انتخابی عملچند غور طلب پہلو
دنیا کی بیشتر جمہوریتوں میں نگراں سیٹ اپ قائم کرنے کا تصور نہیں ہے۔
نگراںوزیر اعظم کا معاملہ بالآخر الیکشن کمیشن ہی کو حل کرنا پڑا۔ جس نے دو روز کی مشاورت کے بعد جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کونگراں وزیر اعظم مقرر کردیا۔وہ پارلیمان جس نے بیسویں ترمیم منظور کی تھی، نگراں وزیر اعظم کا انتخاب کرنے میں ناکام ہوگئی تھی۔اس میں شک نہیں کہ بیسویں آئینی ترمیم کے مطابق یہ طے شدہ تیسرا اور آخری مرحلہ تھا۔
غالباًسیاسی جماعتوںکے درمیان باہمی عدم اعتماد،بے لچک رویوں اور معروضیت سے عاری سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے نگراں حکومتوں کے انتخاب کے حوالے سے ان مراحل کو شامل کیا گیا تھا۔لیکن اصولی طور پرجو کام سیاستدان کو سرانجام دیناچاہیے تھا، اسے ریٹائرڈ ججوں کی ایک ٹیم کوانجام دینا پڑا۔جو بہرحال سیاسی جماعتوں کی ناکامی کو ظاہرکرتا ہے۔یہ مشق گوکہ پوری ہوئی مگر یہاں دو سوال بہر حال پیدا ہوتے ہیں۔اول،اگر الیکشن کمیشن مکمل طور پر با اختیار ہے، تو پھر نگراں سیٹ اپ قائم کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟دوئم،جب الیکشن کمیشن اپنی کارکردگی کے اعتبارسے ایک انتظامی ادارہ ہے، اس لیے اس ادارے کی سربراہی کے لیے ایک انتظامی منتظم کے بجائے ریٹائرڈ ججوں کے تقرر کے پس پشت کیا حکمت ہے؟
دنیا کی بیشتر جمہوریتوں میں نگراں سیٹ اپ قائم کرنے کا تصور نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کے آئین میں اس کی گنجائش رکھی گئی تھی،جسے موجودہ حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کردیا ہے۔اس طرح اب دنیا میںشاید ہی کوئی ایسی جمہوریہ ہو، جہاں انتخابات سے قبل عبوری دور کے لیے نگراں سیٹ اپ قائم کیاجاتاہو۔ایک خود مختار،آزاد اور مضبوط الیکشن کمیشن کی موجودگی میں منطقی طورپر ایک نگراں حکومت کے قیام کا جواز نہیں رہتا۔اس صورت میں پارلیمان کی تحلیل کے بعد اگرصرف انتظامی امور کی نگرانی کے لیے پہلے سے موجود حکومتوں کومحدود اختیارات کے ساتھ انتخابات کے نتائج تک برقرار رکھا جائے، تو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔جس کی دنیا میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ دراصل سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی عزم اور بصیرت سے جمہوری ادارے (Institutions)کو مضبوط بنانے پر توجہ دیتی ہیں۔اگر ادارے مضبوط ہوجائیں تو پھر نگراں سیٹ اپ جیسے کسی متبادل بندوبست کی ضرورت نہیں رہتی۔
اس سلسلے میں ہمیں بھارت کے انتخابی عمل اور اس کے تجربات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔اول، تاریخی طورپر دونوں ممالک کے عوام کا مزاج، نفسیات اورانداز فکر میںتقریباً یکسانیت پائی جاتی ہے۔دوئم،دونوں ممالک میں برطانوی طرز کا پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے۔سوئم،دونوں ممالک کے آئین کا ماخذ انڈیا ایکٹ1935ء ہے،جس میں ریاستی انتظامی ڈھانچے کو چلانے کا طریقہ کار واضح طور پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھارت میں انتخابی دھاندلیوں کے الزامات تو کئی بار سامنے آئے،لیکن الیکشن کمیشن پر جانبداری کا کبھی کوئی الزام نہیںلگا۔
