اب کلام چَھپوانے کی خواہش نہیں ہوتی

دوسری زندگی ملی، تو شاعر اور افسانہ نگار کے بجائے ناول نگار بننا پسند کروں گا، حبیب احسن


Ashraf Memon/iqbal Khursheed March 28, 2013
ادبی جریدہ نکالنا بڑی حد تک گھاٹے کا سودا ہے، نہ تو اشتہارات ملتے ہیں، نہ ہی خریدار، سہ ماہی خیال کے مدیر اعلیٰ، حبیب احسن کی کہانی۔ فوٹو : فائل

حیران کن حد تک خاموش طبع ہیں وہ۔

اگر آپ سوال کرنے کی ٹھان چکے ہیں، تو انتظار کے لیے بھی تیار رہیے کہ جواب دینے سے قبل خاصا توقف کرتے ہیں۔ کبھی کبھار تو وقفے کی طوالت کے باعث محسوس ہوتا ہے کہ سوال کہیں فضا میں گم ہوگیا ہے، اُن تک پہنچا ہی نہیں، مگر حقیقتاً ایسا نہیں کہ اُن کی سماعت غصب کی ہے۔

یہ سینئر شاعر اور سہ ماہی خیال، کراچی کے مدیراعلیٰ، حبیب احسن کا ذکر ہے۔ اوائل عمری ہی سے کم گو ہیں۔ یہ عادت وقت کے ساتھ اتنی پختہ ہوگئی کہ زمانے کی رفتار، بدلتے رجحانات، ادبی سرگرمیاں، شور ہنگامے کوئی اِس میں دراڑ نہیں ڈال سکا۔ دوست احباب تو اِس عادت کے عادی ہوگئے ہیں۔ مشاعروں اور ادبی مجالس میں بھی کم ہی گفت گو کرتے ہیں۔ اگر کوئی پوچھتا ہے کہ جناب، آپ اتنے خاموش کیوں ہیں، کچھ بولتے کیوں نہیں؟ تو یہی جواب دیتے ہیں: ''میں یہاں سننے کے لیے آیا ہوں!''

شاعری کے ساتھ ایک حوالہ ادارت بھی ہے۔ سہ ماہی ''خیال'' کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ یہ پرچہ اب سے دس برس قبل، چند دوستوں کے ساتھ شروع کیا۔ مرکزی حیثیت اُنھیں ہی حاصل رہی۔ ابتدا میں اِس کے مدیر تھے۔ بعد میں پرچے کی ذمے داری، شاعر اور نقاد، ڈاکٹر جمال نقوی کو سونپ دی کہ اب بڑھتی عمر اور گرتی صحت کے باعث اُن کے لیے بھاگ دوڑ ممکن نہیں۔

فروغ ادب کے لیے اِس پرچے نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ''خیال'' کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک سہ ماہی یہ پرچہ تخلیق کاروں کی نگارشات پر مشتمل ہوتا ہے، اور اگلے سہ ماہی کسی ادیب یا شاعر کا نمبر شایع کیا جاتا ہے۔ اِس سلسلے کا باقاعدہ آغاز صبا اکرام نمبر سے ہوا۔ بعد میں فیض احمد فیض، محمد علی صدیقی، ڈاکٹر جمال نقوی اور مظہر امام سمیت دیگر ادبی شخصیات کے نمبر نکالے۔ اِس فیصلے کا مقصد، اُن کے بہ قول، پرچے کو اردو ادب کے قارئین میں متعارف کروانا تھا۔ پرچے کے اُن کے بہ قول، 35 شمارے آچکے ہیں۔

سید حبیب احسن 17 اپریل 1944 کو سمستی پور، بہار میں محمد احسن کے گھر پیدا ہوئے، جو وکالت کے پیشے سے منسلک تھے۔ والد کے مزاج میں شفقت کا عنصر نمایاں تھا۔ دو بہن، چار بھائیوں میں نمبر تیسرا ہے۔ کھیلوں سے کم ہی واسطہ رہا۔ زیادہ وقت مطالعے میں صَرف ہوتا۔ ان کے آبائی شہر میں ہندو اور مسلمان دونوں ہی آباد تھے۔ پیشے کے اعتبار سے بھی شہر کو دو ٹکڑوں میں بانٹا جاسکتا تھا، آدھی آبادی ملازمت پیشہ اور آدھی تجارت پیشہ۔ بٹوارے کے سمے اُن کا شہر فسادات سے محفوظ رہا۔ شاید اِسی باعث ہجرت کا خیال والد کے ذہن میں نہیں پنپا۔ وہاں رہتے ہوئے کبھی تعصب کا احساس بھی نہیں ہوا۔

سولہ برس کی عمر میں ایک نجی اسکول سے آرٹس سے میٹرک کیا۔ سمستی پور کالج سے اُنھوں نے گریجویشن کی سند حاصل کی۔ اِسی عرصے میں والدین سے جدائی کا کرب سہنا پڑا۔ 69ء میں اپنے ایک عزیز کے ساتھ، اِس ارادے سے کہ جلد ہندوستان لوٹ جائیں گے، مشرقی پاکستان آگئے۔ دیناج میں چچا مقیم تھے، اُن کے ہاں ٹھہرے۔ اتفاق سے جس عزیز کے ساتھ مشرقی پاکستان کا رخ کیا تھا، وہ اُنھیں مطلع کیے بغیر ہندوستان چلے گئے۔ اکیلے جاتے ہوئے گھبراتے تھے، پھر چچا نے بھی مشرقی پاکستان میں رہنے کا مشورہ دیا۔ سو وہیں ٹھہر گئے۔ جُوں جُوں وقت گزرتا گیا، حالات کشیدہ ہوتے گئے، جس کے پیش نظر 71ء میں وہ کراچی آگئے۔ یہاں ابتداً رشتے داروں کے ہاں قیام کیا۔ یافت کے ذرایع ڈھونڈتے ہوئے جنرل پوسٹ آفس پہنچ گئے۔ کچھ عرصے وہاں ملازم رہے۔ جی نہیں لگا، تو ملازمت چھوڑ کر نئے امکانات کی تلاش میں نکل پڑے۔ چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں۔ پھر ٹیوشنز پڑھانے لگے۔ اِس عرصے میں کاروبار کا بھی تجربہ کیا، مگر اِس میدان میں کام یابی نہیں ہوئی۔ تدریس ہی کا شعبہ راس آیا۔ پیشہ ورانہ سفر کے بڑے حصے میں بہ طور مدرس مصروف رہے۔ معاشی مسائل سے بھی الجھتے رہے۔

ادبی سفر موضوع بنا، تو اُن کی بڑی بہن، نوشابہ ناز کا ذکر نکل آیا، جنھوں نے بہ طور ناول نگار پہچان بنائی۔ اُن کے زیرسایہ ادبی ذوق پروان چڑھا۔ پریم چند، کرشن چندر اور عصمت چغتائی کے فن نے متاثر کیا۔ مطالعے نے لکھنے کی جوت جگائی۔ صنف افسانہ نگاری کا انتخاب کیا۔ ادبی حلقوں میں اٹھنے بیٹھنے لگے۔ سمستی پور کے معروف شاعر، رضا اشک اُن کے دوست تھے۔ اُن کے ساتھ خاصی بیٹھک رہی۔ اُس عرصے میں نگارشات ادبی رسائل کا بھی حصہ بنیں۔ پاکستان آنے کے بعد بھی افسانہ نگاری کا سلسلہ جاری رہا۔ 75-76 میں شعری سفر کا آغاز ہوا۔ بتاتے ہیں، اُن کے کزن، اسلم فریدی بہت اچھے شاعر تھے، بس اُن ہی کی صحبت میں شعر کہنے کا خیال چرایا۔ گو اُس وقت نثری نظم کا غلغلہ تھا، مگر اُنھوں نے انتخاب غزل کی صنف کا کیا کہ یہ مزاج کے قریب تھی۔ شاعری کے میدان میں قدم رکھنے کے بعد نہ تو کسی کو استاد کیا، نہ ہی کسی سے اصلاح لی۔

ادبی سفر جاری رہا۔ مشاعروں میں آنا جانا رہا۔ افسانہ نگاری گھٹتے گھٹتے ختم ہی ہوگئی۔ بعد میں فکشن لکھنے کی کوشش تو کی، مگر وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔

ایک طویل عرصے تک مشاعروں میں آنا جانا رہا، مگر دھیرے دھیرے یہ سلسلہ سُکڑتا گیا۔ لگ بھگ آٹھ برس قبل اُن کا اکلوتا مجموعہ ''فشارِ درد'' شایع ہوا، جس میں دیگر افراد کے علاوہ شاعر اور نقاد، شفیق احمد شفیق کا مضمون بھی شامل تھا۔ ادبی حلقوں کی جانب سے اِس کاوش کو سراہا گیا۔ اُن کے لیے وہ ایک خوش گوار احساس تھا۔ مجموعے کی اشاعت میں تاخیر کا سبب سرمایے کی کمی تھی۔ اِسی وجہ سے دوسرے مجموعے کی اشاعت کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔

سہ ماہی ''خیال'' کے آغاز کے پیچھے کیا خیال تھا؟ اِس ضمن میں کہتے ہیں، ''مقصد یہی تھا کہ پاکستان میں اردو کی ترقی کے لیے کام کیا جائے۔ اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے اور زندہ رکھنے کے لیے جراید اور اخبارات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِسی لیے 'خیال' شروع کیا۔'' اُن کے نزدیک یہ پرچہ، بڑی حد تک، اپنے مقاصد کے حصول میں کام یاب رہا۔

''خیال'' کا مستقبل موضوع بنا۔ تو کہنے لگے،''میری صحت ٹھیک نہیں رہتی۔ پرچہ جمال نقوی کے حوالے کر رکھا ہے۔ وہ اچھے طریقے سے چلا رہے ہیں۔ اگر یہ نہیں چل سکا، تو بند کر دیں گے۔''

موجودہ دور میں ادبی جریدہ نکالنا کیا گھاٹے کا سودا ہے؟ یہ سوال اُن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے۔ کہنا ہے،''بڑی حد تک کہ نہ تو اشتہارات ملتے ہیں، نہ ہی خریدار۔ اور پھر خریدار بہت کم ہیں، مفت لینے والے زیادہ۔''

موجودہ مصروفیات کی بابت کہتے ہیں کہ اب زیادہ وقت گھر پر گزرتا ہے۔ ''مشاعروں میں نہیں جاتا۔ اب کلام چَھپوانے کی خواہش نہیں ہوتی۔ کہیں بھیجتا بھی نہیں ہوں۔ اگر پیسے ہوئے، تو شاید دوسرا مجموعہ آجائے۔''

اردو کے مستقبل کے تعلق سے کہتے ہیں،''اخبارات اور رسائل چھپ رہے ہیں۔ کراچی کے علاوہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، ادب تخلیق ہورہا ہے، اس نقطۂ نگاہ سے مستقبل موجود ہے۔'' شاعری کی بابت کہنا ہے، اب غالب اور فیض تو نہیں رہے، مگر شاعری ہورہی ہے، افتخار عارف اور دیگر شعرا اِس میدان میں سرگرم ہیں۔ افسانہ نگاری کے تعلق سے کہتے ہیں، پریم چند اور کرشن چندر جیسے افسانہ نگار تو نظر نہیں آرہے، مگر لوگ افسانے لکھ رہے ہیں۔

کیا غزل، نظم کے مانند، عالم گیر مسائل کا احاطہ کر سکتی ہے؟ اِس ضمن میں کہتے ہیں،''کر سکتی ہے، مگر جدید غزل۔ روایتی انداز کی غزل میں اِس کا امکان نہیں۔'' غزل کی صنف، اُن کے بہ قول، باقی رہے گی۔ پابند نظم کے وہ قائل ہیں، مگر نثری نظم، نثری غزل کے قائل نہیں۔

ماضی میں پتلون پہنا کرتے تھے، مگر اب شلوار قمیص میں خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ سادہ خوراک لیتے ہیں۔ شعرا میں سہیل غازی پوری کو سراہتے ہیں۔ ہم عصروں میں اسلم فریدی کا نام لیتے ہیں، مگر افسانہ نگاروں میں کسی کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتے۔ یہی معاملہ ناول نگاروں کا ہے۔ 72ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے تین بیٹوں، تین بیٹیوں سے نوازا۔ سب کی شادی ہوچکی ہے۔ خیر سے اب دادا نانا ہیں۔

زندگی سے مطمئن ہیں۔ دوسری زندگی کے قائل تو نہیں، لیکن اگر ایسا کوئی موقع آیا، تو شاعر اور افسانہ نگار بننے کے بجائے ناول نگار بننا پسند کریں گے کہ ناول لکھنے کے خواہش مند ہیں۔ پلاٹ ذہن میں ہے، مگر اِس پر فی الحال کام شروع نہیں کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں