باکمال زرداری اور ہمارا ساتھی نجم سیٹھی

الفاظ کے ذریعے تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں واقعات کی حقیقتیں زرداری صاحب کے سامنے پانی بھرتی ہیں۔


Abdul Qadir Hassan March 28, 2013
[email protected]

دنیائے سیاست کی سبھی تعریفیں ہیں جناب آصف علی زرداری کے لیے جنہوں نے اپنے آپ کو ایک بہت ہی کامیاب سیاستدان اور بڑا آدمی ثابت کر دیا ہے۔ اے کاش کہ دیانت اور قومی امانت کا کوئی مقام بھی ان کے پاس ہوتا تو میں آج شرح دل سے ان کی تعریف میں قلم توڑ دیتا۔ کوئی چالیس پچاس برس کے سیاستدانوں کے مطالعے اور ان کی سیاست کے مشاہدے میں مجھے ان سے زیادہ کامیاب سیاستدان کوئی دکھائی نہیں دیتا۔

ان کی سب سے بڑی ایک غیر سیاسی کامیابی بے نظیر جیسی پاکستان کی نامور خاتون سے شادی میں کامیابی تھی جس نے ان کے سامنے کامیابی کے راستے کھول دیے اور یہ ان کی دانائی اور ہمت مردانہ تھی کہ وہ ایک ایک دروازے کو کھولتے اور اس سے کامیابی کے ساتھ گزرتے چلے گئے، اس کے نتیجے میں وہ بے پناہ دولت اور غیر معمولی اور غیر یقینی اقتدار تک بھی پہنچ گئے آج وہ اس ملک کے ایک محفوظ صدر ہیں جن کی اپوزیشن جتنی بھی ہے وہ دوستانہ ہے اور آج تک مسلسل دوستانہ چلی آ رہی ہے۔

آج ملک میں یوں تو اقتدار عبوری حکمرانوں کے پاس ہے لیکن کون نہیں جانتا اور نہیں جانتا تو جان لے کہ نگراں وزیراعظم اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ دونوں زرداری صاحب کے نامزد کردہ ہیں۔ وہ بڑا صوبہ جس میں زرداری صاحب کی بظاہر اپوزیشن آباد ہے وہاں کا حکمران بھی انھوں نے اپنی پسند کا دیا ہے۔ ادھر ادھر کی کچھ ٹال مٹول اور اپوزیشن کا بھرم رکھنے کے بعد اس دوستانہ اپوزیشن نے ان کی پسند کے سامنے سر مزید جھکا دیا ہے چنانچہ وہ اقتدار جو سابق صدر پرویز مشرف زرداری صاحب کے سپرد کر گئے تھے اور جس میں بڑوں کی پسند بھی شامل تھی وہ ابھی تک ان کی ڈیوڑھی میں جھومتا ہے۔

الفاظ کے ذریعے تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں واقعات کی حقیقتیں زرداری صاحب کے سامنے پانی بھرتی ہیں۔ جس شخص کی بدترین حکومت کی سرتوڑ مخالفت کی جو اب تک جاری ہے اس نے سیاست کی حیران کن کامیابیاں حاصل کر کے ہماری مخالفت کو بھی اپنی اپوزیشن کی طرح بے اثر کر دیا ہے بلکہ یوں کہیں کہ بے وقعت کر دیا ہے اگر حکمرانی کے بارے میں نظریات اور معتقدات اٹل نہ ہوتے اور سمجھوتے کی کوئی گنجائش ہوتی تو زرداری صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی اجازت طلب کرنی پڑتی۔

