قرارداد پاکستان کے جذبے کو ازسرنو زندہ کرنے کی ضرورت ہے

’’23 مارچ اور آج کا پاکستان‘‘ کے زیر عنوان ایکسپریس فورم میں شرکاء کا اظہار خیال۔

’’23 مارچ اور آج کا پاکستان‘‘ کے زیر عنوان ایکسپریس فورم میں شرکاء کا اظہار خیال۔ فوٹو : فائل

23 مارچ پاکستان کی سیاسی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس روز مسلمانان ہند نے اپنے لیے الگ وطن کے قیام کو اپنا نصب العین بنایا اور قائد اعظم محمد علی جناح کی پْر خلوص اور ولولہ انگیز قیادت میں ایسی بھرپور جدوجہد کی کہ صرف سات سال کے قلیل عرصہ میں دنیاکے نقشے پر ایک نئی آزاد و خودمختار مملکت وجود میں آگئی۔

اس روز مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے زیر اہتمام لاہور کے منٹو پارک (موجودہ مینار پاکستان ) کے مقام پر تاریخی جلسہ عام منعقد ہوا جس میں ایک الگ وطن کے قیام کے حق میں قرارداد منظور کی گئی جسے قرارداد لاہور کانام دیا گیا اور یہی قرارداد آگے چل کر قرارداد پاکستان کے نام سے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے نشان منزل بنی۔

اس قرارداد کے پس منظر میں وہ کیا خواب ؟ جو مسلمانان ہند نے اپنی آنکھوں میں سجا رکھا تھا اور وہ کیا آدرش، آرزوئیں اور تمنائیں تھیں جو مسلمانوں کے دلوں میں لہو کی مانند موجزن تھیں، جن کو حرز جاں بنا کر اتنی بڑی تعداد میں ہجرت کی گئی اور جان ومال کی اس قدر قربانیاں پیش کی گئیں کہ انسانی تاریخ آج بھی اس کی مثال دینے سے قاصر ہے۔ وطن عزیز آج جن حالات سے دوچار ہے اس بارے جاننے کے لیے اس تاریخی دن پر روزنامہ ''ایکسپریس'' اور ''ایکسپریس نیوز '' نے '' 23 مارچ اور آج کا پاکستان'' کے زیر عنوان ایکسپریس فورم کے پلیٹ فارم سے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اس نشست کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد (وائس چیئرمین نظریہ پاکستان ٹرسٹ )

ہندوستان میں آج کانگریس کی حکومت کے باعث وہاں کے مسلمانوں کی حالت شودر سے بھی نیچے جاچکی ہے۔ یہ بیان انکے اپنے وزیر سلمان خورشید کا ہے کہ وہاں مسلمان اور اسلام دونوں خطرے میں ہیں۔ بھارتی حکومت نے ایک رپورٹ تیار کروائی کہ کیا وجہ ہے مسلمان پہلے کانگریس کو ووٹ دیتے تھے لیکن اب وہ بی جے پی کو ووٹ دینے لگے ہیں، اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ کانگریس نے انکی حالت شودر سے بھی کمتر کردی ہے۔

ہمارے ماضی، حال اور مستقبل کے پیچھے قرارداد پاکستان بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ نئی نسلوں کو اسکی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ انہیں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ذریعے تیزی سے اس بارے میں آگاہی دی جاسکتی ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے اﷲ نے پانچ چھ نعمتیں مسلمانوں کے حوالے کیں۔ مسلمان منظم طریقے سے سامنے آئے اور محض سات سال کی جدوجہد کے بعد اتنا بڑا ملک پاکستان حاصل کرلیا، علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کے ساتھ ساتھ ہمیں خطبہ لاہورکا مطالعہ کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ 1857ء سے1930 تک ہر سطح پر ہم زوال کا شکار تھے۔



انگریزوں کی سیاسی غلامی جبکہ ہندوؤں کی معاشی غلامی میں تھے۔ ہمیں ہمارے حقوق نہیں مل رہے تھے۔ 1930 میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کی ذہن سازی کی کہ انگریز نے تو چلے جانا ہے اس لئے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں مسلمانوں کو اقتدار ملنا چاہیے۔ دس سال اس نظریے کو میچور ہونے میں لگے۔ مسلمانوں نے اس نظریے کو اپنایا تو ہندوستان بھر کے منتشر مسلمانوں میں ایکا پیدا ہوگیا۔ مسلمان منظم طریقے سے سامنے آگئے۔

قائداعظم کا مقصد پاکستان کو خلافت راشدہ کے اندازکی سوسائٹی بنانا تھا۔ روسی سپر پاور ٹوٹتے وقت روسی سفیر پنجاب یونیورسٹی آئے تو مجھ سے مسلم لیگ کے بارے میں کتابوں کا سیٹ لینے کی فرمائش کی اور کہا کہ میں نے دنیا میں ایسی کوئی تحریک نہیں دیکھی جو اتنی جلد کامیابی حاصل کرتے ہوئے اتنا بڑا ملک حاصل کرلے۔ امریکہ ایران میں سیکڑوں کتابیں مختلف پہلوؤں پر لکھی گئی ہیں جبکہ پاکستان میں 12 سے زائد صحیح کتابیں نہیں ملتیں۔ ہم نے تحریک پاکستان کا صحیح طرح سے تجزیہ ہی نہیں کیا۔ ہمیں نوجوان نسل کو تحریک پاکستان کے بارے میں اسکی روح کے مطابق باربار بتانے کی ضرورت ہے۔ 1947ء میں جب ہم آزاد ہوئے تو زیرو تھے۔ صرف ایک یونیورسٹی تھی، آج تعلیمی نظام بڑا بہتر ہوچکا ہے۔ ڈیڑھ سو یونیورسٹیاں ہیں۔

سائنس کی تعلیم ہمارے ہاں اتنی ایڈوانس نہیں لیکن ہم نے ایٹم بم بنالیا۔ یہ ملک قرارداد پاکستان کی وجہ سے بنا۔ آج دنیا میں پاکستان کا بڑا نام اور مقام ہے۔ اس قراد داد کی برکتیں بڑی ہیں۔ پاکستان میں آگے بڑھنے کا زبردست پوٹینشل ہے۔ اگرچہ ملک دو ٹکڑے ہوا اور افغان وار آئی، اسکے باوجود امریکی رسالے ہمیں ''دی موسٹ ڈینجرس کنٹری'' لکھتے ہیں۔ اکانومسٹس کے مطابق وہ پانچ ممالک بڑی ترقی کریں گے جن کے لوگ ذہین ہونگے۔ ذہنی طور پر پاکستان دنیا کا ٹاپ موسٹ ایریا ہے۔ قدرت نے ہمیں بڑے وسائل دیئے ہیں، تیل، گیس اور سونا بلوچستان میں وافر ہے۔ ہر قسم کا موسم یہاں موجود ہیں۔ ہماری اسلامی روایات بڑی قابل فخر ہیں۔ ہماری عبادات میں کردار سازی شامل ہے۔

سرمایہ بھی ہمارے پاس بڑا ہے کیونکہ جو اتنی زیادہ کرپشن ہورہی ہے، یہ سارا پیسہ یہیں پیدا ہورہا ہے۔ ہمارا حکومتی نظام ٹھیک ہونا چاہیے، ووٹ کے ذریعے ہمیں صحیح قیادت کو سامنے لانا چاہیے، تعلیم کو اہمیت دینی چاہیے اور ملک کو کرپشن سے بچانا چاہیے۔ آئین پاکستان بھی ہمارے لئے قرارداد ہے، جسے سامنے رکھ کر ہم تجزیہ کرسکتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت لیڈروں نے صحیح معنوں میں قربانیاں دیں اور لیڈرشپ پیدا کی۔ قائداعظم نے یہ کبھی نہیں کہا تھا کہ میری جیب میں چند کھوٹے سکے ہیں بلکہ یہ بات ان سے غلط منسوب کی گئی ہے۔

