اشفاق احمد کے ڈرامے جیسی ایک صورت حال
کراچی میں قانون جانے کیا ہے لیکن عملی طور پر کھانے کی ڈشیں پھیلانے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
ویہ صورت حال بالکل اشفاق احمد کے ایک مشہور ڈرامے جیسی ہے۔۔۔۔ اور آپ لوگ ذرا دل تھام کے رکھیئے گا کیونکہ میں جنرل ضیاء الحق کی تعریف و توصیف بھی کی جائے گی۔
میرے دو دوست ایک دوجے کے پڑوسی ہیں۔ مدتوں پہلے انھوں نے ایک ساتھ ہی پلاٹ خریدے تھے اور ایک ساتھ ہی اپنے مکانوں میں منتقل ہوئے تھے۔ بس فرق یہ تھا کہ ایک کا مکان مکمل ہو چکا تھا اور دوسرے کا ادھورا۔ ادھورا اس لیے کہ اس کے پیسے ختم ہو گئے تھے۔ وہ دو کمروں کو کھڑکیاں اور دروازے لگوا کے اٹھ آیا تھا۔ مکان مکمل کرنے میں اسے برسوں لگ گئے۔ جیسے تیسے اس کا مکان تو مکمل ہو گیا لیکن حالات مکمل نہ ہو سکے۔ اس بات کا پتہ مجھے گزشتہ روز چلا۔ اس وقت جب تنویر نے تنہائی میں اپنی سفید پوشی کا دامن اٹھا کے دکھایا تو مجھے وہاں پتھر بندھے ہوئے دکھائی دیے۔ کہنے کو وہ خوشحال گھرانوں کے جلو میں ایک ایسے گھر میں رہتا ہے جس کے ادھورے پن کی مالیت بھی کچھ کم نہیں ہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ وہ بیٹی کا بیاہ رچانے کے لیے اسے ٹکڑوں میں فروخت نہیں کر سکتا۔
ایک بیٹی کے بیاہ کا وقت آیا تو اس نے برسوں میں جو کچھ پس انداز کیا تھا اس کا حساب کتاب کیا اور سینہ پھلا کے میرے پاس چلا آیا کہ آؤ ذرا اب کام کاج میں میرا ہاتھ بٹاؤ۔ میں ایک نکھٹو اور کام چور شخص ہوں۔ کبھی کسی کے کام نہیں آتا لیکن اس کا خیال تھا کہ ان کاموں میں میری مہارت بے مثل ہے۔ اس کی بات ایک حد تک درست بھی تھی کیونکہ کسی اور کا مال ہو تو اسے لٹانا خاصا پر لطف ہوتا ہے۔ یہ کام میں کئی بار کر چکا ہوں۔ آپ بھی کبھی اپنے کسی راشی دوست کے ساتھ کسی بڑے شاپنگ مال جائیں اور اسے شاپنگ کرتے ہوئے دیکھیں۔ آپ جھوم اٹھیں گے۔ ایسے لوگ کھٹا کھٹ ٹرالیوں پر ٹرالیاں بھرتے جاتے ہیں اور کبھی قیمت کا اسٹیکر نہیں دیکھتے۔ وہ اس لیے کہ ان کا ایک عدد مالدار باپ روز مرتا ہے جو ان کے لیے بہت بڑی جائیداد چھوڑ کے جاتا ہے۔ میرے دوست کا باپ اس کے لیے افلاس اور قرض چھوڑ کے مرا تھا اس لیے اس نے ایک ایک پائی کی قدر کی اور اسراف سے دور رہا۔ یہاں تک کہ اس کی ایک پرانی پوٹلی چند لاکھ روپوں سے بھر گئی۔ اب وہ یہ سب کچھ اپنی بیٹی پر لٹانا چاہتا تھا۔
بولا ''تم سرفراز کی بیٹی کی شادی پر آئے تھے ناں؟''۔ سرفراز ہمارے اس مشترکہ دوست کا نام ہے جو اس کے پڑوس میں رہتا ہے اور جو اس کے ساتھ ہی ایک مکمل مکان میں شفٹ ہوا تھا اور پھر اس کی دولت کو انجانے پر لگ گئے تھے۔
میں نے کہا ''ہاں، میں اس کی تمام شادیوں میں آیا تھا۔ بڑی دھوم سے ہوئی تھیں''۔ وہ بولا ''بس ویسا ہی کچھ ہونا چاہیے۔ ایک ذرہ بھی کم نہیں۔ پچیس برس کا روزہ اب کھولنا چاہتا ہوں''۔
سب سے پہلا کام سرفراز کی طرح کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں ہال کی بکنگ تھی۔ ہم تمام ہوٹلز میں گئے لیکن ہوا یہ کہ ہر ایک سے باہر نکلتے وقت ہمارے کان گرم ہوتے تھے اور منہ پر تالا۔ تب ہم نے ڈیفنس فیز 8 والے کلبوں کا رخ کیا۔ ادھر جگہ کا کرایہ کم تھا لیکن باقی تام جھام پھر سے کان گرم کرنے کو کافی تھا۔ جلد ہی ہم اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ کوئی بھی فارمولا استعمال کر لیں ایک زبردست مایوسی اور تابڑ توڑ خجالتیں تنویر کی منتظر ہیں۔ اس کے خوشحال اڑوس پڑوس میں دلہن کے عروسی لباس کا آغاز دو لاکھ سے ہوتا تھا۔ میک اپ30 ہزار، فوٹو گرافی 40 ہزار، اسٹیج ڈیڑھ لاکھ، پھول 35 ہزار، مہندی کا دن ڈیڑھ لاکھ، شادی کے تمبو، میز کرسیاں اور کھانا 18 سو روپے فی کس سے لے کر 3 ہزار روپے تک۔ تنویر اپنے خزانے کے حساب سے ایک امیر آدمی تھا لیکن آج اس کے سارے نوٹوں کا سائز چھوٹا ہو گیا تھا۔
کراچی میں قانون جانے کیا ہے لیکن عملی طور پر کھانے کی ڈشیں پھیلانے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہاں پچاس ڈشوں اور پچیس ڈرنکس والی شادیاں بھی عام ہیں۔ اس صورت حال کی گھمبیرتا کو ہر کوئی سمجھتا ہے پر اس کے حل سے کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔ جن کے پاس مال ہے تو بے حساب ہے، انھیں جگہ نہیں ملتی کہ کہاں کہاں لٹائیں اور کیسے کیسے دکھائیں۔ شادی ایک ایسی تقریب ہے کہ اسے ہر گھر میں ہونا ہے۔ بے حساب مال والوں نے اسے دنوں کی بجائے ہفتوں تک پھیلا دیا ہے۔ یہاں تک کہ اب دعوتی لفافے میں دس تقاریب کے کارڈز بھی دکھائی دے جاتے ہیں۔ یہ معاملہ بہت شان و شوکت والی شادیوں تک محدود نہیں ہے۔ ہر کوئی اس طرف گامزن ہے۔ جب سے پروفیشنلز اور ایونٹ منیجرز اس کاروبار میں کودے ہیں تمام اخراجات کو چار چاند لگ گئے ہیں۔ ان کے کام کو اگر تخلیقی عمل کے طور پر دیکھا جائے تو اس میں وہ ایسا کمال حاصل کر رہے ہیں کہ داد دینے کو جی چاہتا ہے لیکن کیا کیا جائے۔ اس معاشرے کا ایک بڑا حصہ وہ طبقہ ہے جسے ایسی تقاریب کا ہر نیا فن پارہ جیتے جی مار دیتا ہے۔ کتنے ہی زندہ سفید پوش محرومی کی قبر میں دفن ہیں اور باقی ۔۔۔۔ حیرت اور حسرت زدگان اپنی باریوں کے منتظر ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ یہی تو ایک ایسی چیز ہے جس پر حکومت اچھی طرح قابو پا سکتی ہے۔ ماضی میں ایسا ہو چکا ہے۔ جنرل ضیاء کے دور میں شادی کی تقاریب پر سخت پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ کسی بھی قسم کا کھانا کھلانا منع تھا اور تقریب جلد ختم کرنے کا وقت بھی مقرر تھا۔ کھانا نہ کھلانے کی بات کی جائے تو ہزار طرح کی بحث شروع ہو جاتی ہے۔ اس وقت بھی اعتراض کیا گیا تھا لیکن اس دور میں لاکھوں سفید پوش اس کی وجہ سے سکھی بھی ہوئے ہوں گے اور جنرل نے دعائیں بھی سمیٹی ہوں گی۔ ایسا نہیں ہوا تھا کہ اس پابندی کی وجہ سے شادیاں ادھوری رہ گئی تھیں۔ خود اس حقیر کا نکاح بھی مشروب کی ایک حقیر سی بوتل پر ہوا تھا اور لوگ پندرہ منٹ میں فارغ ہو کر گھروں کو لوٹ گئے تھے۔ اگلے روز ولیمے میں البتہ ہم نے ڈنڈی ماری تھی اور بوتل کے ساتھ پھل بھی رکھ دیے تھے۔
بعد میں اس سے ملتی جلتی پابندی نواز شریف کے دور میں بھی رہی لیکن پھر لوگ دھیرے دھیرے چور دروازے تلاش کرتے گئے۔ نکاح ایک جگہ کرتے اور کھانا دوسری جگہ کھلا دیتے یا ڈنر باکس تقسیم کر دیتے۔ پنجاب میں آج بھی ون ڈش کی پابندی ہے اور اس پر عمل بھی ہوتا ہے۔ رات دس بجے شادی ختم ہو جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر مسلم لیگ نون کو اقتدار مل گیا تو ایک بار پھر پورے ملک میں اس قانون پر سختی سے عمل ہو گا کیونکہ ایسی پابندی وہی لگا سکتا ہے جو خود اس پر عمل کرتا ہو۔ جہاں تک مجھے علم ہے شریف برادران کے ہاں شادیاں انتہائی سادگی سے ہوتی ہیں۔
ایسے قوانین بن جائیں تو ڈھیلے ڈھالے عمل درآمد کے باوجود بہت سوں کا بھرم قائم رہتا ہے۔تنویر کا یہی وہ بھرم ہے جسے قائم رکھنے کے لالے پڑے ہیں۔ میں اسے ایک متمول شخص سمجھتا ہوں ، لیکن وہ جس بھونڈے مقابلے میں پھنس گیا ہے وہاں اس کی جیت نہیں ہو رہی۔ ساری عمر اپنا ہاتھ تنگ رکھ کر اس نے جس مشن کے لیے یہ پیسہ جمع کیا تھا وہ اس کے لیے ''امپاسی بل'' بن گیا ہے۔ خاصی بڑی رقم اس کے بینک اکاؤنٹ میں موجود ہے لیکن اپنی بیٹی کو بیس برس سے وہ جو خواب دکھاتا رہا ہے اس رقم سے وہ اس کا بس ایک لمحہ ہی خرید سکتا ہے۔
میں سوچتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ اس کے گھر میں بھی ضرور استانی راحت نام کی ایک بڑھیا رہتی ہو گی جسے دماغ کی نس پھٹ کے مر جانے سے پہلے فہمیدہ کہے گی ''اماں! تجھے سمجھ کیوں نہیں آتی، یہاں کچھ نہیں رکھا ہے، نہ تیری لکڑی کی اس پیٹی میں اور نہ تیری بیٹی میں''۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہرگز نہیں ہے۔ تنویر کے گھر میں جو بیٹی ہے وہ باپ سے کہیں زیادہ سمجھدار ہے۔ تھوڑی دیر پہلے میں اس کے گھر گیا تو اس نے بتایا کہ اس نے بغاوت کر دی ہے اور کہتی ہے مجھے کسی دھوم دھام کی ضرورت نہیں۔ شادی سادگی سے کروں گی۔ لہٰذا اب گھر کے سامنے تمبو لگانے کا پروگرام ہے۔ یوں جس ٹینشن کو وہ بیس برس سے پال رہا تھا اسے ایک سمجھدار بیٹی نے بیس سیکنڈ میں ختم کر دیا ہے۔