بھارت 26جنوری1950ء کو جمہوریہ بنا۔اس کے ساتھ ہی وہاں پارلیمان کے ساتھ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو مستحکم بنانے کا عمل بھی شروع ہوا۔عدلیہ کو مرحلہ وار انتظامیہ سے الگ کرکے با اختیاربنانے کا عمل 1960ء کی دہائی میں شروع کیاگیا۔لیکن الیکشن کمیشن کو روز اول ہی سے آزاد، بااختیار اور غیر جانبدار بنانے پر توجہ دی گئی۔1950ء سے1980ء تک بھارت میں الیکشن کمیشن چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میںایک رکنی کمیشن ہواکرتاتھا، جو اپنے معاون عملے کی مدد سے انتخابات کا انعقاد کراتا تھا۔
1980ء کے عشرے میںدو مزید اراکین کے اضافے کے بعد کمیشن تین رکنی ہوگیا ہے۔وہاں انتخابات کی تاریخ کے اعلان اور اسمبلیوں کی تحلیل کے ساتھ ہی بیشتر انتظامی ذمے داریاں آئین کی رو سے الیکشن کمیشن کو منتقل ہوجاتی ہیں۔ ضلع کی سطح تک افسران کے تقرر اور تعیناتی کو الیکشن کمیشن مانیٹر کرتا ہے اور جہاں کہیں اس عمل میں بے قاعدگی نظر آتی ہے، آئین اسے یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اس تقرری کو کالعدم قراردیدے۔اس طرح 63برس کے انتخابی عمل کے دوران وہاں الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر انگشت نمائی نہ ہونے کا بنیادی سبب اس کی بااختیاریت اورغیر جانبداری رہی ہے ۔
اس سلسلے میں دوسراقابل غور نکتہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کا طریقہ کار ہے۔جہاں تک کمیشن کے اراکین کی تقرری کا تعلق ہے تو یہ پارلیمان کا اختیار ہے کہ وہ اتفاق رائے سے اچھی شہرت کے حامل ،غیر جانبدار افراد کا تقرر کرے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اراکین اور سربراہ کا تعلق عدلیہ ہی سے کیوں ہو؟جب کہ کمیشن کا پورا نظام انتظامی نوعیت کا ہوتا ہے۔ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے کمیشن میں جو فیصلے اور اقدامات کیے جاتے ہیں،وہ عدالتی یاJudicial نوعیت کے بجائے انتظامی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ یہاں پھر بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔جہاں اچھی شہرت کے حامل غیر متنازعہ سابقہ سینئر سول سرونٹس کی پارلیمان کی منظوری سے تقرری کی جاتی ہے،جنھیں انتظامی امور چلانے کا تجربہ ہو۔البتہ تقرری سے قبل ان کے کوائف کی اچھی خاصی چھان پھٹک کرلی جاتی ہے اور اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ مگر ایک بار معینہ مدت کے لیے انتخاب کے بعد ہرسیاسی جماعت کمیشن کے قوانین اوراحکامات کی تعمیل کرنے کی پابند ہوتی ہے۔
پاکستان میں معاملہ مختلف ہے۔ہمارے یہاں بیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کے انتخاب کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کی تو کوشش کی گئی ہے،مگر اس کے اختیارات کا تعین واضح نہیں ہے۔ وہ کسی ضلع میں انتظامی یا پولیس افسر کو شکایت موصول ہونے پر تبدیل کرسکتا ہے اور نہ جانبدارانہ تقرریوں اور تعیناتیوں کو کالعدم قرار دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ نچلی سطح پر انتخابات کے انعقاد کے لیے وہ ضلعی عدلیہ اور محکمہ تعلیم سے عملہ لینے پر مجبور ہے۔
اس سلسلے میں بھی کوئی معقول مکینزم ترتیب نہیں دیا جاسکاہے۔تجربات یہ بتاتے ہیں کہ ریٹرننگ افسر مقرر ہونے والے ضلعی ایڈیشنل جج صاحبان انتظامی موشگافیوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے انتخابی عمل کے دوران پیداہوانے والے بعض مسائل کا فوری اور موثر تدارک نہیں کرپاتے۔اس کے علاوہ پولنگ اسٹیشنوںپر تعینات اساتذہ بہت جلد سیاسی جماعتوں کے دبائومیں آجاتے ہیں۔ خاص طورپر دیہی علاقوں میں اسکول اساتذہ علاقے کی بااثر شخصیت کے زیر اثر ہوتے ہیںاور اس کے غیرقانونی اقدامات کے خلاف ان میںاستقامت دکھانے assert کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ یوں انتخابات کے روز دھاندلی پرقابو پانا ،موجودہ طریقہ کار میں مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔
ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ دھاندلی صرف جعلی ووٹ بھگتانا نہیں ہے، بلکہ اس کے کئی مدارج ہیں،جو قبل از انتخابات شروع ہوکر بعد از انتخابات جاری رہتی ہے۔ قبل از انتخابات اور بعض ازانتخابات دھاندلیوںکو قانون سازی اوران قوانین پر عمل عملدرآمدکے ذریعے باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔ لیکن انتخابات کے روز ہونے والی دھاندلیوںپرقابوپانے کے لیے ایک مربوط انتظامی مکینزم کی ضرورت ہوتی ہے،جو انتظامی ڈھانچے کو متحرک اور فعال کیے بغیر ممکن نہیںہوتی۔
حالیہ دنوں میں الیکشن کمیشن نے بعض اچھے اقدامات کیے ہیں،جن کے نتیجے میں قبل از انتخابات(Pre-Election)دھاندلیوں پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔جن میں نادرا کے تعاون سے انتخابی فہرستوں کی تیاری، امیدواروں کے نامزدگی فارم میں تبدیلیاں اور امیدواروں کی اسکروٹنی کا طریقہ کار وغیرہ۔ لیکن الیکشن کے روز ہونے والی دھاندلیوں کو روکنے کی کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آسکی ہے۔خاص طور پر وہ تمام پولیس اور انتظامی افسران جن کی حالیہ دنوں میںسیاسی بنیادوں پر تقرری اور تعیناتی کی گئی ہے،ان کی تقرری کو کالعدم قرار دینے اور ان کی انتخابی عمل میں مداخلت روکنے کے سلسلے میں کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آسکی ہے۔
غلطیاںانسان سے ہوتی ہیں۔زندگی کاکوئی ایساشعبہ ایسا نہیں، جہاں خامی یاکجی کاکوئی نہ کوئی پہلو نہ نکلتاہو۔ مگرانسان اپنی عقل ودانش، فہم وفراست اور تجربات سے ان خامیوں،کوتاہیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یہی وہ فکری ارتقاء ہے،جس نے معاشرتی ارتقاء کی بنیاد رکھی۔ اس لیے غلطیوں سے پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان رویوںپر تشویش ہونا چاہیے، جوغلطیوں سے سیکھنے کے بجائے ان کے تسلسل پر اصرار کرتے ہیں۔پاکستان میںپہلی بار ایک منتخب پارلیمان اورحکومت اپنی طبعی مدت پوری کرنے کے بعد ختم ہوئی ہے اور دوسری منتخب پارلیمان اور حکومت اس کی جگہ لینے کے مراحل میں ہے۔سیاسی جماعتوں نے اس عمل کو شفاف بنانے کی اپنے تئیں پوری کوشش کی ہے۔
جو ان کی دانست میں بہتر تھے، مگر وقت ،حالات اور تجربات نے ثابت کیا کہ ان میں ان گنت سقم اور خامیاں موجود ہیں۔ اس لیے یہ اگلی پارلیمان کی ذمے داری ہے کہ وہ ان خامیوں اور نقائص کو دور کرنے پر توجہ دے اور انتخابی عمل کومزید شفاف بنانے کی کوشش کرے۔اس کے علاوہ دوسرے ممالک خاص طور پڑوسی ممالک کے تجربات سے استفادہ بھی کیا جانا چاہیے۔اس طرح انتخابی عمل میںپائی جانے والی خامیوں، رکاوٹوں اورکمزوریوں پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔یہ طے ہے کہ اگراستقامت کادامن نہ چھوڑاجائے توکامیابی یقینی ہوتی ہے۔
غالباًسیاسی جماعتوںکے درمیان باہمی عدم اعتماد،بے لچک رویوں اور معروضیت سے عاری سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے نگراں حکومتوں کے انتخاب کے حوالے سے ان مراحل کو شامل کیا گیا تھا۔لیکن اصولی طور پرجو کام سیاستدان کو سرانجام دیناچاہیے تھا، اسے ریٹائرڈ ججوں کی ایک ٹیم کوانجام دینا پڑا۔جو بہرحال سیاسی جماعتوں کی ناکامی کو ظاہرکرتا ہے۔یہ مشق گوکہ پوری ہوئی مگر یہاں دو سوال بہر حال پیدا ہوتے ہیں۔اول،اگر الیکشن کمیشن مکمل طور پر با اختیار ہے، تو پھر نگراں سیٹ اپ قائم کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟دوئم،جب الیکشن کمیشن اپنی کارکردگی کے اعتبارسے ایک انتظامی ادارہ ہے، اس لیے اس ادارے کی سربراہی کے لیے ایک انتظامی منتظم کے بجائے ریٹائرڈ ججوں کے تقرر کے پس پشت کیا حکمت ہے؟
دنیا کی بیشتر جمہوریتوں میں نگراں سیٹ اپ قائم کرنے کا تصور نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کے آئین میں اس کی گنجائش رکھی گئی تھی،جسے موجودہ حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کردیا ہے۔اس طرح اب دنیا میںشاید ہی کوئی ایسی جمہوریہ ہو، جہاں انتخابات سے قبل عبوری دور کے لیے نگراں سیٹ اپ قائم کیاجاتاہو۔ایک خود مختار،آزاد اور مضبوط الیکشن کمیشن کی موجودگی میں منطقی طورپر ایک نگراں حکومت کے قیام کا جواز نہیں رہتا۔اس صورت میں پارلیمان کی تحلیل کے بعد اگرصرف انتظامی امور کی نگرانی کے لیے پہلے سے موجود حکومتوں کومحدود اختیارات کے ساتھ انتخابات کے نتائج تک برقرار رکھا جائے، تو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔جس کی دنیا میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ دراصل سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی عزم اور بصیرت سے جمہوری ادارے (Institutions)کو مضبوط بنانے پر توجہ دیتی ہیں۔اگر ادارے مضبوط ہوجائیں تو پھر نگراں سیٹ اپ جیسے کسی متبادل بندوبست کی ضرورت نہیں رہتی۔
اس سلسلے میں ہمیں بھارت کے انتخابی عمل اور اس کے تجربات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔اول، تاریخی طورپر دونوں ممالک کے عوام کا مزاج، نفسیات اورانداز فکر میںتقریباً یکسانیت پائی جاتی ہے۔دوئم،دونوں ممالک میں برطانوی طرز کا پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے۔سوئم،دونوں ممالک کے آئین کا ماخذ انڈیا ایکٹ1935ء ہے،جس میں ریاستی انتظامی ڈھانچے کو چلانے کا طریقہ کار واضح طور پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھارت میں انتخابی دھاندلیوں کے الزامات تو کئی بار سامنے آئے،لیکن الیکشن کمیشن پر جانبداری کا کبھی کوئی الزام نہیںلگا۔
بھارت 26جنوری1950ء کو جمہوریہ بنا۔اس کے ساتھ ہی وہاں پارلیمان کے ساتھ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو مستحکم بنانے کا عمل بھی شروع ہوا۔عدلیہ کو مرحلہ وار انتظامیہ سے الگ کرکے با اختیاربنانے کا عمل 1960ء کی دہائی میں شروع کیاگیا۔لیکن الیکشن کمیشن کو روز اول ہی سے آزاد، بااختیار اور غیر جانبدار بنانے پر توجہ دی گئی۔1950ء سے1980ء تک بھارت میں الیکشن کمیشن چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میںایک رکنی کمیشن ہواکرتاتھا، جو اپنے معاون عملے کی مدد سے انتخابات کا انعقاد کراتا تھا۔
1980ء کے عشرے میںدو مزید اراکین کے اضافے کے بعد کمیشن تین رکنی ہوگیا ہے۔وہاں انتخابات کی تاریخ کے اعلان اور اسمبلیوں کی تحلیل کے ساتھ ہی بیشتر انتظامی ذمے داریاں آئین کی رو سے الیکشن کمیشن کو منتقل ہوجاتی ہیں۔ ضلع کی سطح تک افسران کے تقرر اور تعیناتی کو الیکشن کمیشن مانیٹر کرتا ہے اور جہاں کہیں اس عمل میں بے قاعدگی نظر آتی ہے، آئین اسے یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اس تقرری کو کالعدم قراردیدے۔اس طرح 63برس کے انتخابی عمل کے دوران وہاں الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر انگشت نمائی نہ ہونے کا بنیادی سبب اس کی بااختیاریت اورغیر جانبداری رہی ہے ۔
اس سلسلے میں دوسراقابل غور نکتہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کا طریقہ کار ہے۔جہاں تک کمیشن کے اراکین کی تقرری کا تعلق ہے تو یہ پارلیمان کا اختیار ہے کہ وہ اتفاق رائے سے اچھی شہرت کے حامل ،غیر جانبدار افراد کا تقرر کرے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اراکین اور سربراہ کا تعلق عدلیہ ہی سے کیوں ہو؟جب کہ کمیشن کا پورا نظام انتظامی نوعیت کا ہوتا ہے۔ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے کمیشن میں جو فیصلے اور اقدامات کیے جاتے ہیں،وہ عدالتی یاJudicial نوعیت کے بجائے انتظامی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ یہاں پھر بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔جہاں اچھی شہرت کے حامل غیر متنازعہ سابقہ سینئر سول سرونٹس کی پارلیمان کی منظوری سے تقرری کی جاتی ہے،جنھیں انتظامی امور چلانے کا تجربہ ہو۔البتہ تقرری سے قبل ان کے کوائف کی اچھی خاصی چھان پھٹک کرلی جاتی ہے اور اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ مگر ایک بار معینہ مدت کے لیے انتخاب کے بعد ہرسیاسی جماعت کمیشن کے قوانین اوراحکامات کی تعمیل کرنے کی پابند ہوتی ہے۔
پاکستان میں معاملہ مختلف ہے۔ہمارے یہاں بیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کے انتخاب کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کی تو کوشش کی گئی ہے،مگر اس کے اختیارات کا تعین واضح نہیں ہے۔ وہ کسی ضلع میں انتظامی یا پولیس افسر کو شکایت موصول ہونے پر تبدیل کرسکتا ہے اور نہ جانبدارانہ تقرریوں اور تعیناتیوں کو کالعدم قرار دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ نچلی سطح پر انتخابات کے انعقاد کے لیے وہ ضلعی عدلیہ اور محکمہ تعلیم سے عملہ لینے پر مجبور ہے۔