ہمیں علم کے معاملے میں نوجوان نسل کو تربیت دینی چاہیے، ہم آج کل پانچ ملکوں کا تعلیمی جائزہ لے رہے ہیں۔ نوجوان تحریک پاکستان پر ریسرچ کریں۔ اچھی حکومت اور اچھا نظام تعلیم لائیں اور کرپشن سے ملک کو بچائیں۔ ہمارے حکمرانوں کو زبان اور ضمیر ایک کرنا ہوگا۔

جسٹس (ر) خلیل الرحمن (سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ)

جب پاکستان بنا اس وقت میں اسکول میں پڑھتا تھا، تحریک پاکستان کو روکنے کیلئے انگریز حکومت نے دفعہ 144نافذ کی تو مسلم لیگی اسے توڑنے کیلئے ٹکڑیوں کی شکل میں نکلتے اور بڑے مجمع کی شکل اختیار کرجاتے، اسی ذریعے سے مجھ تک پاکستان کا پیغام پہنچا۔ بچہ ہونے کے باعث مسلم لیگ خواتین ونگ کی ارکان ممبر شپ کیلئے مجھے اپنے ساتھ لے جاتیں اور کسی نہ کسی مسلمان کے گھر میں ممبر شپ کی جارہی ہوتی، وہاں پر مجھے بتایا جاتا کہ قائداعظم کون ہیں ان کا پیغام کیا ہے، اس وقت ہر مسلمان گھر جس کے دروازے پر چاہے ٹاٹ کا پردہ پڑا ہو، اس میں بھی مسلم لیگ موجود تھی۔



پاکستان بننے کے بعد جب ہجرت کرکے پاکستان کی طرف سفر شروع کیا تو فیروز پور چھاؤنی میں تھا تو وہاں پتہ چلا کہ بہت سی بچیاںجو ہمارے قافلے میں شامل تھیں انہیں سکھوں نے اغوا کرلیا ہے، ہم نے انتہائی دکھ اور رنج کے ساتھ سرحد پار کی۔ ہجرت کے وقت کے مناظر آج تک نہیں بھول سکا اور نہ سکھوں کی آنکھوں میں مسلمانوں کے خلاف نظر آنے والی سرخی کو بھول سکا ہوں۔ وطن عزیز میں پہنچنے کے بعد اس مادر وطن نے ہمیں چھاتی سے لگایا، ایک کمرے کے مکان سے نئی زندگی کا آغاز کیا جہاں کھانا پکانے کیلئے صرف ایک برتن ہوتا تھا اور آٹا گوندھنے کے برتن میں سالن ڈال کر کھانا کھاتے تھے مگر اس کے بعد اسی وطن نے موقع دیا اور چیف جسٹس ہائیکورٹ بنا، پھر سپریم کورٹ اورشریعت بینچ کا جج بھی رہا۔

اگر کوئی پاکستان کو برا کہے تو بہت دکھ ہوتا ہے، ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف وکلاء کی میٹنگ ہورہی تھی جس میں کئی سینیئر وکلاء بھی موجود تھے، اس میں کچھ بھائیوں نے پاکستان کو برا بھلا کہنا شروع کردیا تو مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔ میں نے کہا کہ اگر مارشل لاء آتا ہے تو اس میں پاکستان کا تو کوئی قصور نہیں، قصورہمارا اپنا ہے، جب ہم دوسروں کے حقوق نہیں دیتے تو ایسا ہوتا ہے، میں نے مثال دی کہ اگر ہم سائیکل لیں تو اس کو بھی ہفتے میں ایک بار صاف ضرور کرتے ہیںمگر پاکستان کے لئے ہم نے آج تک کچھ نہیں کیا۔

