زمانے کے انداز بدلے گئے
پھر انتظار صاحب کے کالم سے پتہ چلا کہ خبر سچ تھی۔
20 مارچ کی سہ پہر میں ندیم ہاشمی کے آفس میں بیٹھی تھی کہ اچانک انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس لاہور سے ایس ۔ایم۔ایس آیا ہے کہ خالد احمد کا انتقال ہوگیا ہے، ندیم ہاشمی نے مجھ سے بھی تصدیق چاہی کہ کیا مجھے علم ہے؟ میں نے تاسف کے ساتھ خبر سنی اور اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ گھر آکر رات کو ٹی وی پر خبرنامہ بطور خاص اس لیے سنا کہ شاید اس خبر کی تصدیق ہوسکے۔ لیکن سناٹا تھا۔ پھر اگلے دن صبح کے اخبار دیکھے تب بھی کچھ نہ تھا۔
پھر انتظار صاحب کے کالم سے پتہ چلا کہ خبر سچ تھی۔ میری طرح بہت سارے لوگوں کو بھی اسی کالم سے پتہ چلا کہ حاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور کے چھوٹے بھائی بہت پڑھے لکھے اور صاحب علم خالد احمد بھی رخصت ہوئے۔ لیکن کہیں ذکر نہیں۔ ہوسکتا ہے لاہور کے اخباروں میں خبر چھپی ہو؟ کہ ہم نے اپنی تنگ نظری کی وجہ سے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی بھی صوبائی تقسیم کرلی ہے؟ اور صوبائی سے زیادہ علاقائی تقسیم؟ جو جس شہر میں زندگی کی آخری سانس لے گا صرف وہیں کے اخباروں میں خبر چھپے گی؟ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا، بڑے بڑے لکھنے والے لابنگ اور پبلک ریلیشننگ نہ ہونے کی وجہ سے چپ چاپ مرجاتے ہیں۔ جیسے 18مارچ کو معروف بزرگ شاعر جناب امیرالاسلام ہاشمی صاحب کا انتقال ہوا تو راشد اشرف نے خبر دی۔ لیکن اخبارات میں بالکل خاموشی تھی۔ ہاں البتہ ان کا تعلق شوبز سے ہوتا تو تمام چینلز بریکنگ نیوز کے طور پر بھی خبر دیتے اور Ticker بھی چلواتے۔ ایک ادیب، دانشور ور، شاعر، استاد، کالم نگار اور عالم کی اس سوسائٹی میں کیا اہمیت ہے؟ یہ سب جانتے ہیں۔
اب یہی دیکھ لیجیے کہ معروف کالم نگار، ادیب اور شاعر انور احسن صدیقی کا انتقال ہوا تو قریب ترین دوستوں کو خبر نہ ہوئی، کیونکہ وہ بہت اناپرست اور خوددار انسان تھے۔ وہ دوسروں کی طرح شہرت کا کاسہ گدائی لیے ہر چینل پر دستک نہیں دیتے تھے، لیکن ہمارے میڈیا نے انھیں یکسر نظرانداز کیا۔ ان کی آپ بیتی ''دل پر خون کی اک گلابی سے'' انتقال کے بعد ان کے بھتیجے آصف فرخی نے شایع کی۔ ان سے پہلے حسن ظہیر اسی طرح گمنامی کی موت مرگئے۔ حسن ظہیر کی وفات کے بعد پہلا کالم میں نے لکھا ۔افتخار اجمل شاہین اپنے گھر میں مردہ پائے گئے، مگر خبر کہیں نہیں چھپی۔ پھر کسی نے کالم میں ذکر کیا تو لوگوں کو علم ہوا۔
جب کہ ان کی تو اپنی لابی بھی تھی اور اپنے خاص علاقے کے لوگوں سے ٹھیک ٹھاک ربط ضبط بھی۔ مگر موت کے بعد دوست احباب بھی اسی کو پوچھتے ہیں جس کے خاندان سے کچھ فائدے کی امید ہو۔ معروف سفرنامہ نگار پروفیسر یاسین معصوم کو بھی نظرانداز کیا گیا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے یہ گلہ ناجائز تو نہیں؟ بہت سارے لوگوں کو اس رویے کی شکایت کرتے سنا ہے۔ پچھلے دنوں اسلام آباد میں ایک معروف افسانہ نگار اور سرکاری افسر نے بھی یہی شکایت کی کہ جو ادیب و شاعر ٹیلی ویژن اسکرین پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں، کتابیں بھی انھی کی پبلشر چھاپتے ہیں، بیرونی دوروں پر بھی انھی کو بھیجا جاتا ہے۔ انڈیا میں کوئی کانفرنس ہو تو بھی وہی جاتے ہیں، امریکا، برطانیہ اور کینیڈا تو جیسے ان کے لیے گھر آنگن ہیں۔ ادیبوں اور شاعروں کے علاوہ بہت سے دوسرے افراد جنھیں کسی بزنس ٹائیکون یا کسی سیاسی شخصیت کی آشیرواد حاصل ہوتی ہے بیرون دورے بھی ان کے لیے ''بوجوہ'' بروقت منتظر رہتے ہیں ۔
کیا زمانہ بدل گیا ہے، پہلے بازار مخصوص تھے، راجے مہاراجے اور نوابین انھیں اپنی خاص محفلوں میں بلاتے تھے، لیکن خواتین کو اس محفل میں شریک ہونے کی اجازت نہیں تھی، کیونکہ وہ خواتین ایک تہذیب یافتہ معاشرے کی نمایندہ تھیں، گھنگھروؤں کی کھنک اور رقص کی لچک مخصوص عورتوں کا پیشہ تھا، لیکن انھیں عام محفلوں میں پذیرائی نہیں ملتی تھی نہ ہی وہ گھریلو خواتین کی ہمسری کرسکتی تھیں، لیکن اگر تائب ہوکر کسی شریف زادے سے نکاح کرلیتی تھیں تو ساری زندگی وفا کی پتلی بن کر گزار دیتی تھیں، لیکن اب ترجیحات بدل گئی ہیں۔ اب بدکردار عورتیں سروں پر ناچ رہی ہیں، دھمال کے نام پر آبرو باختہ عورتیں بلوائی جاتی ہیں، وہ اپنا انگ انگ پھڑکاکر شرافت اور شرم و حیا کی دھجیاں بکھیرتی ہیں اور ہمارے سیاستدان اسے ''اپنی ثقافت'' کہتے ہیں۔
پتہ نہیں فحاشی کی حد کہاں ختم ہوتی ہے اور ثقافت کی کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ آج نو دولتیہ اور برگر فیملی کی عورتیں اور لڑکیاں جس طرح کا لباس پہنتی ہیں، جیسا دھمال ڈالتی ہیں، جس طرح کھلے عام آزادانہ طور پر کلبوں میں ڈانس کرتی ہیں، کیا وہ مسلم معاشرت کی عکاسی کرتی ہیں؟ یا ان عورتوں کو مات کرتی ہیں جو مجبوراً پاؤں میں گھنگھرو باندھنے پر مجبور ہوتی ہیں؟ سعید احمد صدیقی جیسے بزرگ کالم نگار اور تحریک پاکستان کے کارکن چپ چاپ مرجائیں گے ۔ پچھلے دنوں لندن میں مقیم ایک گلوکارہ کی شادی اور طلاق کی خبریں چینل پر اتنے تواتر سے اور اتنی بار دہرائی گئیں کہ جیسے پاکستان کا اصل مسئلہ یہی ہو۔ میاں بیوی کے درمیان چپقلش کو جس طرح ہائی لائٹ کیا گیا وہ کسی بھی سمجھدار انسان نے پسند نہیں کیا۔ بعض اندر کے لوگوں نے بتایا کہ یہ خبر Paid ہے۔ بعض نے اس کے پیچھے کسی وزیر کا ہاتھ بتایا۔ بہرحال جو کچھ بھی تھا معیوب تھا۔
میں ذاتی طور پر الیکٹرانک میڈیا کے ذمے داران سے ایک سوال پوچھتی ہوں کہ مانا پیسہ بہت اہم ہے، لیکن سب کچھ نہیں، آج بھی دنیا بھر میں شرافت، ایمانداری اور بلند کردار کے حامل کو سراہا جاتا ہے، تو پھر معیار کیوں تبدیل ہوگیا ہے، آج نئی نسل کے رول ماڈل محمد علی جناح، لیاقت علی خان، ابوالکلام آزاد، بھگت سنگھ، بہادریار جنگ، مولانا محمد علی جوہر اور فاطمہ جناح نہیں بلکہ فلمی اداکار اور اداکارائیں ہیں۔ کیٹ واک کرتی ماڈلز ہیں ۔ خدا کے لیے بس کیجیے اور اہل علم کی قدر کیجیے اس اہل علم و ادب کی جو ٹی وی اسکرین پر جلوہ گر نہیں ہوتا بلکہ اپنی انا کے خول میں بند گھر میں بیٹھا اپنے قلم سے حروف کے موتی بکھیرتا رہتا ہے اور زمانے کی بے قدری کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے دیکھتے چپ چاپ موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔
اس کے لیے کہیں کوئی تعزیتی ریفرنس نہیں ہوتا، کوئی آرٹس کونسل اس کی یاد میں کوئی پروگرام نہیں کرتا۔ یہ بے حسی اور بے ایمانی اب ہر شعبے میں نمایاں نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ نااہل لوگ براجمان ہیں۔ ادبی اور ثقافتی اداروں کے سربراہ ایسے لوگ بنے بیٹھے ہیں جن کا علم وادب اور ثقافت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ نہ وہ ادیب ہیں نہ شاعر نہ گلوکار نہ موسیقار نہ مجسمہ ساز نہ مصور نہ لوک فنکار۔ لیکن سفارش اور تعلقات کی بناء پر وہاں بیٹھے ہیں جہاں کسی پڑھے لکھے اور قابل انسان کو ہونا چاہیے تھا۔ یہ جعلی منصب یونہی حاصل نہیں کرلیے جاتے بلکہ ''کھاؤ پیو، عیش کرو'' کے اصول کے تحت چھینے جاتے ہیں۔ کسی ادارے کا سربراہ بننے سے پہلے اس شخص کا رہن سہن دیکھئے اور منصب حاصل کرنے کے بعد کے جلوے دیکھئے۔
آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ ڈونیشن، گورنمنٹ کے فنڈ اور گرانٹ کی بدولت ایک ہی سال میں اپارٹمنٹ سے شہر کے مہنگے ترین علاقے میں جاتے دیر نہیں لگتی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اکیلے مت کھاؤ، سب کو کھلاؤ۔ تاکہ وہ سب تمہاری ہر بات پر آمنا و صدقنا کہنے کے لیے تیار رہیں۔ نااہل آدمی اپنے گرد ہمیشہ خوشامدی ٹولہ رکھتا ہے تاکہ اس کی جہالت اور نااہلی چھپی رہے۔ ہر جگہ گول خانے میں چو کھونٹی چیز نصب ہے اسی لیے ہر طرف خلا ہے اور اس خلا کو ہر جگہ بدطینت اور لالچی لوگوں سے پر کیا جاتا ہے تاکہ قابل اور صاحب علم و ادب سامنے نہ آسکیں۔ سیاست، ادب، کھیل، ثقافت ہر جگہ گھس بیٹھئے موجود ہیں۔ اسی لیے اخلاقی اور سماجی اقدار کا جنازہ نکل رہا ہے۔
پھر انتظار صاحب کے کالم سے پتہ چلا کہ خبر سچ تھی۔ میری طرح بہت سارے لوگوں کو بھی اسی کالم سے پتہ چلا کہ حاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور کے چھوٹے بھائی بہت پڑھے لکھے اور صاحب علم خالد احمد بھی رخصت ہوئے۔ لیکن کہیں ذکر نہیں۔ ہوسکتا ہے لاہور کے اخباروں میں خبر چھپی ہو؟ کہ ہم نے اپنی تنگ نظری کی وجہ سے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی بھی صوبائی تقسیم کرلی ہے؟ اور صوبائی سے زیادہ علاقائی تقسیم؟ جو جس شہر میں زندگی کی آخری سانس لے گا صرف وہیں کے اخباروں میں خبر چھپے گی؟ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا، بڑے بڑے لکھنے والے لابنگ اور پبلک ریلیشننگ نہ ہونے کی وجہ سے چپ چاپ مرجاتے ہیں۔ جیسے 18مارچ کو معروف بزرگ شاعر جناب امیرالاسلام ہاشمی صاحب کا انتقال ہوا تو راشد اشرف نے خبر دی۔ لیکن اخبارات میں بالکل خاموشی تھی۔ ہاں البتہ ان کا تعلق شوبز سے ہوتا تو تمام چینلز بریکنگ نیوز کے طور پر بھی خبر دیتے اور Ticker بھی چلواتے۔ ایک ادیب، دانشور ور، شاعر، استاد، کالم نگار اور عالم کی اس سوسائٹی میں کیا اہمیت ہے؟ یہ سب جانتے ہیں۔