اس سلسلے میں بھی کوئی معقول مکینزم ترتیب نہیں دیا جاسکاہے۔تجربات یہ بتاتے ہیں کہ ریٹرننگ افسر مقرر ہونے والے ضلعی ایڈیشنل جج صاحبان انتظامی موشگافیوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے انتخابی عمل کے دوران پیداہوانے والے بعض مسائل کا فوری اور موثر تدارک نہیں کرپاتے۔اس کے علاوہ پولنگ اسٹیشنوںپر تعینات اساتذہ بہت جلد سیاسی جماعتوں کے دبائومیں آجاتے ہیں۔ خاص طورپر دیہی علاقوں میں اسکول اساتذہ علاقے کی بااثر شخصیت کے زیر اثر ہوتے ہیںاور اس کے غیرقانونی اقدامات کے خلاف ان میںاستقامت دکھانے assert کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ یوں انتخابات کے روز دھاندلی پرقابو پانا ،موجودہ طریقہ کار میں مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔
ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ دھاندلی صرف جعلی ووٹ بھگتانا نہیں ہے، بلکہ اس کے کئی مدارج ہیں،جو قبل از انتخابات شروع ہوکر بعد از انتخابات جاری رہتی ہے۔ قبل از انتخابات اور بعض ازانتخابات دھاندلیوںکو قانون سازی اوران قوانین پر عمل عملدرآمدکے ذریعے باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔ لیکن انتخابات کے روز ہونے والی دھاندلیوںپرقابوپانے کے لیے ایک مربوط انتظامی مکینزم کی ضرورت ہوتی ہے،جو انتظامی ڈھانچے کو متحرک اور فعال کیے بغیر ممکن نہیںہوتی۔
حالیہ دنوں میں الیکشن کمیشن نے بعض اچھے اقدامات کیے ہیں،جن کے نتیجے میں قبل از انتخابات(Pre-Election)دھاندلیوں پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔جن میں نادرا کے تعاون سے انتخابی فہرستوں کی تیاری، امیدواروں کے نامزدگی فارم میں تبدیلیاں اور امیدواروں کی اسکروٹنی کا طریقہ کار وغیرہ۔ لیکن الیکشن کے روز ہونے والی دھاندلیوں کو روکنے کی کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آسکی ہے۔خاص طور پر وہ تمام پولیس اور انتظامی افسران جن کی حالیہ دنوں میںسیاسی بنیادوں پر تقرری اور تعیناتی کی گئی ہے،ان کی تقرری کو کالعدم قرار دینے اور ان کی انتخابی عمل میں مداخلت روکنے کے سلسلے میں کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آسکی ہے۔
غلطیاںانسان سے ہوتی ہیں۔زندگی کاکوئی ایساشعبہ ایسا نہیں، جہاں خامی یاکجی کاکوئی نہ کوئی پہلو نہ نکلتاہو۔ مگرانسان اپنی عقل ودانش، فہم وفراست اور تجربات سے ان خامیوں،کوتاہیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یہی وہ فکری ارتقاء ہے،جس نے معاشرتی ارتقاء کی بنیاد رکھی۔ اس لیے غلطیوں سے پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان رویوںپر تشویش ہونا چاہیے، جوغلطیوں سے سیکھنے کے بجائے ان کے تسلسل پر اصرار کرتے ہیں۔پاکستان میںپہلی بار ایک منتخب پارلیمان اورحکومت اپنی طبعی مدت پوری کرنے کے بعد ختم ہوئی ہے اور دوسری منتخب پارلیمان اور حکومت اس کی جگہ لینے کے مراحل میں ہے۔سیاسی جماعتوں نے اس عمل کو شفاف بنانے کی اپنے تئیں پوری کوشش کی ہے۔
جو ان کی دانست میں بہتر تھے، مگر وقت ،حالات اور تجربات نے ثابت کیا کہ ان میں ان گنت سقم اور خامیاں موجود ہیں۔ اس لیے یہ اگلی پارلیمان کی ذمے داری ہے کہ وہ ان خامیوں اور نقائص کو دور کرنے پر توجہ دے اور انتخابی عمل کومزید شفاف بنانے کی کوشش کرے۔اس کے علاوہ دوسرے ممالک خاص طور پڑوسی ممالک کے تجربات سے استفادہ بھی کیا جانا چاہیے۔اس طرح انتخابی عمل میںپائی جانے والی خامیوں، رکاوٹوں اورکمزوریوں پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔یہ طے ہے کہ اگراستقامت کادامن نہ چھوڑاجائے توکامیابی یقینی ہوتی ہے۔