کراچی میں لوڈ شیڈنگ کیوں
2008 میں قائم ہونے والی پیپلزپارٹی کی حکومت نے ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھانے پر بالکل توجہ نہیں دی۔
حکومتی دعوؤں کے مطابق ملک بھر میں گزشتہ سال نومبر میں لوڈ شیڈنگ ختم کردی گئی ہے اور حکومتی دعوے کو دو ماہ گزرچکے ہیں مگر شاید ملک کا سب سے بڑا شہر اور ملک کو چلانے والا معاشی حب جو سندھ کا دارالحکومت ہونے کے ساتھ شہر قائد بھی کہلاتا ہے۔ پاکستان کا حصہ نہیں ہے اور اسی لیے کراچی میں موسم گرما جیسی لوڈ شیڈنگ موسم سرما میں بھی جاری ہے اور لوڈ شیڈنگ ختم ہونا تو درکنار کم بھی نہیں ہوئی ۔ بجلی اب صنعتی اور تجارتی ہی نہیں بلکہ اب ہر شخص کی ضرورت بن کر رہ گئی ہے، جس کے بغیر معمولات زندگی درہم برہم ہوکر رہ جاتے ہیں۔
کراچی کی صنعتوں نے شدید ترین لوڈ شیڈنگ کے دنوں میں اپنی ضرورت کے مطابق جنریٹر لگالیے تھے اور سرکاری و نجی اداروں، بینکوں، بڑی مارکیٹوں حتیٰ کہ بڑی مساجد میں بھی جنریٹر لگوالیے گئے تھے جب کہ امیروں اور متوسط طبقے کے لیے بھی نے اپنی ضرورت کے مطابق جنریٹروں کے ذریعے متبادل بجلی حاصل کی جانے لگی تھی۔ دکانوں میں بھی چھوٹے پٹرول جنریٹروں اور یو پی ایس کے ذریعے بجلی حاصل کرنا مجبوری بن گیا تھا اور گھروں میں موجود سوئی گیس کے باعث لوگوں نے گھروں میں گیس جنریٹروں کے ذریعے اپنی بجلی کی ضرورت پوری کرنے کا طریقہ اپنایا تھا۔
گیس جنریٹر پٹرول و ڈیزل جنریٹروں کے مقابلے میں سستے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے سوئی گیس کی طلب بڑھ گئی اور پٹرول اور ڈیزل جنریٹروں کی وجہ سے حکومت کی نا جائز ذریعہ آمدنی میں بھی بے حد اضافہ ہوا کیونکہ پٹرولیم کی مصنوعات مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہیں جو ان کے ہر ماہ نرخ مقررکرتی ہے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور برائے نام کمی پاکستان کی ہر حکومت کی پالیسی رہی ہے۔
دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوں تو بھی حکومت قیمتیں کم نہیں کرتی اور مہینہ بھر اپنے شہریوں کو لوٹنے کے بعد اپوزیشن کے مطالبے پر معمولی کمی نئے مہینے سے کی جاتی ہے اور اگر عالمی سطح پر پٹرولیم قیمتیں بڑھیں تو مہینہ مکمل ہونے کی رعایت عوام کو نہیں دی جاتی بلکہ فوراً قیمتیں بڑھادی جاتی ہیں۔
لوڈ شیڈنگ سے جہاں حکومت کی پٹرولیم آمدنی میں اضافہ ہوا وہیں جنریٹر اور یو پی ایس بنانے والوں کی قسمت چمک اٹھی تھی اور بنانے والوں کے علاوہ جنریٹر اور یو پی ایس مرمت کرنے والوں کے بھی وارے نیارے ہوئے اور حکومت کی طرح انھوں نے بھی عوام کی مجبوری سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور لوڈ شیڈنگ میں جنریٹر، یو پی ایس بنانے اور ان کی مرمت کرنے والوں کی قسمت بدل گئی اور اپنی کمائی میں بے پناہ اضافے سے ان کے دلوں سے دعا نکلتی تھی کہ ملک سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کبھی ختم نہ ہو۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ 2008 میں قائم ہونے والی پیپلزپارٹی کی حکومت نے ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھانے پر بالکل توجہ نہیں دی اور 2013 کے عام انتخابات میں اس کی سزا بھگتی اور مسلم لیگ ن نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کو اپنا انتخابی منشور بناکر ہی کامیابی حاصل کی تھی اور اس نے بجلی کی پیداوار بڑھانے پر توجہ بھی دی مگر ن لیگی رہنماؤں کے دعوے کے مطابق تو نہیں مگر گزشتہ سال نومبر میں ن لیگ کی حکومت لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم کرنے میں تو نہیں مگر کافی حد تک ختم کرنے میں ضرور کامیاب رہی ہے اور ملک بھر میں اب بھی بجلی کی پیداوار بڑھائی جارہی ہے اور کوئلے سے بھی بجلی پیدا کی جارہی ہے۔
ملک بھر میں سردی کی وجہ سے بجلی کی کھپت کم اور سوئی گیس کی کھپت بڑھ جاتی ہے۔ لوڈ شیڈنگ ختم کیے جانے کے بعد بھی ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی اب بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہے اور کے الیکٹرک نے لوڈ شیڈنگ میں کمی بھی نہیں کی۔
کے الیکٹرک کو وفاقی حکومت 650 میگا واٹ بجلی فراہم کرتی ہے جس کی فراہمی کا معاہدہ اگرچہ ڈیڑھ سال قبل ختم ہوگیا تھا جس کے بعد حکومت اور کے الیکٹرک کے درمیان نیا معاہدہ ہوا نہ کے الیکٹرک نے بجلی کی پیداوار پر توجہ دی۔ کے الیکٹرک نے معاہدے کے مطابق خود بجلی کی پیداوار بڑھانے پر توجہ نہیں دی اور موسم سرما میں بجلی کی کھپت بہت کم ہوجانے کے باوجود کراچی میں لوڈ شیڈنگ جاری ہے اور کے الیکٹرک کے بقول شہر کے 62 فی صد علاقوں میں لوڈ شیڈنگ نہیں کی جا رہی۔
موسم گرما میں کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے کئی سالوں سے ہنگامے، احتجاج معمول بنا ہوا ہے جس کی کے الیکٹرک نے آج تک پروا نہیں کی کیونکہ کراچی میں کے الیکٹرک نے اپنی نہایت مضبوط ریاست قائم کر رکھی ہے اور وفاقی و صوبائی حکومت بھی کے الیکٹرک کے آگے مکمل طور پر بے بس اور نیپرا کے الیکٹرک کا سب سے بڑا خیر خواہ ہے۔
حکومت عوامی شکایات پر کے الیکٹرک کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتی تو نیپرا کے الیکٹرک کو کبھی نقصان نہیں ہونے دیتا اور عوامی رائے کو نظر انداز کرکے ہمیشہ کے الیکٹرک کی خواہش پر بجلی کے نرخ بڑھاتا آیا ہے اور اگر ملک میں بجلی کے نرخ کبھی کم بھی ہوں تو اس کا اطلاق کے الیکٹرک پر نہیں کرتا اور کراچی کو ملک کا حصہ نہیں سمجھتا۔
دو ماہ سے کراچی میں لوڈ شیڈنگ جاری ہے مگر حکومت اور نیپرا کی آنکھیں بند ہیں اور کوئی نہیں پوچھ رہا کہ جب ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کردی گئی ہے تو کراچی سے لوڈ شیڈنگ کیوں ختم نہیں کی جارہی اور سردی میں بھی کراچی میں چار سے 8 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کرکے عوام کو کیوں پریشان کیا جارہاہے جب کہ اضافی بلنگ بھی درست کی جارہی ہے نہ روکی جارہی ہے۔
کراچی کی صنعتوں نے شدید ترین لوڈ شیڈنگ کے دنوں میں اپنی ضرورت کے مطابق جنریٹر لگالیے تھے اور سرکاری و نجی اداروں، بینکوں، بڑی مارکیٹوں حتیٰ کہ بڑی مساجد میں بھی جنریٹر لگوالیے گئے تھے جب کہ امیروں اور متوسط طبقے کے لیے بھی نے اپنی ضرورت کے مطابق جنریٹروں کے ذریعے متبادل بجلی حاصل کی جانے لگی تھی۔ دکانوں میں بھی چھوٹے پٹرول جنریٹروں اور یو پی ایس کے ذریعے بجلی حاصل کرنا مجبوری بن گیا تھا اور گھروں میں موجود سوئی گیس کے باعث لوگوں نے گھروں میں گیس جنریٹروں کے ذریعے اپنی بجلی کی ضرورت پوری کرنے کا طریقہ اپنایا تھا۔
گیس جنریٹر پٹرول و ڈیزل جنریٹروں کے مقابلے میں سستے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے سوئی گیس کی طلب بڑھ گئی اور پٹرول اور ڈیزل جنریٹروں کی وجہ سے حکومت کی نا جائز ذریعہ آمدنی میں بھی بے حد اضافہ ہوا کیونکہ پٹرولیم کی مصنوعات مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہیں جو ان کے ہر ماہ نرخ مقررکرتی ہے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور برائے نام کمی پاکستان کی ہر حکومت کی پالیسی رہی ہے۔
دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوں تو بھی حکومت قیمتیں کم نہیں کرتی اور مہینہ بھر اپنے شہریوں کو لوٹنے کے بعد اپوزیشن کے مطالبے پر معمولی کمی نئے مہینے سے کی جاتی ہے اور اگر عالمی سطح پر پٹرولیم قیمتیں بڑھیں تو مہینہ مکمل ہونے کی رعایت عوام کو نہیں دی جاتی بلکہ فوراً قیمتیں بڑھادی جاتی ہیں۔
لوڈ شیڈنگ سے جہاں حکومت کی پٹرولیم آمدنی میں اضافہ ہوا وہیں جنریٹر اور یو پی ایس بنانے والوں کی قسمت چمک اٹھی تھی اور بنانے والوں کے علاوہ جنریٹر اور یو پی ایس مرمت کرنے والوں کے بھی وارے نیارے ہوئے اور حکومت کی طرح انھوں نے بھی عوام کی مجبوری سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور لوڈ شیڈنگ میں جنریٹر، یو پی ایس بنانے اور ان کی مرمت کرنے والوں کی قسمت بدل گئی اور اپنی کمائی میں بے پناہ اضافے سے ان کے دلوں سے دعا نکلتی تھی کہ ملک سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کبھی ختم نہ ہو۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ 2008 میں قائم ہونے والی پیپلزپارٹی کی حکومت نے ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھانے پر بالکل توجہ نہیں دی اور 2013 کے عام انتخابات میں اس کی سزا بھگتی اور مسلم لیگ ن نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کو اپنا انتخابی منشور بناکر ہی کامیابی حاصل کی تھی اور اس نے بجلی کی پیداوار بڑھانے پر توجہ بھی دی مگر ن لیگی رہنماؤں کے دعوے کے مطابق تو نہیں مگر گزشتہ سال نومبر میں ن لیگ کی حکومت لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم کرنے میں تو نہیں مگر کافی حد تک ختم کرنے میں ضرور کامیاب رہی ہے اور ملک بھر میں اب بھی بجلی کی پیداوار بڑھائی جارہی ہے اور کوئلے سے بھی بجلی پیدا کی جارہی ہے۔
ملک بھر میں سردی کی وجہ سے بجلی کی کھپت کم اور سوئی گیس کی کھپت بڑھ جاتی ہے۔ لوڈ شیڈنگ ختم کیے جانے کے بعد بھی ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی اب بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہے اور کے الیکٹرک نے لوڈ شیڈنگ میں کمی بھی نہیں کی۔
کے الیکٹرک کو وفاقی حکومت 650 میگا واٹ بجلی فراہم کرتی ہے جس کی فراہمی کا معاہدہ اگرچہ ڈیڑھ سال قبل ختم ہوگیا تھا جس کے بعد حکومت اور کے الیکٹرک کے درمیان نیا معاہدہ ہوا نہ کے الیکٹرک نے بجلی کی پیداوار پر توجہ دی۔ کے الیکٹرک نے معاہدے کے مطابق خود بجلی کی پیداوار بڑھانے پر توجہ نہیں دی اور موسم سرما میں بجلی کی کھپت بہت کم ہوجانے کے باوجود کراچی میں لوڈ شیڈنگ جاری ہے اور کے الیکٹرک کے بقول شہر کے 62 فی صد علاقوں میں لوڈ شیڈنگ نہیں کی جا رہی۔
موسم گرما میں کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے کئی سالوں سے ہنگامے، احتجاج معمول بنا ہوا ہے جس کی کے الیکٹرک نے آج تک پروا نہیں کی کیونکہ کراچی میں کے الیکٹرک نے اپنی نہایت مضبوط ریاست قائم کر رکھی ہے اور وفاقی و صوبائی حکومت بھی کے الیکٹرک کے آگے مکمل طور پر بے بس اور نیپرا کے الیکٹرک کا سب سے بڑا خیر خواہ ہے۔
حکومت عوامی شکایات پر کے الیکٹرک کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتی تو نیپرا کے الیکٹرک کو کبھی نقصان نہیں ہونے دیتا اور عوامی رائے کو نظر انداز کرکے ہمیشہ کے الیکٹرک کی خواہش پر بجلی کے نرخ بڑھاتا آیا ہے اور اگر ملک میں بجلی کے نرخ کبھی کم بھی ہوں تو اس کا اطلاق کے الیکٹرک پر نہیں کرتا اور کراچی کو ملک کا حصہ نہیں سمجھتا۔
دو ماہ سے کراچی میں لوڈ شیڈنگ جاری ہے مگر حکومت اور نیپرا کی آنکھیں بند ہیں اور کوئی نہیں پوچھ رہا کہ جب ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کردی گئی ہے تو کراچی سے لوڈ شیڈنگ کیوں ختم نہیں کی جارہی اور سردی میں بھی کراچی میں چار سے 8 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کرکے عوام کو کیوں پریشان کیا جارہاہے جب کہ اضافی بلنگ بھی درست کی جارہی ہے نہ روکی جارہی ہے۔