اب یہی دیکھ لیجیے کہ معروف کالم نگار، ادیب اور شاعر انور احسن صدیقی کا انتقال ہوا تو قریب ترین دوستوں کو خبر نہ ہوئی، کیونکہ وہ بہت اناپرست اور خوددار انسان تھے۔ وہ دوسروں کی طرح شہرت کا کاسہ گدائی لیے ہر چینل پر دستک نہیں دیتے تھے، لیکن ہمارے میڈیا نے انھیں یکسر نظرانداز کیا۔ ان کی آپ بیتی ''دل پر خون کی اک گلابی سے'' انتقال کے بعد ان کے بھتیجے آصف فرخی نے شایع کی۔ ان سے پہلے حسن ظہیر اسی طرح گمنامی کی موت مرگئے۔ حسن ظہیر کی وفات کے بعد پہلا کالم میں نے لکھا ۔افتخار اجمل شاہین اپنے گھر میں مردہ پائے گئے، مگر خبر کہیں نہیں چھپی۔ پھر کسی نے کالم میں ذکر کیا تو لوگوں کو علم ہوا۔
جب کہ ان کی تو اپنی لابی بھی تھی اور اپنے خاص علاقے کے لوگوں سے ٹھیک ٹھاک ربط ضبط بھی۔ مگر موت کے بعد دوست احباب بھی اسی کو پوچھتے ہیں جس کے خاندان سے کچھ فائدے کی امید ہو۔ معروف سفرنامہ نگار پروفیسر یاسین معصوم کو بھی نظرانداز کیا گیا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے یہ گلہ ناجائز تو نہیں؟ بہت سارے لوگوں کو اس رویے کی شکایت کرتے سنا ہے۔ پچھلے دنوں اسلام آباد میں ایک معروف افسانہ نگار اور سرکاری افسر نے بھی یہی شکایت کی کہ جو ادیب و شاعر ٹیلی ویژن اسکرین پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں، کتابیں بھی انھی کی پبلشر چھاپتے ہیں، بیرونی دوروں پر بھی انھی کو بھیجا جاتا ہے۔ انڈیا میں کوئی کانفرنس ہو تو بھی وہی جاتے ہیں، امریکا، برطانیہ اور کینیڈا تو جیسے ان کے لیے گھر آنگن ہیں۔ ادیبوں اور شاعروں کے علاوہ بہت سے دوسرے افراد جنھیں کسی بزنس ٹائیکون یا کسی سیاسی شخصیت کی آشیرواد حاصل ہوتی ہے بیرون دورے بھی ان کے لیے ''بوجوہ'' بروقت منتظر رہتے ہیں ۔
کیا زمانہ بدل گیا ہے، پہلے بازار مخصوص تھے، راجے مہاراجے اور نوابین انھیں اپنی خاص محفلوں میں بلاتے تھے، لیکن خواتین کو اس محفل میں شریک ہونے کی اجازت نہیں تھی، کیونکہ وہ خواتین ایک تہذیب یافتہ معاشرے کی نمایندہ تھیں، گھنگھروؤں کی کھنک اور رقص کی لچک مخصوص عورتوں کا پیشہ تھا، لیکن انھیں عام محفلوں میں پذیرائی نہیں ملتی تھی نہ ہی وہ گھریلو خواتین کی ہمسری کرسکتی تھیں، لیکن اگر تائب ہوکر کسی شریف زادے سے نکاح کرلیتی تھیں تو ساری زندگی وفا کی پتلی بن کر گزار دیتی تھیں، لیکن اب ترجیحات بدل گئی ہیں۔ اب بدکردار عورتیں سروں پر ناچ رہی ہیں، دھمال کے نام پر آبرو باختہ عورتیں بلوائی جاتی ہیں، وہ اپنا انگ انگ پھڑکاکر شرافت اور شرم و حیا کی دھجیاں بکھیرتی ہیں اور ہمارے سیاستدان اسے ''اپنی ثقافت'' کہتے ہیں۔
پتہ نہیں فحاشی کی حد کہاں ختم ہوتی ہے اور ثقافت کی کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ آج نو دولتیہ اور برگر فیملی کی عورتیں اور لڑکیاں جس طرح کا لباس پہنتی ہیں، جیسا دھمال ڈالتی ہیں، جس طرح کھلے عام آزادانہ طور پر کلبوں میں ڈانس کرتی ہیں، کیا وہ مسلم معاشرت کی عکاسی کرتی ہیں؟ یا ان عورتوں کو مات کرتی ہیں جو مجبوراً پاؤں میں گھنگھرو باندھنے پر مجبور ہوتی ہیں؟ سعید احمد صدیقی جیسے بزرگ کالم نگار اور تحریک پاکستان کے کارکن چپ چاپ مرجائیں گے ۔ پچھلے دنوں لندن میں مقیم ایک گلوکارہ کی شادی اور طلاق کی خبریں چینل پر اتنے تواتر سے اور اتنی بار دہرائی گئیں کہ جیسے پاکستان کا اصل مسئلہ یہی ہو۔ میاں بیوی کے درمیان چپقلش کو جس طرح ہائی لائٹ کیا گیا وہ کسی بھی سمجھدار انسان نے پسند نہیں کیا۔ بعض اندر کے لوگوں نے بتایا کہ یہ خبر Paid ہے۔ بعض نے اس کے پیچھے کسی وزیر کا ہاتھ بتایا۔ بہرحال جو کچھ بھی تھا معیوب تھا۔
میں ذاتی طور پر الیکٹرانک میڈیا کے ذمے داران سے ایک سوال پوچھتی ہوں کہ مانا پیسہ بہت اہم ہے، لیکن سب کچھ نہیں، آج بھی دنیا بھر میں شرافت، ایمانداری اور بلند کردار کے حامل کو سراہا جاتا ہے، تو پھر معیار کیوں تبدیل ہوگیا ہے، آج نئی نسل کے رول ماڈل محمد علی جناح، لیاقت علی خان، ابوالکلام آزاد، بھگت سنگھ، بہادریار جنگ، مولانا محمد علی جوہر اور فاطمہ جناح نہیں بلکہ فلمی اداکار اور اداکارائیں ہیں۔ کیٹ واک کرتی ماڈلز ہیں ۔ خدا کے لیے بس کیجیے اور اہل علم کی قدر کیجیے اس اہل علم و ادب کی جو ٹی وی اسکرین پر جلوہ گر نہیں ہوتا بلکہ اپنی انا کے خول میں بند گھر میں بیٹھا اپنے قلم سے حروف کے موتی بکھیرتا رہتا ہے اور زمانے کی بے قدری کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے دیکھتے چپ چاپ موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔
اس کے لیے کہیں کوئی تعزیتی ریفرنس نہیں ہوتا، کوئی آرٹس کونسل اس کی یاد میں کوئی پروگرام نہیں کرتا۔ یہ بے حسی اور بے ایمانی اب ہر شعبے میں نمایاں نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ نااہل لوگ براجمان ہیں۔ ادبی اور ثقافتی اداروں کے سربراہ ایسے لوگ بنے بیٹھے ہیں جن کا علم وادب اور ثقافت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ نہ وہ ادیب ہیں نہ شاعر نہ گلوکار نہ موسیقار نہ مجسمہ ساز نہ مصور نہ لوک فنکار۔ لیکن سفارش اور تعلقات کی بناء پر وہاں بیٹھے ہیں جہاں کسی پڑھے لکھے اور قابل انسان کو ہونا چاہیے تھا۔ یہ جعلی منصب یونہی حاصل نہیں کرلیے جاتے بلکہ ''کھاؤ پیو، عیش کرو'' کے اصول کے تحت چھینے جاتے ہیں۔ کسی ادارے کا سربراہ بننے سے پہلے اس شخص کا رہن سہن دیکھئے اور منصب حاصل کرنے کے بعد کے جلوے دیکھئے۔
آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ ڈونیشن، گورنمنٹ کے فنڈ اور گرانٹ کی بدولت ایک ہی سال میں اپارٹمنٹ سے شہر کے مہنگے ترین علاقے میں جاتے دیر نہیں لگتی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اکیلے مت کھاؤ، سب کو کھلاؤ۔ تاکہ وہ سب تمہاری ہر بات پر آمنا و صدقنا کہنے کے لیے تیار رہیں۔ نااہل آدمی اپنے گرد ہمیشہ خوشامدی ٹولہ رکھتا ہے تاکہ اس کی جہالت اور نااہلی چھپی رہے۔ ہر جگہ گول خانے میں چو کھونٹی چیز نصب ہے اسی لیے ہر طرف خلا ہے اور اس خلا کو ہر جگہ بدطینت اور لالچی لوگوں سے پر کیا جاتا ہے تاکہ قابل اور صاحب علم و ادب سامنے نہ آسکیں۔ سیاست، ادب، کھیل، ثقافت ہر جگہ گھس بیٹھئے موجود ہیں۔ اسی لیے اخلاقی اور سماجی اقدار کا جنازہ نکل رہا ہے۔