھوں لوگ زخمی ہوئے۔ ہزاروں بہنوں بیٹیوں کی عزتیں لوٹی گئیں۔ ماؤں کی گودیں اجاڑ دی گئیں، جوان لڑکیوں کو بیوہ کردیا گیا، ان کے سہاگ ان سے چھین لیے گئے۔ بے شمار لوگوں کو لاپتا کردیا گیا۔ لیکن تمام قربانیوں اور نقصانات کے باوجود آج بھی کشمیر بھارت کے سامنے سینہ سپر ہے اور ظلم کے آگے جھکنے کو تیار نہیں۔
کشمیری اپنے سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں۔ جسموں پر زخم سجا رہے ہیں۔ لیکن ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ آج بھی ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وہاں شہدا کو پاکستان کے قومی پرچموں میں لپیٹ کر سپرد خاک کیا جاتا ہے۔ میچ سے قبل پاکستان کا قومی ترانا پڑھا جاتا ہے۔ 14 اگست کو یوم آزادی منایا جاتا ہے اور 26 جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ پر یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔ لیکن ہمارا کشمیر کے ساتھ رویہ کتنا اجنبی اور سرد مہری پر مبنی ہے؟۔
عالمی برادری اور اقوام متحدہ اس ظلم کو روکنے میں ناکام ہیں۔ 70 سال اقوام متحدہ نے محض حق خودارادیت کی قراردادیں پاس کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ بلکہ اب تو اس نے کشمیر پر بیانات دینے بھی چھوڑ دیئے ہیں۔ کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ کا کشمیر پر آخری بیان کب سامنے آیا تھا؟ سوچ کر بتائیے، کیا کبھی اقوام متحدہ نے کسی تنازع میں کوئی مؤثر کردار ادا کیا ہو؟ کشمیر، شام، فلسطین، عراق، کسی بھی جگہ کہیں بھی اس کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ تو پھر خالی خولی بیانات کا کیا فائدہ؟ ایسے ادارے کو بند کردینا اور تالا لگادینا چاہیے۔
https://www.youtube.com/watch?v=oeFdF1xw7Kw
میری نظر میں یوم کشمیر کو اس کی روح کے مطابق منانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے ٹھوس اور عملی اقدامات کیے جائیں جن سے بھارت کو نقصان پہنچے۔ اس کی فلموں، اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے؛ اور اسے یہ باور کرایا جائے کہ کشمیری اور پاکستانی یک جان دو قالب ہیں جو ایک دوسرے کےلیے کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے گریز نہیں کریں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