ہم نے اپنی نسلوں کو بتانا ہے کہ ہم نے پاکستان کیسے اور کیوں حاصل کیا تھا۔ ہندو، مسلمان کو ملیچھ سمجھتا تھا، ہندو بچے تو ہمارے ساتھ کھیلتے تھے مگر ان کا کوئی بڑا اگر مسلمانوں کے محلے سے گزرتا تھا تو اپنے کپڑے سمیٹ کر گزرتا تھا کہ کوئی مسلمان بچہ اس سے چھو کر اس کے کپڑے نہ خراب کردے۔ جج بننے کے بعد مجھے انڈیا جانے کا موقع ملا اور میں نے دو سو کلومیٹر ایک طرف اور دو سو کلومیٹر دوسری طرف سفر کیااور دانشوروں میں بیٹھاتو میں نے محسوس کیا کہ بھارت میں مسلمانوں کے اندر ایک خوف ہے، وہ خوفزدہ زندگی گزاررہے ہیں۔

جب کوئی امن کی آشا کی بات کرتا ہے تو تکلیف ہوتی ہے، یہ حقیقت ہے کہ ہم ہمسائے نہیں بدل سکتے اور ہمیشہ دشمنی بھی نہیں کرسکتے مگر یہ بھی یاد رکھیں کہ بھارت نے عالمی سطح پر آج تک کسی بھی معاملے میں ہمارا ساتھ نہیں دیا بلکہ مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیںجانے دیا۔ ہم نے سندھ طاس معاہدہ کے ذریعے اپنا پانی بیچ دیا، جب معاہدہ ہوا تو کہا جاتا تھا کہ تین دریا ہمیں ملے ہیں مگر اب حقیقت کھلی ہے کہ یہ سب جھوٹ تھا، بلکہ معاہدہ یہ ہے کہ جو پہلے پانی روک لے پانی اس کا ہوجائے گا۔

پچھلے دنوں ایک دانشور کا بیان پڑھا کہ بھارت کے ساتھ سب مسائل پاکستان کیلئے نہیں بلکہ پاکستان کی وجہ سے ہیں، یہ نہ ہوتا تو مسائل بھی نہ ہوتے۔ ان کو ایسی بات کرنے سے پہلے شرم آنی چاہیئے، ایسے بے شرم لوگوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ انہیں یہ عزت پاکستان نے دی ہے۔ بھارت کے مسلمانوں کا حال وہ وہاں جاکر دیکھ لیں۔ اس وقت نظریہ پاکستان بچانے کی ضرورت ہے، ہمیں اگلی نسل کو بتانا ہوگا کہ پاکستان کیسے اور کس لئے بنا اورہمارے بزرگوں نے اس کیلئے کیا قربانیاں دیں؟ ہمیں ووٹ دیتے وقت بھی اس چیز کا خیال رکھنا چاہیئے کہ ایماندار اور مخلص امیدواروں کو ووٹ دیں۔

بریگیڈیئر (ر) محمد اسلم گھمن (دفاعی تجزیہ نگار)

کچھ عرصہ پہلے تک پرائمری کے سلیبس میں پڑھایا جاتا تھا کہ پاکستان کیسے بنا اور اس کیلئے کیا کیا تکلیفیں اٹھائی گئیں مگر اب یہ چیزیں سلیبس سے نکال دی گئی ہیں۔ یوم پاکستان تجدید عہد کا دن ہے کہ ہمارے بزرگوں نے وطن کے حصول کیلئے کتنی قربانیاں دی تھیں، ہندو نے کبھی مسلمانوں کو قبول نہیں کیا، ان کے دل بڑے چھوٹے ہوتے ہیں۔

قائداعظم پہلے کانگریس میں تھے مگر جب انہوں نے اس چیز کو محسوس کیا اور انہیں پتہ چل گیا کہ ہندو کبھی مسلمانوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں تو انہوں نے کانگریس سے علیٰحدگی اختیار کرلی اور مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ قائداعظم نے انتھک محنت کی اور ہمارے لئے ایک وطن حاصل کرکے ہمیں عزت دی۔

