فاروق ستار نے کامران ٹیسوری کو معطل کرنے والے رابطہ کمیٹی ارکان کو معطل کردیا

جس بات کو ایشو بنایا جارہا ہے وہ اصل ایشو ہی نہیں ہے، کنوینر متحدہ پاکستان


ویب ڈیسک February 06, 2018
جس بات کو ایشو بنایا جارہا ہے وہ اصل ایشو ہی نہیں، کنوینر متحدہ پاکستان- فوٹو: فائل

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ رابطہ کمیٹی کے ارکان نے میرے منع کرنے کے باوجود اجلاس منعقد کرکے پارٹی کے آئین کی خلاف ورزی کی اس وجہ سے ڈمی سربراہ بننا منظور نہیں۔

پی آئی بی مرکز پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ میں یہاں موجود رابطہ کمیٹی کے اراکین ، ارکان اسمبلی اور تنظیمی عہدے داروں وکارکنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ منظم ہو کر یہاں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا جیسے ہی رہنماؤں اور کارکنوں کو خبر ملی کہ فاروق ستار آزمائش میں ہیں تو وہ سب دوڑے چلے آئے۔

فاروق ستار نے کہا کہ یہ آزمائش ہے یا سازش میں کچھ نہیں کہہ سکتا، رابطہ کمیٹی کے کچھ اراکین نے ابھی جو پریس کانفرنس کی ہے وہ تنظیمی نظم و ضبط کی خلاف ورزی ہے اور بڑی خلاف ورزی انہوں نے یہ کی کہ انہوں نے میری اجازت اور منع کرنے کے باوجود بہادر آباد پر اجلاس بلایا، آج کارکنوں کا یہ اجلاس بھی فیصلہ کرے گا یہ پارٹی کے دستور کے مطابق غیر آئینی اجلاس ہے کیوں کہ یہ اجلاس منعقد ہو ہی نہیں سکتا اگر میں منع کردوں۔

انہوں نے کہا کہ بڑی تعداد میں رابطہ کمیٹی کے ارکان اور ارکان اسمبلی یہاں موجود ہیں، کارکنوں سے فیصلہ لینا چاہتا ہوں کہ آپ کو بااختیار سربراہ چاہیے یا بے اختیار ڈمی سربراہ، اگر ایسا ہی ڈمی سربراہ بنانا ہے تو مجھے یہ سربراہی منظور نہیں۔

فاروق ستار نے کہا کہ رہنماؤں کو دھوکا دے کر میرے نام سے بہاد آباد پر بلایا گیا، جس بات کو ایشو بنایا جارہا ہے وہ اصل ایشو نہیں ہے، 15 ماہ سے مجھے ہر فیصلہ کرنے میں لوگوں کی منت سماجت کرنی پڑے تو کیسی سربراہی؟ اگر آپ لوگوں کو کوئی اور سربراہ منتخب کرنا ہے تو بتادیں۔

فاروق ستار نے کہا کہ اصل ایشو یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو ایسا سربراہ چاہیے جو ڈمی ہو۔ انہیں ایسا سربراہ نہیں چاہیے جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے، کامران ٹیسوری کو 6 ماہ کے لیے کیوں معطل کردیا گیا؟ اس طرح سے میں پارٹی کو نہیں چلاسکتا، مجھے فیصلوں کا اختیار درکار ہے اگر مجھے سربراہ بنایا جارہا ہے تو فیصلوں میں میری حکمت کو بھی سمجھا جائے اگر میرے فیصلوں میں حکمت نہیں تو مجھے سربراہ ہونا ہی نہیں چاہیے، انہوں نے کہا کہ کل شام کو کے ایم سی اسٹیڈیم میں کارکنوں کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جارہی ہے۔

کنوینر متحدہ پاکستان نے کہا کہ ایک جلسہ آپ کریں اور ایک جلسہ میں، آپ نشتر پارک میں کریں اور ایک جلسہ میں مزار قائد پر، ہم چاہے دو افراد رہ جائیں لیکن میں ایسی سربراہی قبول نہیں کروں گا جس میں لوگوں کی منتیں کرنی پڑیں، اگر پارٹی میں نااتفاقی تھی تو بیٹھ کر بات کی جاسکتی تھی نہ کہ اس طرح اجلاس بلا کر میڈیا پر اعلانات کردیے جائیں، یہ جو کچھ ٹی وی اسکرین پر نظر آرہا ہے وہ ایک فیصلے کی نہیں 15 ماہ کی کہانی ہے۔

رہنما متحدہ پاکستان نے کہا کہ میں اب بلیک میل ہونا نہیں چاہتا، میری شرافت کو میری کمزوری نہ سمجھا جائے،اگر کارکنوں کو ان کے ساتھ جانا ہے جنہوں نے پارٹی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی اور بڑے فیصلے کیے تو یہ میری سربراہی پر سوال ہے، یہ مجھ پر عدم اعتماد ہے، رابطہ کمیٹی ارکان مجھ سے معافی مانگیں۔

فاروق ستار نے کہا کہ سینیٹ کے ٹکٹوں کا فیصلہ بعد کی بات ہے لیکن پہلے یہ بات ہے کہ میرے علم میں لائے بغیر کامران ٹیسوری کی معطلی کی گئی، سینیٹ کا الیکشن جسے لڑنا ہے لڑ لے مجھے پارٹی بچانی ہے، مجھ پر ہر روز سوال اٹھائے جاتے ہیں، میری اہلیت پر سوال کیا جاتا ہے اس لیے کہ میمن بچہ ہوں؟ 1998ء میں حقیقی بن گئی تھی لیکن 2018ء میں حقیقی بننے نہیں دوں گا۔

رہنما متحدہ پاکستان نے کہا کہ ایسا نہیں کہ کامران کا نام زیر غور نہیں تھا بلکہ سینیٹ کے امیدواروں میں کامران کا نام آچکا تھا، چوتھی سیٹ پر مقابلہ تھا تو شبیر قائم خانی نے اختیار مجھے دیا کہ آپ جسے چاہیں منتخب کرلیں۔ انہوں نے پریس کانفرنس کرنے والے رابطہ کمیٹی کے ارکان کو چیلنج دیا کہ اگر کارکنان آپ کے ساتھ ہیں تو آپ پارٹی چلائیں اگر کارکنان میرے ساتھ ہیں تو اب میں پارٹی چلا کر دکھاؤں گا۔

فاروق ستار نے کہا کہ رابطہ کمیٹی کے جن ارکان نے غیر آئینی اجلاس اور پریس کانفرنس کی وہ کل شام تک جنرل باڈی اجلاس میں پیش ہونے تک عارضی طور پر معطل ہیں، میں جذباتی ہوکر یہ بات نہیں کہہ رہا لیکن آج کا یہ کارکنان کا جنرل باڈی اجلاس مجھے یہ اختیار دے، جس پر وہاں موجود لوگوں نے اس بات کی تائید کی۔

پریس کانفرنس کے موقع پر وہاں موجود کارکنوں نے فاروق ستار کے حق میں نعرے باز ی کرتے ہوئے رابطہ کمیٹی کے ارکان کے خلاف 'شرم کرو ڈوب مرو' کے نعرے لگائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں