تصوف اور ڈی کنسٹرکشن

ڈی کنسٹرکشن اسی خیال کے تحت ’’تکلم‘‘ جو کہ مسیحی، یہودی اور اسلامی الٰہیات کی بنیادوں میں شامل ہے



مختلف اور متضاد فکری و نظری رجحانات کے درمیان مصالحت کی کوشش ہمیشہ ہی سے علمی، فکری اور فلسفیانہ تاریخ کی ایک اہم خصوصیت رہی ہے، تاہم مصالحانہ عمل سے پہلے یہ بات ذہن میں رہنی ضروری ہوتی ہے کہ علمی و فکری نظریات کے درمیان مصالحت کی سب سے موثر اور جامع کوشش وہی ہوتی ہے کہ جس میں مصالحت سے پہلے ان مختلف فکری و نظری رجحانات کے تناظر اور بعد ازاں ان کے درمیان مقولاتی مماثلتوں اور ان مقولات کے تفاعل پر بھی نظر رکھی جائے۔

بیشتر لوگ امتیازات کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف مماثلتوں پر ہی توجہ مرکوز کرتے ہیں، جب کہ علمی و نظری سطح پر وسعت صرف امتیازات کی بدولت ہی عمل میں آتی ہے۔ یعنی اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ مغربی فکر ابھی تک یونانی فلسفے کے حصار سے نہیں نکلی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یونانی اور عہد حاضر کی فکر کے درمیان صرف مماثلتوں پر ہی نظر رکھی جا رہی ہے اور فلسفیانہ مقولات کی وسعت، جو گزشتہ پچیس سو برس سے فیصلہ کن طور پر تبدیل ہو چکی ہے، اسے مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

بیسویں صدی میں انیس سو پچاس کے بعد کچھ ایسے فلسفیانہ رجحانات ہمارے سامنے آتے ہیں کہ جن کے بارے میں چند ماورائیت پسندوں نے یہ تصور کر رکھا ہے کہ یہ عہد قدیم کی متصوفانہ فکر سے کلی مماثلت رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی چند ماورائیت پسندوں نے باطل کا سہارا لے کر محض اپنے عقائد کو تقویت دینے کے لیے اس ناقص علمی رجحان کو پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ماورائیت پسند نہ ہی قدیم متصوفانہ الٰہیات کا ہی حقیقی معنوں میں ادراک کر پائے ہیں اور نہ ہی انھیں بیسویں صدی کے جدید یا مابعد جدید فکری رجحانات ہی کا کچھ علم ہو سکا ہے۔

مغرب میں جب بھی کوئی نیا علمی، فلسفیانہ، فکری یا سائنسی رجحان جنم لیتا ہے تو ہمارے ہاں ماورائیت پسند یہ دعوے کرنے لگتے ہیں کہ فکر کی یہ جہت تو پہلے ہی سے ہمارے ہاں موجود تھی۔ اور حوالے کے لیے مذہبی، متصوفانہ یا قدیم ہندوستانی تصوف کی مثالیں پیش کر دی جاتی ہیں۔ نظر صرف ظاہری لیکن سطحی مماثلتوں پر ہوتی ہے، گہری مقولاتی تفریق یا امتیاز تک پہنچنے کی کچھ کوشش نہیں کی جاتی۔ علمی معاملات میں یہ رویہ انتہائی مہلک ثابت ہوا ہے۔

ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہ تمام رجحانات پہلے ہی سے ہمارے ہاں موجود تھے، تو سماجی، سیاسی اور معاشی ارتقا میں ان ''علمی'' رجحانات نے کوئی فیصلہ کن کردار ادا کیوں نہیں کیا؟ بنظر غور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے دعوے اور متضاد رجحانات میں ''مصالحت'' کرانے کی کوششیں باطل تفہیم کا نتیجہ ہیں۔ جن لوگوں نے اس قسم کے دعوے کیے ہیں وہ خود ان علمی و فکری رجحانات کی تفہیم سے قاصر رہے ہیں۔ بیسویں صدی میں انیس سو پچاس کے بعد ملحدانہ فکر کی نمایندگی کرنے والا جو رجحان سامنے آیا ہے اور جس نے گزشتہ تمام فلسفوں اور متصوفانہ رجحانات میں مضمر گہرے تضادات کو نمایاں کیا ہے اسے ''ڈی کنسٹرکشن'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس رجحان کا بانی الجزائر میں پیدا ہونے والا یہودی فلسفی ژاک دریدا ہے۔

ژاک دریدا کا اصل ہدف مسیحی الٰہیات تھی، جسے اس کے خیال میں مسیحی فلسفیوں نے جدید فلسفے کے نام پر دوبارہ زندہ کر دیا تھا۔ مسیحی الٰہیات یا اس کی روشن خیالی شکل، جسے عقلیت پسند ی کہا جاتا ہے، کا بنیادی مقصد مسیحی تصورِ شناخت کو وسعت دیتے ہوئے مسیحی فکر کو تیقن عطا کرنا تھا۔ یہودی مفکر ژاک دریدا ان بنیادوں کو ہی چیلنج کرنا چاہتا تھا جو مسیحی الٰہیات، منطق اور علم الوجود میں یکساں طور پر موجود تھیں۔ اس سے نہ صرف مسیحی الٰہیات بلکہ ہر قسم کی الٰہیات اور فلسفے سے منسلک تمام اقدار اور تصورات بھی چیلنج سے دوچار ہو جاتے ہیں اور مسیحی تصور شناخت عدم شناخت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

ڈی کنسٹرکشن اسی خیال کے تحت ''تکلم'' جو کہ مسیحی، یہودی اور اسلامی الٰہیات کی بنیادوں میں شامل ہے، کی بجائے'' تحریر'' کو بنیاد بناتی ہے، لیکن وہ تحریر نہیں جو وجود (Being) کی ''موجودگی'' کی اولیت کو تسلیم کرتے ہوئے خود تکلم سے متشکل ہوتی ہے، بلکہ یہ تکلم اور اس کی متعین کردہ تحریر کے درمیان میں ''مکاں'' کو تلاش کرتی ہے، تا کہ الٰہیاتی، متصوفانہ اور فلسفیانہ حاکمیت کے تصور کو لا مرکز کیا جا سکے، یعنی ایک ایسی جگہ جو اثبات کی بجائے مسلسل نفی پر قائم ہو۔ اس ساری فکری ساخت کو ممکن بنانے کے لیے ژاک دریدا ایک فرانسیسی اصطلاح کا استعمال کرتا ہے جسے وہ Differanceکا نام دیتا ہے، یعنی یہ ''ڈیفرانس'' ای سے نہیں بلکہ اے سے ہوتا ہے۔

اور اس ''ڈیفرانس'' کو جب تکلم میں لایا جاتا ہے تو ای اور اے کے مابین فرق کو شناخت نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے تکلم کی معذوری سامنے آتی ہے اور الٰہیات سے منسلک ہر طرح کی اقدار اور تصورات کو ایک کڑے فکری چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تیرھویں صدی کے مسیحی الٰہیاتی مفکر اور فلسفی میسٹر ایکہارٹ کے ذہن میں مسیحی مابعد الطبیعات اور اس کی متصوفانہ اشکال موجود تھیں۔ اس کی کوشش یہ تھی کہ وہ مسیحی مفاہیم کے تحت حقیقتِ عظمیٰ کے اس وجود کی نفی کر دے جس تک مذہبی الٰہیات اور فلسفے کی رسائی ممکن ہے اور اسے ایک نوع کے ''ماورائی وجود'' کی سطح پر لے جائے۔

ایکہارٹ حقیقتِ عظمیٰ کے'' وجود'' سے نہیں بلکہ اس کے ''وجود'' کے ایک مخصوص تصور سے نبرد آزما تھا۔ ڈی کنسٹرکشن کے مفہوم میں 'وجود' کی ایک شکل کی نفی کرتے ہوئے اس کا 'بلند' سطح پر ''اثبات'' اس وجود کو ''متعین'' کرنے ہی کے مترادف ہے۔

لہذا لاتشکیلی طریقۂ کار سے مسیحی مفکر ایکہارٹ کے خیالات کا ابطال لازمی تھا۔ انھی نکات کی بنیاد پر ڈی کنسٹرکشن کی تھیوری عہد حاضر میں الحاد کا سب سے جامع فلسفہ بن کر ابھری۔ عہد حاضر کے اہم ترین فلسفی جرگن ہیبرماس نے ڈی کنسٹرکشن کو یہودی متصوفانہ روایت کو زندہ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے، جب کہ دریدا اس کے جواب میں لکھتا ہے کہ اگر ''محترم'' ڈی کنسٹرکشن کو پڑھنے کی زحمت گوارہ کرتے تو ایسی بات ہرگز نہ کرتے۔ میرے خیال میں لاتشکیل ایک الحادی طریقۂ کار ہے جو ''حقیقتِ عظمیٰ'' کے تصور کی مکمل نفی سے عبارت ہے، خواہ ''حقیقتِ عظمیٰ'' کا یہ تصور مذہبی مفہوم میں تشکیل پائے یا اس کا تعلق قدرے وسیع سطح پر متصوفانہ فکر کے ساتھ ہو۔ مذہبی مفہوم میں حقیقت عظمیٰ کا تصور اثبات کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتا۔

مثال کے طور پر ''حقیقتِ عظمیٰ'' کی ''صفات'' صرف اس کو متعین کرنے کے لیے پیش کی جاتی ہیں، جب کہ ڈی کنسٹرکشن ''تعینات'' کی مکمل نفی سے عبارت ہے۔ اس میں ہر قسم کے تعینات 'التوا' سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈی کنسٹرکشن کا بنیادی مقدمہ مسلسل نفی سے تعلق رکھتا ہے۔ متصوفانہ فکر بھی اپنی ہیئت میں 'نفی' ہی سے عبارت ہے، لیکن اس میں بھی ایک مخصوص لمحے پر ''اثبات'' یا ''انجذاب'' کا عمل میں آنا یقینی ہوتا ہے، اور جس شخص کو ''حقیقتِ عظمیٰ'' کا نظارہ ہوتا ہے اس کا ''موجود'' ہونا لازمی ہے۔ اور ہم یہ پڑھتے اور سنتے آئے ہیں کہ ''صوفیا'' پر اس حقیقت کا انکشاف ہوتا رہتا تھا۔

تاہم دوسری طرف ڈی کنسٹرکشن میں کسی بھی ایسی موجودگی کی نفی کی جاتی ہے جو کسی بھی ماورائی تصور کو خود پر آشکار کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ ڈی کنسٹرکشن میں حاکمیت، مطلق العنانیت، مرکزیت، موجودگی، انکشاف، انجذاب اور اثبات جیسی اصطلاحات کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، جب کہ متصوفانہ یا منفی الٰہیات میں مسلسل نفی کے باوجود نہ صرف یہ کہ ''اثبات'' کا انتظار رہتا ہے بلکہ یہ انتظار ''وصل'' کے بعد پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے، اور اگر یہ نکتہ اٹھا دیا جائے کہ ''اثبات'' یا وصل کے لمحے کی کوئی گنجائش نہیں ہے تو ڈی کنسٹرکشن اور متصوفانہ فکر کے راستے الگ الگ ہو جاتے ہیں۔ اردو کے ماورائیت پسندوں کی اکثریت علمی و فکری اعتبار سے قرونِ وسطیٰ سے آگے نہیں بڑھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں