چورنگیوں پر کبوتروں کو دانہ ڈالنے کا رجحان بڑھنے لگا
شہر کی بیشترچورنگیوں کے نام تبدیل کرکے کبوتر چورنگی رکھ دیا گیا۔
شہریوں میں پرندوں کو دانہ صدقہ کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے شہر میں جگہ جگہ چوراہوں اور سڑکوں کے کنارے کبوتروں کا دانہ فروخت کرنے والوں کے عارضی اسٹال لگ گئے ہیں۔
بیشتر چورنگیوں کے نام تبدیل ہوکر کبوتر چورنگی پڑگیا ہے، شہریوں کی بڑی تعدادگھروں سے روزگار یا کام پر روانہ ہوتے وقت پرندوں کو دانہ ڈال کر نکلتے ہیں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے شہری اپنی اپنی استعطاعت کے مطابق جان کی سلامتی اور آنے والی مشکلات اور بلاؤں کو ٹالنے کے لیے پرندوں کو دانہ صدقہ کرتے ہیں شہریوں میں پرندوں کو دانہ صدقہ کرنے کے رجحان میں اضافہ بے روزگاروں کے روزگار کا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔
شہر بھر میں 100سے زائد مقامات پر کبوتروں کا دانہ فروخت کرنے والوں نے ڈیرے جمالیے ہیں جن میں قابل ذکر مقامات میں نمائش کے اردگرد کے چوراہے ہائی کورٹ اور سندھ سیکریٹریٹ کے اردگر کی چورنگیاں، ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، گلشن اقبال کی مصروف سڑکیں شامل ہیں۔
اسلامیہ کالج کے سامنے فٹ پاتھ پر کبوتروں کا دانہ فروخت کرنے والے ابراہیم خان کے مطابق وہ گزشتہ 12سال سے اس مقام پر کبوتروں کا دانہ فروخت کررہے ہیں اتوار کے روز شہریوں کی بڑی تعداد کبوتروں کو دانہ ڈال کر اپنا، اپنے بچوں اور اہل خانہ کی جان کا صدقہ نکالتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اور پولیس کے ہاتھوں نوجوانوں کی ماورائے عدالت ہلاکتوں، ڈکیتی کی وارداتوں میں شہریوں کو ہلاک اور زخمی کیے جانے کے واقعات اور ٹریفک حادثات کی وجہ سے زیادہ تر خاندانوں میں نوجوان لڑکوں، بچوں بچیوں اور گھروں کے سربراہان کا صدقہ دینے کا رجحان بڑھ رہا ہے بیشتر گاہکوں میں نوجوان شامل ہیں جو صبح دفتر اور روزگار پر جاتے وقت اپنے والدین کی ہدایت پر اپنی جان کا صدقہ کبوتروں کو دانہ ڈال کر دیتے ہیں تاکہ دن بھر کسی حادثے یا نقصان سے محفوظ رہیں۔
ابراہیم خان کے مطابق کبوتروں کو دانہ ڈالنے والوں میں زیادہ تر نوکری پیشہ افراد شامل ہیں جو کم آمدن کے باوجود پابندی کے ساتھ کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہیں چنے کی دال اور چھوٹے کابلی چنے کبوتروں کی مرغوب خوراک ہے تاہم زیادہ تر افراد مکس دانہ ڈالتے ہیں جس میں لال چاول، دہلی ہوئی مسور، کھڑی مسور کی دال، دیسی چھوٹے سفید چنے اور باجرہ شامل ہوتا ہے۔
کبوتر کا دانہ فروخت کرنے والے شہریوں کی سہولت کے لیے چھوٹے بڑے سائز کے پلاسٹک کے پیالوں میں دانہ تول کر رکھتے ہیں جن میں 20 روپے سے لے کر 100 روپے تک کے پیالے شامل ہیں دانہ فروخت کرنے والوں کے مطابق زیادہ تر شہری 20 اور 30 روپے والے پیالے خرید کر کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہیں زیادہ آمدن والے افراد 5 سے 10 کلو تک دانہ خرید کر کبوتروں کو ڈالتے ہیں۔
زیادہ ٹریفک اور رش والی چورنگیوں پر کبوتر اترنے سے گھبراتے ہیں
پرندوں کا دانہ فروخت کرنے والوں کے مطابق زیادہ تر شہری اس جگہ دانہ ڈالتے ہیں جہاں ایک ساتھ کبوتروں کا زیادہ بڑا جھنڈ دکھائی دیتا ہے شہر میں زیادہ ٹریفک والی جگہوں پر کبوتر اترنے سے گھبراتے ہیں اس لیے تعطیل والے دنوں میں کبوتروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔
اسی طرح سنسنان اور کم ٹریفک والے چوراہوں پر کبوتروں کا زیادہ بڑا جھنڈ دکھائی دیتا ہے کبوتروں کے جھنڈ ہر عمر کے شہریوں کے لیے کشش رکھتے ہیں اسی لیے اکثر شہری رک کر کبوتروں کی تصاویر اور وڈیوز بناتے ہیں تعطیل کے روز بچوں کی بڑی تعداد کبوتروں کو دانہ ڈالنے آتی ہے جو کبوتروں کو اڑاکر ان کے ایک ساتھ اڑنے کے منظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
شہری چورنگیوں پرکبوتروں کی پیاس بجھانے کا اہتمام کرنے لگے
مخیر حضرات کبوتروں کو پانی دینے کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ مصروف چوراہوں پر کبوتروں کے پینے کا پانی فراہم کرنے کے لیے مخیر حضرات نے چھوٹی ٹنکیاں بنوائی ہیں جہاں ہفتہ وار بنیاد پر چھوٹی سوزوکی گاڑیوں سے پانی ڈلوایا جاتا ہے تاکہ کبوتر اپنی پیاس بجھاسکیں اسلامیہ کالج کے سامنے چورنگی پر مخیر شخص نے واٹر بورڈ کی لائن سے کنکشن لے کر پختہ ٹنکی تعمیر کرائی ہے اور زمین پر حوض تعمیر کیے ہیں تاکہ کبوتر پانی سے نہاسکیں اور اپنی پیاس بجھاسکیں کئی چورنگیوں پر مٹی کے بڑے تھال اور کنڈے رکھے گئے ہیں جن میں پانی ٹھنڈا رہتا ہے جس سے پرندے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔
مخلوق خدا سے پیار کرنے والے کچھ افراد یومیہ بنیاد پر کبوتروں کے دانہ چگنے کی جگہوں کو صاف کرتے ہیں اور پانی کے برتنوں کو دھوکر ان میں تازہ پانی بھرتے ہیں اسلامیہ کالج کے علاوہ سندھ سیکریٹریٹ کی چورنگی پر کئی افراد یومیہ بنیاد پر اپنے گھروں سے بھی دانہ اور پانی لاکر کبوتروں کو ڈالتے ہیں بعض افراد اپنے گھروں سے چاول اور روٹی کے باریک ٹکڑے بھی لاکر کبوتروں کو ڈالتے ہیں۔
اسلامیہ کالج کی چورنگی پر ریحان نامی بزرگ شہری پابندی کے ساتھ کبوتروں کے دانہ کی جگہ اور پانی کے حوض کی صفائی کرتے ہیں اور فجر کے بعد سے ظہر تک پرندوں کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں اس مقام سے گزرنے والے شہری بعض اوقات ریحان بابا کو نقد رقم دیتے ہیں لیکن خلق خدا سے محبت کرنے والے یہ بزرگ اس رقم سے بھی پرندوں کا دانہ خرید کر پرندوں کو ڈال دیتے ہیں۔
نیٹی جیٹی پل پرندوں اورمچھلیوںکوخوراک صدقہ کرنیکامرکزبن گیا
کراچی میں نیٹی جیٹی کا قدیم پل خودکشیوں کے حوالے سے مشہور رہا لیکن اب حکام نے اس پل کے کنارے جست کی اونچی چادریں نصب کردی ہیں تاکہ اپنی زندگی سے مایوس کوئی فرد اس جگہ سے سمندر میں چھلانگ نہ لگاسکے نیٹی جیٹی کا یہ پل اب پرندوں اور مچھلیوں کو خوراک صدقہ کرنے کا سب سے بڑا مرکز ہے جہاں شہریوں کی بڑی تعداد اپنا اور اپنے اہل خانہ کا صدقہ نکالتے ہیں۔
اس جگہ پر کئی عارضی اسٹال لگ گئے ہیں جہاں آٹے کی گولیاں اور گائے بھینس کے پھیپھڑے فروخت کیے جاتے ہیں اتوار کے روز شہریوں کی آمد کا سلسلہ صبح سویرے سے شروع ہوجاتا ہے جو سورج ڈھلنے تک جاری رہتا ہے شہریوں کی بڑی تعداد اپنے بچوں اور اہل خانہ کے ہمراہ یہاں آتے ہیں اور جان کے صدقہ کے طور پر آٹے کی گولیاں اور پھیپھڑوں کے ٹکڑے سمندر میں ڈالتے ہیں جو آٹے کی گولیاں مچھلیوں کی غذا بنتی ہیں جبکہ پھیپھڑوں سے چیل اور کوے پیٹ بھرتے ہیں۔
نیٹی جیٹی پل کے کنارے خواتین بھی آٹے کی گولیاں اور پیھپھڑے فروخت کرتی ہیں جس سے ان کے بچوں اور خاندان کی گزر بسر ہوتی ہے آٹے کی گولیوں کی پلیٹ 20 سے 25روپے جبکہ پھیپھڑوں کے ٹکڑوں کی پلیٹ بھی 15سے 20روپے میں فروخت کی جاتی ہے شہری زیادہ تر 100سے 200روپے تک کی خوراک صدقہ کرتے ہیں۔
ایک فرد کے صدقہ کے طور پر عموماً ایک سے دو پلیٹ میں موجود خوراک مچھلیوں اور پرندوں کو صدقہ کی جاتی ہے نیٹی جیٹی پر آٹے کی گولیاں اور پھیپھڑے فروخت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ عام دنوں میں محدود تعداد میں شہری یہاں آتے ہیں لیکن جمعہ کی نماز کے بعد سے ہفتہ اور اتوار کے روز زیادہ کام ہوتا ہے عموماً تعطیل کے دنوں میں کیماڑی جانے والے افراد یہاں رک کر صدقہ کرتے ہیں۔
بیشتر چورنگیوں کے نام تبدیل ہوکر کبوتر چورنگی پڑگیا ہے، شہریوں کی بڑی تعدادگھروں سے روزگار یا کام پر روانہ ہوتے وقت پرندوں کو دانہ ڈال کر نکلتے ہیں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے شہری اپنی اپنی استعطاعت کے مطابق جان کی سلامتی اور آنے والی مشکلات اور بلاؤں کو ٹالنے کے لیے پرندوں کو دانہ صدقہ کرتے ہیں شہریوں میں پرندوں کو دانہ صدقہ کرنے کے رجحان میں اضافہ بے روزگاروں کے روزگار کا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔
شہر بھر میں 100سے زائد مقامات پر کبوتروں کا دانہ فروخت کرنے والوں نے ڈیرے جمالیے ہیں جن میں قابل ذکر مقامات میں نمائش کے اردگرد کے چوراہے ہائی کورٹ اور سندھ سیکریٹریٹ کے اردگر کی چورنگیاں، ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، گلشن اقبال کی مصروف سڑکیں شامل ہیں۔
اسلامیہ کالج کے سامنے فٹ پاتھ پر کبوتروں کا دانہ فروخت کرنے والے ابراہیم خان کے مطابق وہ گزشتہ 12سال سے اس مقام پر کبوتروں کا دانہ فروخت کررہے ہیں اتوار کے روز شہریوں کی بڑی تعداد کبوتروں کو دانہ ڈال کر اپنا، اپنے بچوں اور اہل خانہ کی جان کا صدقہ نکالتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اور پولیس کے ہاتھوں نوجوانوں کی ماورائے عدالت ہلاکتوں، ڈکیتی کی وارداتوں میں شہریوں کو ہلاک اور زخمی کیے جانے کے واقعات اور ٹریفک حادثات کی وجہ سے زیادہ تر خاندانوں میں نوجوان لڑکوں، بچوں بچیوں اور گھروں کے سربراہان کا صدقہ دینے کا رجحان بڑھ رہا ہے بیشتر گاہکوں میں نوجوان شامل ہیں جو صبح دفتر اور روزگار پر جاتے وقت اپنے والدین کی ہدایت پر اپنی جان کا صدقہ کبوتروں کو دانہ ڈال کر دیتے ہیں تاکہ دن بھر کسی حادثے یا نقصان سے محفوظ رہیں۔
ابراہیم خان کے مطابق کبوتروں کو دانہ ڈالنے والوں میں زیادہ تر نوکری پیشہ افراد شامل ہیں جو کم آمدن کے باوجود پابندی کے ساتھ کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہیں چنے کی دال اور چھوٹے کابلی چنے کبوتروں کی مرغوب خوراک ہے تاہم زیادہ تر افراد مکس دانہ ڈالتے ہیں جس میں لال چاول، دہلی ہوئی مسور، کھڑی مسور کی دال، دیسی چھوٹے سفید چنے اور باجرہ شامل ہوتا ہے۔
کبوتر کا دانہ فروخت کرنے والے شہریوں کی سہولت کے لیے چھوٹے بڑے سائز کے پلاسٹک کے پیالوں میں دانہ تول کر رکھتے ہیں جن میں 20 روپے سے لے کر 100 روپے تک کے پیالے شامل ہیں دانہ فروخت کرنے والوں کے مطابق زیادہ تر شہری 20 اور 30 روپے والے پیالے خرید کر کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہیں زیادہ آمدن والے افراد 5 سے 10 کلو تک دانہ خرید کر کبوتروں کو ڈالتے ہیں۔
زیادہ ٹریفک اور رش والی چورنگیوں پر کبوتر اترنے سے گھبراتے ہیں
پرندوں کا دانہ فروخت کرنے والوں کے مطابق زیادہ تر شہری اس جگہ دانہ ڈالتے ہیں جہاں ایک ساتھ کبوتروں کا زیادہ بڑا جھنڈ دکھائی دیتا ہے شہر میں زیادہ ٹریفک والی جگہوں پر کبوتر اترنے سے گھبراتے ہیں اس لیے تعطیل والے دنوں میں کبوتروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔
اسی طرح سنسنان اور کم ٹریفک والے چوراہوں پر کبوتروں کا زیادہ بڑا جھنڈ دکھائی دیتا ہے کبوتروں کے جھنڈ ہر عمر کے شہریوں کے لیے کشش رکھتے ہیں اسی لیے اکثر شہری رک کر کبوتروں کی تصاویر اور وڈیوز بناتے ہیں تعطیل کے روز بچوں کی بڑی تعداد کبوتروں کو دانہ ڈالنے آتی ہے جو کبوتروں کو اڑاکر ان کے ایک ساتھ اڑنے کے منظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
شہری چورنگیوں پرکبوتروں کی پیاس بجھانے کا اہتمام کرنے لگے
مخیر حضرات کبوتروں کو پانی دینے کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ مصروف چوراہوں پر کبوتروں کے پینے کا پانی فراہم کرنے کے لیے مخیر حضرات نے چھوٹی ٹنکیاں بنوائی ہیں جہاں ہفتہ وار بنیاد پر چھوٹی سوزوکی گاڑیوں سے پانی ڈلوایا جاتا ہے تاکہ کبوتر اپنی پیاس بجھاسکیں اسلامیہ کالج کے سامنے چورنگی پر مخیر شخص نے واٹر بورڈ کی لائن سے کنکشن لے کر پختہ ٹنکی تعمیر کرائی ہے اور زمین پر حوض تعمیر کیے ہیں تاکہ کبوتر پانی سے نہاسکیں اور اپنی پیاس بجھاسکیں کئی چورنگیوں پر مٹی کے بڑے تھال اور کنڈے رکھے گئے ہیں جن میں پانی ٹھنڈا رہتا ہے جس سے پرندے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔
مخلوق خدا سے پیار کرنے والے کچھ افراد یومیہ بنیاد پر کبوتروں کے دانہ چگنے کی جگہوں کو صاف کرتے ہیں اور پانی کے برتنوں کو دھوکر ان میں تازہ پانی بھرتے ہیں اسلامیہ کالج کے علاوہ سندھ سیکریٹریٹ کی چورنگی پر کئی افراد یومیہ بنیاد پر اپنے گھروں سے بھی دانہ اور پانی لاکر کبوتروں کو ڈالتے ہیں بعض افراد اپنے گھروں سے چاول اور روٹی کے باریک ٹکڑے بھی لاکر کبوتروں کو ڈالتے ہیں۔
اسلامیہ کالج کی چورنگی پر ریحان نامی بزرگ شہری پابندی کے ساتھ کبوتروں کے دانہ کی جگہ اور پانی کے حوض کی صفائی کرتے ہیں اور فجر کے بعد سے ظہر تک پرندوں کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں اس مقام سے گزرنے والے شہری بعض اوقات ریحان بابا کو نقد رقم دیتے ہیں لیکن خلق خدا سے محبت کرنے والے یہ بزرگ اس رقم سے بھی پرندوں کا دانہ خرید کر پرندوں کو ڈال دیتے ہیں۔
نیٹی جیٹی پل پرندوں اورمچھلیوںکوخوراک صدقہ کرنیکامرکزبن گیا
کراچی میں نیٹی جیٹی کا قدیم پل خودکشیوں کے حوالے سے مشہور رہا لیکن اب حکام نے اس پل کے کنارے جست کی اونچی چادریں نصب کردی ہیں تاکہ اپنی زندگی سے مایوس کوئی فرد اس جگہ سے سمندر میں چھلانگ نہ لگاسکے نیٹی جیٹی کا یہ پل اب پرندوں اور مچھلیوں کو خوراک صدقہ کرنے کا سب سے بڑا مرکز ہے جہاں شہریوں کی بڑی تعداد اپنا اور اپنے اہل خانہ کا صدقہ نکالتے ہیں۔
اس جگہ پر کئی عارضی اسٹال لگ گئے ہیں جہاں آٹے کی گولیاں اور گائے بھینس کے پھیپھڑے فروخت کیے جاتے ہیں اتوار کے روز شہریوں کی آمد کا سلسلہ صبح سویرے سے شروع ہوجاتا ہے جو سورج ڈھلنے تک جاری رہتا ہے شہریوں کی بڑی تعداد اپنے بچوں اور اہل خانہ کے ہمراہ یہاں آتے ہیں اور جان کے صدقہ کے طور پر آٹے کی گولیاں اور پھیپھڑوں کے ٹکڑے سمندر میں ڈالتے ہیں جو آٹے کی گولیاں مچھلیوں کی غذا بنتی ہیں جبکہ پھیپھڑوں سے چیل اور کوے پیٹ بھرتے ہیں۔
نیٹی جیٹی پل کے کنارے خواتین بھی آٹے کی گولیاں اور پیھپھڑے فروخت کرتی ہیں جس سے ان کے بچوں اور خاندان کی گزر بسر ہوتی ہے آٹے کی گولیوں کی پلیٹ 20 سے 25روپے جبکہ پھیپھڑوں کے ٹکڑوں کی پلیٹ بھی 15سے 20روپے میں فروخت کی جاتی ہے شہری زیادہ تر 100سے 200روپے تک کی خوراک صدقہ کرتے ہیں۔
ایک فرد کے صدقہ کے طور پر عموماً ایک سے دو پلیٹ میں موجود خوراک مچھلیوں اور پرندوں کو صدقہ کی جاتی ہے نیٹی جیٹی پر آٹے کی گولیاں اور پھیپھڑے فروخت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ عام دنوں میں محدود تعداد میں شہری یہاں آتے ہیں لیکن جمعہ کی نماز کے بعد سے ہفتہ اور اتوار کے روز زیادہ کام ہوتا ہے عموماً تعطیل کے دنوں میں کیماڑی جانے والے افراد یہاں رک کر صدقہ کرتے ہیں۔