ارتقاء کہانی ایک سرکاری ملازم کی
ایک اور اہم کارنامہ جس میں ارتقاء زیدی کا رول قابل ذکر ہے، افغانستان پاکستان تجارتی راہداری کا معاہدہ ہے۔
MIRPUR:
سید ارتقاء احمد زیدی کی آپ بیتی کا عنوان '' ارتقاء '' ہے، یہ ایک سرکاری افسرکی زندگی کا احوال ہے جس نے محنت، فرض شناسی، لگن اور اپنی صلاحیتوں کے صحیح استعمال سے اپنے لیے کامیابی کی راہیں کھولیں ۔ زیدی صاحب نے اپنی سرکاری ملازمت کے دوران میں جو معرکے سر کیے اس کتاب میں ان کا تفصیل سے ذکر ہے۔ اپنی صلاحیتوں اور اپنے موقف کی سچائی پر انھیں جو یقین تھا اس کا اظہار بھی ان کی کہانی کا ایک پہلو ہے۔
ارتقاء زیدی کے خاندان کا ضلع بجنور سے تعلق تھا۔ وہ کم عمری میں والدین کے ساتھ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے، کوئٹہ میں قیام کیا اور یہی پلے بڑھے، ابتدائی تعلیم کوئٹہ میں اورکالج کی تعلیم ٹنڈو جام میں ہوئی جہاں سے انھوں نے زرعی معیشت میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی ، ملازمت کی ابتدا کوئٹہ سے ہوئی ۔ انھوں نے 47 سال کی سروس کی جس کے دوران میں صوبہ بلوچستان اور پھر حکومت پاکستان میں خدمات انجام دیں۔ وہ عالمی بینک کے ایک پروجیکٹ کے ڈائریکٹر، اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے نیشنل کنسلٹنٹ اور ڈپٹی لیڈر ہے۔
پلاننگ کمیشن میں ڈپٹی چیف مقرر ہوئے۔ انھوں نے بے شمار انٹرنیشنل سیمینار میں پاکستان کی نمایندگی بھی کی، دو مرتبہ وزارتی کانفرنس میں جو برازیل اور گھانا میں ہوئی شرکت کی۔ پچاس سے زیادہ مرتبہ بیرونی ممالک کا سفر کیا۔ تمام براعظموں میں بائیس ملکوں میں ایک سے زیادہ مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا۔
ارتقاء احمد زیدی لکھتے ہیں ''ان 47 سالوں میں حکمرانوں کے مختلف ادوار دیکھے۔ ایوب خان، یحییٰ خان، جنرل ضیا اور پرویز مشرف کی فوجی حکومتوں اور بھٹو، معراج خالد، جونیجو، بے نظیر، نواز شریف، چوہدری شجاعت، شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی کی منتخب اور عبوری حکومتوں کی کارکردگی دیکھنے کا بھی موقع ملا۔''
ایوب خان نے 1958 میں جب مارشل لا لگایا تو ارتقاء زیدی کوئٹہ کے گورنمنٹ اسپیشل ہائی اسکول میں آٹھویں کلاس کے طالب علم تھے۔ اسکول میں اساتذہ چپ چپ اور شہر میں لوگ خوفزدہ تھے۔ ارتقا لکھتے ہیں کہ یحییٰ خان نے مارشل لا لگایا تو سب سے پہلے امن وامان قائم کیا، بھٹو بہت ذہین اور بلا کے دلیر تھے، مگر اپنی منفی سوچ اور شاطرانہ چالوں سے ملک کو بہت نقصان پہنچایا۔ضیا الحق آئے تو عوام نے فوج کو خوش آمدید کہا۔
ضیا الحق نے بیورو کریسی کے تعاون سے گیارہ سال حکومت کی، جونیجو ایک سیدھے سادے شریف انسان تھے۔ بیورو کریسی نے انھیں طرح طرح سے بے وقوف بنایا اور اپنا الو سیدھا کیا۔ جنرل ضیا الحق کا ہوائی جہاز کریش ہوا تو غلام اسحق صدر بنے۔ الیکشن ہوئے بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا ایک سال آٹھ ماہ بعد برطرف کردی گئیں۔
ارتقاء زیدی کا پہلا سرکاری بیرونی ملک دورہ برطانیہ کا تھا ۔ انھیں ایک تعلیمی سیمینار میں شرکت کرنا تھی جس کا موضوع دیہی ترقی اور نظم و نسق تھا ۔ یہ نومبر 1947 میں ہوا تھا یہ ان تین افسروں میں سب سے جونیئر تھے جو اس چالیس روزہ سیمینار میں پاکستان کی نمایندگی کے لیے منتخب ہوئے تھے ، اس سفر برطانیہ کی یادیں دلچسپ ہیں۔ پھر جب پلاننگ کمیشن میں نیوٹریشن سیل بنا تو یہ اس کے اسسٹنٹ چیف بنادیے گئے ۔
اسے سب سے پہلے ایک سروے یہ کرنا تھا کہ ملک میں غذائی کمی کی نوعیت کیا ہے اور اس کوکیسے دورکیا جاسکتا ہے ۔ ارتقاء زیدی نے اس کام میں بڑی تندہی سے حاصل لیا اور پہلے آزاد کشمیر کا دورہ کیا ۔ اس سفرکا بھی تفصیل سے ان کی کتاب میں ذکر ہے ۔ وہ لکھتے ہیں '' اس سیل (Cell) میں، میں نے تین سال کے عرصے میں جوکام کیے وہ یاد کرکے میرا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے کہ میں نے بے حد مشکل کام سخت محنت سے انجام دیے اور کامیابی حاصل کی'' یو ایس ایڈ نے دو پروجیکٹ کا پلان دیا تھا، ایک کھانے کے نمک میں آئیوڈین شامل کرنا اور دوسرا چائے کی پتی میں وٹامن A شامل کرنا۔
ارتقا نے دونوں پروجیکٹ ایک ساتھ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ چائے کی پتی میں وٹامن اے شامل کرنے کی ضرورت اس لیے ضروری تھی کہ اس وٹامن کی کمی سے عام لوگوں میں خصوصاً بچوں میں رات کا اندھا پن ہوجاتا ہے۔
یہ مرض خاص طورپر ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں غربت کی وجہ سے خوراک کی کمی ہو۔ چائے ایک ایسی چیز تھی جو غریبوں کے لیے غذا کا کام بھی دیتی ہے کہ وہ ایک پیالی چائے سے روٹی کھاتے ہیں۔ آئیوڈین کی کمی کو جو''گلہڑ'' کی بیماری کا سبب بنتی ہے، دورکرنے کا سب سے آسان اور سستا طریقہ یہ تھا کہ اسے نمک میں شامل کیا جائے کہ نمک سب ہی استعمال کرتے ہیں۔
چائے کی کمپنیوں کو چائے میں وٹامن اے اور مصالحہ بنانے والی کمپنیوں کو نمک میں آئیوڈین ملانے پر رضامندکرنا ایک مشکل کام تھا جو ارتقاء زیدی نے بڑی ہمت اور ترکیب سے پورا کیا وہ لکھتے ہیں ''مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے کہ جوکام میں نے شروع کیا وہ اس قدرکامیابی سے پورے ملک میں رائج ہوگیا'' چائے کی پتی میں وٹامن اے اور نمک میں آئیوڈین ۔
ایک اور اہم کارنامہ جس میں ارتقاء زیدی کا رول قابل ذکر ہے، افغانستان پاکستان تجارتی راہداری کا معاہدہ ہے۔ 2009 میں افغانستان کی اس شکایت پرکہ 1965 کے راہداری کے معاہدے پر صحیح طور پر عمل نہیں ہورہا ہے، یہ فیصلہ ہوا کہ ایک نیا معاہدہ کیا جائے اور اس مقصد کے لیے باری باری اسلام آباد اورکابل میں مذکرات کیے جائیں ۔ وزارت تجارت کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ نئے معاہدے پرکام شروع کرے، سیکریٹری تجارت نے یہ کام ارتقاء زیدی کے سپرد کیا ۔ یہ وزیراعظم شوکت عزیز کا دور تھا ۔
مئی 2009 میں اسلام آباد میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے، دوسرا دورکابل میں ہوا جون میں ۔ یوں مذاکرات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا جو بالآخر اکتوبر 2010 میں ختم ہوا جب کابل میں ایک نئے معاہدے پر دستخط ہوئے ۔ یہ ایک اہم اور تاریخی نوعیت کا معاہدہ تھا جس نے پینتالیس سال نو ماہ بعد 1965 کے افغان تجارتی راہداری کے معاہدے کی جگہ لی ۔ اس معاہدے پر عمل در آمد کرانے کی ذمے داری ایک بین الوزارتی کمیٹی کو سونپی گئی، اس کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل سیکریٹری تجارت تھے اور ارتقاء احمد زیدی ممبر تھے۔
ارتقاء زیدی نے اپنے فرائض منصفی کے دوران واقع ہونے والے مسائل اور ان صبر آزما مرحلوں کا جن سے وہ گزرے تفصیل سے ذکرکیا ہے۔ بیوروکریسی کی مخصوص ذہنیت ، باہمی رسہ کشی اور مفادات کی کشمکش کے منظر نامے کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے بعض ناقابل فراموش واقعات کا بھی اپنی کتاب میں ذکرکیا ہے۔
لکھتے ہیں '' بچپن سے اپنے بزرگوں سے سنتے چلے آئے تھے کہ آیت الکرسی پڑھنے سے جان اور مال کی حفاظت ہوتی ہے اور آیت کریمہ پڑھنے سے مصیبت ٹل جاتی ہے اور سنگین مسئلے کا حل بھی نکل آتا ہے ۔ مجھے ان دونوں کا کئی بار ذاتی تجربہ ہوا ہے۔ میری عادت ہے کہ صبح اٹھ کر اور رات کو سونے سے پہلے آیت الکرسی پڑھ لیتا ہوں۔کئی مرتبہ موت کو بہت قریب سے دیکھا اور اﷲ کے فضل سے محفوظ رہا۔''
اس سلسلے میں ایک واقعہ جو ارتقاء زیدی نے لکھا ہے وہ 1970 میں مستونگ میں پیش آیا جب وہ وہاں EADA میں تعینات تھے۔ لکھتے ہیں ''میں سرکاری جیپ میں سفر کر رہا تھا۔ محکمہ کے ایک دوست کو اصرارکرکے گاڑی میں بٹھالیا اور خود کھڑکی کی جانب بیٹھ گیا۔ وہ دوست بھی میری طرح دبلے پتلے تھے، بڑے آرام سے ہم دونوں ڈرائیورکے ساتھ بیٹھ گئے۔
جیپ پوری رفتار سے رواں دواں تھی ۔ایک موڑ پر میری کہنی جیپ کے دروازے کے ہینڈل پر لگی اور دروازہ کھل گیا۔ میرے دوست نے پھرتی سے میرے کوٹ کا کالر پکڑلیا، اب صورتحال یہ تھی کہ میں ہوا میں لہرا رہا تھا۔ دوست کے اور میرے منہ سے خوف کی وجہ سے کوئی آواز نہیں نکلی۔ خود ہی ڈرائیورکی نظر پڑگئی ، اس نے فوراً گاڑی روکی۔ اس طرح میری جان بچ گئی ورنہ راستے پر موڑکاٹتے ہوئے میں نیچے کھائی میں گر جاتا تو زندہ بچنا مشکل تھا۔''
اسی طرح کا ایک واقعہ جنیوا میں پیش آیا لکھتے ہیں '' یہ میرا جنیوا کا پہلا دورہ تھا WTO کی کانفرنس میں پاکستان کی نمایندگی کر رہا تھا ۔ رات کا وقت تھا میں ٹرام کی پٹڑی کے کنارے کھڑا سامنے سے آتی ہوئی ٹرام کے گزرنے کا انتظار کررہاتھا ۔ جونہی ٹرام گزری اور میں نے ٹرام کی پٹڑی پر سے گزرکر دوسری جانب جانے کے لیے پٹڑی پر پاؤں رکھا کہ ایک تیز ہوا کا جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا، اسی لمحے ایک بس پوری رفتار سے میرے منہ کو چھوتی ہوئی گزرگئی۔ میں سکتے کے عالم میں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ موت میرے سامنے سے چند سینٹی میٹر دوری سے گزرگئی۔''