ہماری بدقسمتی رہی کہ ہمیں آزادی تو مل گئی مگر ہم اسے برقرار رکھنا اور بڑھانا تو دور کی بات، ہم اپنا وطن پیچھے کی طرف لے گئے، اﷲ تعالیٰ نے ہمیں ایک تحفہ دیا اور اس میں ہر میدان کے ماہر، ہنرمند، ڈاکٹر، انجنئیر اور سائنس دان موجود ہیں، یہ سب ٹاٹ سکولوں میں تعلم حاصل کرکے بنے اور دنیا بھر کے ممالک میں خدمات انجام دے رہے ہیں، مگر ہم نے ان سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ان کی حوصلہ شکنی کی۔

ہم قائداعظم کے وژن سے ہٹ گئے ہیں، قائد سے جب کسی نے پوچھا تھا کہ اس ملک کا آئین کیا ہوگا تو انہوں نے کہا تھاکہ آئین تو چودہ سو سال پہلے ہمیں مل چکا، اس ملک کا قانون قرآن ہوگا، یہ ملک ایک نظریے کے تحت بنا تھاکیونکہ ہندو اکثریت ہمیں اقلیت سمجھتی تھی، مسلمانوں کو نوکریوں اور تعلیم سے محروم رکھا گیا تھا اور مسلمانوں پر ترقی کے راستے بند تھے، یہی محسوس کرکے قائداعظم نے پاکستان بنانے کیلئے جدوجہد کی مگر یہ ہندو کی چھوٹی سوچ ہے کہ اس نے آج تک ہمیں قبول نہیں کیا۔ دوسرا انگریز کشمیر کو دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ بنا کر چھوڑ گیا۔




میں ملک کے حساس اداروں میں رہا ہوں، اس لئے جانتا ہوں کہ کس کس طرح پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ جب روس افغانستان میں آیا تو پاکستان کے حساس اداروں نے اسے وہاں سے نکالنے کیلئے قدم بڑھائے کیونکہ روس کی نظریں پاکستان کے گرم پانیوں پر تھیں، امریکہ اپنی ویت نام کی شکست کا بدلہ لینے کیلئے ہمارے ساتھ آیا اور جب روس ٹوٹ گیا تو امریکہ واحد سپر پاور بن گیا تو اس کے حساس اداروں نے رپورٹس دیں کہ پاکستانی فوج اور عوام بہت بہادر ہیں ان کے پاس ایٹم بم بھی ہے، یہ ہمارے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے، اسے جنگوں کے ذریعے کمزور نہیںکیا جاسکتا، اس لئے اسے غیر مستحکم ملک بنایا جائے۔

اس مقصد کیلئے اسرائیل اور بھارت کاگٹھ جوڑ کرایا گیا، بھارت پاکستان کے دریاؤں پر ڈیم بناکر کمزور کرنے کی کوشش کررہا ہے اور ہمارے حکمران چند روپوں کی خاطر اپنی دھرتی ماں کو بیچ رہے ہیں۔ یہ بے غیرتی کی انتہا ہے حکمران ذاتی مفاد کی خاطر ملک کو بیچ رہے ہیں۔ حکمرانوں کے اقتدار کی ہوس نے ملک آگے نہیں بڑھنے دیا، ہمارے حکمرانوں کی جائیدادیں باہر ہیں، ان کی اولاد باہر پڑھتی ہے اور ان کے سر میں بھی درد ہوتو علاج کرانے باہر جاتے ہیں، ایسے حکمران ملک کے لیے مخلص کیسے ہوسکتے ہیں۔

ہمارے حکمرانوں کو اپنے دشمن بھارت سے ہی سبق سیکھنا چاہیئے جس کے وزیراعظم منموہن سنگھ کابائی پاس آپریشن بھارت کے سرکاری ہسپتال میں ہوا۔ قائداعظم جو اپنے وقت کے مہنگے ترین وکیل تھے، انہوںنے اپنے تمام اثاثے ملک کے نام کردیئے تھے اور اپنا علاج بیرون ملک کرانے سے انکار کردیا تھا، قائداعظم نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ کرپشن ملک کیلئے زہر قاتل ہے۔ میری حکمرانوں سے اپیل ہے کہ خدارا قائد کی پیروی کرتے ہوئے ملک کو آگے لے جائیں۔

خان سلطان محمود خان (سینئر نائب صدر مسلم لیگ فنکنشنل )

ہمیں ان وجوہات کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ 23مارچ1940ء کو قرارداد مقاصد کیوں پیش کرنا پڑی؟ اور قیام پاکستان کا مطالبہ کیوں کرنا پڑا؟ اصل میں ہندوؤں نے مسلمانوں سے خودکو پاک کرنے اور انہیں ہندو بنانے کی تحریکیں شروع کررکھی تھیں اور ان کی کوشش تھی کہ انہیں ویش اور شودر بنادیا جائے، انکا مقابلہ ہمارے اکابرین نے کیا۔

ہم غلطی سے بھی ہندوؤں کے باورچی خانے میں چلے جاتے تو وہ اسے پاک کرنے کیلئے گائے کے پیشاب اور گوبر سے دھوتے۔ ہندوستان کے سب سے بڑے فلاسفر چانکیہ جبکہ انکے فوجی رہنما سیواجی ہیں۔ چانکیہ کا اصول یہ ہے کہ غیر ہندو کے لہوکی قربانی کالی ماتا کے چرنوں پر دینا کا سب سے بڑا ثواب ہے جبکہ اسکا سیاسی نظریہ یہ ہے کہ ہمسائے سے اتنا برا سلوک کرو کہ وہ چیخ اٹھے، ہمسائے کے ہمسائے کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کروکہ اگر ہمسایہ برے سلوک کا ذکر کرے تو وہ اسکا یقین نہ کرے۔ ریلوے سٹیشنوں پر ہندو پانی اور مسلم پانی کے الگ الگ مٹکے پڑے ہوتے تھے۔



کسی ایک غلام کو آزاد کرانے والے کو جنت کی بشارت دی گئی ہے، قائداعظم نے توسات آٹھ کروڑ انسانوں کو غلامی سے آزاد کروایا تھا۔ اپنی کمائی مدارس کو دے دی ۔ ان کا مرض لاعلاج نہیں تھا، وہ بھی لندن جاکر علاج کرواسکتے تھے لیکن انہوں نے قوم کا پیسہ خرچ کرنے سے انکار کردیا اور ملک کیلئے جان تک قربان کردی، آج ہم پاکستان میں فخر سے چلتے ہیں اور ہماری حالت پہلے سے بہت بہتر ہوئی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے ایک دو مسلمان وکیل بارکے عہدیدار تھے۔ تحریک پاکستان کے دوران ہمارا نعرہ ہوتا تھا '' مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ، خود لیگی بن اوروں کو بھی بنا۔''

میں لاشوں سے گزر کر پاکستان پہنچا ہوں۔ میں نے بوڑھوں کوکراہتے ہوئے، بچوں کو چھتوں سے گراتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے طے ہوا کہ اکثریت کی مرضی کے بغیر کوئی قانون نہیں بنے گا، جس سے ہندو بھاگ گئے۔ اس کے بعد مسلمانوں نے علیحدگی کی طرف سوچنا شروع کردیا۔ ولی خان نے جو کچھ قائداعظم کے خلاف لکھا وہ سو فیصد جھوٹ تھا۔ 23مارچ 1940ء کو مسلمانوں کیلئے ایک راستہ دکھایا گیا تھا کہ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو ہندوؤں سے الگ ہوکر ملک بنانا پڑے گا۔

غلام محی الدین دیوان (مشیر وزیراعظم آزادکشمیر)

ترقی کے جتنے مواقع پاکستان میں ہیں دنیا میں شائد ہی کہیں ہوں۔ صرف ایک ٹریکٹر بنانے کی بدولت ہم نے بڑی ترقی کی اور ہزارہا لوگ اس سے وابستہ ہوئے لیکن آج تک ہماری حکومتوں نے جاپان، جرمنی اور دیگر ملکوں سے کمشن کی خاطر 800سی سی اور 1300سی سی گاڑیاں مقامی طور پر بنانے کے لائسنس نہیں دیئے۔

ہمیں جس چیز کی ضرورت نہیں وہ ہم باہر سے منگوارہے ہیں۔ ایران کے ساتھ گیس معاہدہ کرنے پر ایک سیاسی پارٹی آج کہہ رہی ہے کہ ہمیں اس پر تحفظات ہیں۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے، امریکہ ، اسرائیل اور بھارت ہمارے درپے ہیں، لہذا ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ میرے والد 1951ء میں کشمیر سے لاہور آئے اور اکبری منڈی میں محنت مزدوری کرتے رہے۔ ایران سے گیس کا معاہدہ تو ہوگیا لیکن اس سے بھی ہمارے پاس گیس کی فراوانی نہیں ہوگی بلکہ تاجکستان والی گیس زیادہ یہاں آئے گی۔گوادر پورٹ چین کو دینے سے دنیا میں پاکستان ترقی کا سبب بنے گا۔



ہمارے تمام قرضے اترسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس ملک کا کسی نے ساتھ نہیں دیا۔ سرکاری سکولوں کی تعلیم پر ہمیں یقین نہیں۔ پہلے پرائیویٹ سکول میں داخلہ وہ لیتے تھے جنہیں سرکاری میں نہیں ملتا تھا لیکن اب ہم 300روپے فیس والے سکول میں بھی بچوں کو اس لیے داخل کراتے ہیں کہ ہمیں اس کا فیڈ بیک تو ملے گا۔

سندھ والوں سے پوچھو کہ کالاباغ ڈیم بنانے سے انہیں کیا نقصان ہے اور کونسی چیز انہیں روکتی ہے۔ کوئلے سے بھی ہم بجلی بناسکتے ہیں۔ نیلم جہلم ڈیم کی طرف آج دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ وہاں اتنا تھوڑا پانی آتا ہے جیسے گندا نالا ہو۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے۔ واجپائی کانگریس کی موجودہ حکومت سے پاکستان کیلئے بہتر تھا۔ ہم ایک نگران وزیراعظم کا فیصلہ بھی نہیں کرسکتے، دیکھ لیں ہماری حالت کیا ہے۔ میں پارٹی کی طرف سے ٹکٹ لینے سے انکاری ہوں۔

اعجاز احمد چوہدری (صدر تحریک انصاف پنجاب)

قائداعظم نے مسلمانوں کیلئے آزاد وطن حاصل کیا تاکہ اسے مسلمانوں کے لیے تجربہ گاہ بنایا جاسکے جہاں وہ اسلام کو عملی شکل میں لاگو کرسکیں، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قائداعظم کی رحلت کے بعد یہ ملک مفاد پرستوں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ کئی سال تک ملک آئین کے بغیر رہا، چار دفعہ مارشل لاء لگایا گیا۔ وطن عزیز کو ایک قانون دان نے آئینی اور سیاسی جدوجہد کے بعد حاصل کیا تھا مگر اس کے بعد مخالف لوگوں کے قبضے میں چلا گیا، ایک ملک جو دنیامیں ایک نظریے کی بنیاد پر بنا تھا اور وہ مسلمان جن کو پتہ تھا کہ وہ پاکستان میں شامل نہیں ہوں گے۔

انہوں نے بھی اس کے حق میں ووٹ دیا اور اس کیلئے جان و مال کی قربانیاں دیں، پاکستان بننے کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت صرف ایک نظریئے کی خاطر کی گئی۔ اس ہجرت کے دوران 1 ملین لوگوں نے شہادت پائی، میرا تعلق بھی ایسے خاندان سے ہے جس کے لوگوں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ سیاستدانوں کی غلطیوں کی وجہ سے پاکستان بننے کے صرف 23 سال بعد آدھا ملک علیٰحدہ ہوگیا، وجہ یہی تھی کہ انتخابات ہوئے تو ایک صوبے نے اکثریت حاصل کی تو پرامن انتقال اقتدار نہ ہوا اور حالات خراب ہوگئے جوکہ علیٰحدگی کا باعث بنے۔



انسان کی ترجیحات میں روٹی کپڑا اور مکان نہیں بلکہ روٹی کے بعد تعلیم دوسری ترجیح ہے، مگر ہم نے تعلیم کو سب سے آخر میں رکھا، یہاں جمہوریت کے نام پر بھی خاندانی اجارہ داری ہے۔ سیاست باپ، بیٹا، بیٹی اور بہو میں رہی، کوئی سیاسی ورکر آگے نہ آسکا، ایک ورکرغلام حیدر وائیں آگے آئے مگر ان کو بھی احکامات لیڈ پنسل سے لکھ کر دیئے جاتے تھے اور ان پر عملدرآمد کرایا جاتا تھا۔ کرپشن کی انتہا ہے، یہاں سیاست نہیں بادشاہت ہے۔ یہ ملک عوام کیلئے بنا تھا مگر اشرافیہ نے اس پر قبضہ کرلیا۔ ہمارے پاس دنیا بھر میں سب سے زیادہ وسائل موجود ہیں۔ دیگر وسائل کو چھوڑ دیں، صرف نوجوان ہی 70فیصد ہیں جن کو استعمال کیا جائے تو انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ اس کیلئے ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو کرپشن نہ کرتا ہو، صرف وہی لیڈر نصاب تعلیم ایک جیسا کرکے عوام کو ترقی دے سکتا ہے۔

عبدالباسط (سینئر نائب صدر لاہور چیمبر آف کامرس)

قیام پاکستان کے جو مقاصد تھے ہم ان کو حاصل کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوئے؟ ملک میں کافی پوٹینشل موجود ہے لیکن بجلی جو ہماری ضرورت ہے، وہ ملک میں موجود نہیں۔ ایک روپے چھ پیسے میں یونٹ بناسکتے ہیں، لیکن ہم ایسا کرنے کو تیار نہیں۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کونسی قوتیں ہیں جو ملک کو اس نہج پر لے جا رہی ہیں۔ ہمیں انکا محاسبہ کرنا ہوگا۔



ملک میں پانی، بجلی ہوگی تو زراعت اور صنعت ترقی کرے گی۔ سندھی بھائیوں کو پیغام ہے کہ ہوش کے ناخن لیں، جہاں زیر زمین پانی بھی قابل کاشت نہیں، ان کی بقا صرف دریائی پانی پر ہے، وہ ڈیم بننے نہیں دے رہے جبکہ بھارت ڈیم پر ڈیم بناکر ہمارے پانی کو روک رہا ہے، جس کے نتیجے میں ہماری زمینیں بنجر ہوجائیں گی اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا منصوبہ کامیاب ہوجائے گا۔ اس ملک میں بجلی پانی دے دیں کیونکہ ہماری بقا صرف زراعت میں ہے اور زراعت تبھی بہتر ہوگی جب پانی ہوگا۔

پاکستان کی بڑی انڈسٹری جو کہ 70 فیصد ہے وہ ایگروبیسڈ ہے ۔ اگر ہم اپنے ذرائع پر توجہ دیں تو دنیا کی غذائی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔ ملک میں تعلیم کو ایک سازش کے تحت تباہ کیا گیا۔ ہماری ایکسپورٹ25 ارب ڈالر پر رکی ہوئی ہے، اگر آج بجلی سستی کردیں تو ایکسپورٹ 200ارب سے زائد ہوسکتی ہے۔ آج لوگ دوسرے ملکوں کو بھاگ رہے ہیں، سرمایہ دوسرے ملکوں کو لے جاتے دیکھ کر خون جلتا ہے۔ یہاں واقعی پوٹینشل ہے کہ خاکروب کا بیٹا جج بن سکتا ہے مگر ضرورت اسے مناسب انداز میں استعمال کرنے کی ہے جس کیلئے مخلص قیادت کی چاہئے۔
Load Next Story