ہمارے جیسے بعض اخبار نویسوں نے بہت مزے کیے اور حکمرانوں کے خوب لتے لیے لیکن اب ہم خود اس حکمرانی میں شریک ہو گئے ہیں یعنی ہمارا ایک صحافی اپنے پیشے صحافت پر اس عارضی حکومت کو ترجیح دے گیا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ سوائے دعائے خیر کے کہ یہ جو عرصہ ہو گا وہ اس کی کسی بدنامی کے بغیر گزر جائے اور صوبے کے عوام کو بھی کچھ نہ کچھ ریلیف مزید مل جائے۔ وہ ایک بہت ہی زبردست کارکن وزیراعلیٰ کی جگہ لے رہے ہیں ان کے سامنے خدمت خلق کی ایک اونچی مثال ہے وہ اگر بوجوہ اس سے آگے نہ نکل سکیں تب بھی اسے قائم ضرور رکھیں اور اپنے قلم کی بے عزتی نہ ہونے دیں۔

نجم سیٹھی صاحب میری حد تک مخالف نظریاتی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور شکر ہے کہ ان کا کوئی نظریہ ہے اور انھوں نے صحافت میں اپنی ایک عزت بھی بنا رکھی ہے یا یوں کہیں کہ بعض رابطوں اور تعلقات کی وجہ سے وہ ایک اہم صحافی ہیں۔ وہ اس سے پہلے بھی ایک عارضی حکومت میں شامل رہ چکے ہیں اس لیے یہ عارضی پوزیشن ان کے لیے پریشان کن نہیں ہو گی اور وہ اسے بھی انجوائے کریں گے کیونکہ ان کی کوئی اپوزیشن نہیں ہے اور جس حکمران کی اپوزیشن نہ ہو وہ زرداری صاحب کی طرح خوش قسمت ہوتا ہے۔

لیکن وہ اس چند دن کی بادشاہی کو اگر تھوڑی بہت آزمائش بھی سمجھ لیں تو ان کے لیے اچھا ہو گا اور مفید بھی ہو گا۔ سیاست کے ساتھ گہرا تعلق تو ہر صحافی کا ہوتا ہی ہے کہ اس کا سب سے بڑا موضوع ہی سیاست ہوتی ہے لیکن سیاسی حکمرانوں کے ساتھ صحافیوں کا تعلق اگر نیا نہیں تو اسے ناپسندیدہ ضرور سمجھا گیا ہے کیونکہ صحافی نقاد ہوتا ہے وہ تنقید کا موضوع نہیں بننا چاہتا۔ مشہور ہے کہ ایک رپورٹر کی کم بختی اور شامت اس وقت آتی ہے جب وہ خود خبر بن جاتا ہے۔ سیٹھی صاحب اس سے پہلے خود بھی اور ہمارے چند دوسرے مشہور صحافی بھی جن میں دو خواتین بھی تھیں سیاست میں اور سفارت میں آ چکی ہیں۔

صحافت کا یہ پیغمبرانہ پیشہ جب سے نفع و نقصان والا پیشہ بنا ہے تو اس میں ایسے گھپلے ہوتے ہی رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے اگر ہمارا کوئی ساتھی دامن بچا کر اس کوچے سے نکل آتا ہے تو اسے مبارک باد ابھی سے۔ وقت بہت بدل چکا ہے اس میں صوفیوں کے اوصاف تلاش کرنا اور ان کی پیروی بہت مشکل ہے، ویسے سرمایہ دارانہ کلچر کے لوگ ایسی آزمائشوں میں نہیں پڑتے جن میں نقصان بھی ہو سکتا ہو۔

سیٹھی صاحب اگر نیک نامی کے ساتھ ہمارے پاس واپس آتے ہیں تو ان کے اعزاز میں تقریب کریں گے۔ یہاں چلتے چلتے ان کی خدمت میں حسب عادت ایک شعر عرض کرتا ہوں یہ شیخ سعدی کا ہے فی الحال ترجمہ ہی کہ '' کچھ لوگ تو اپنا بھیگا ہوا لباس پھر سے پہن لیتے ہیں اور یوں اس کی آلودگی کو دنیا سے چھپا لیتے ہیں لیکن ہم وہ ہیں جو اس لباس کو خشک کرنے کے لیے سب کے سامنے برسرعام باہر دھوپ میں ڈال دیتے ہیں'' جناب سیٹھی کے لیے نیک خواہشات اور جناب زرداری کے لیے بے حد و حساب مبارک باد۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں