دو بزرگوں کا امتحان

ایک اور بڑا اور اہم معاملہ ایسا آزاد، خود مختار اور با اختیار الیکشن کمیشن کے قیام کا تھا

mjgoher@yahoo.com

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تقرری کے اعلان کے بعد بلوچستان پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار خان کھوسو نے نگراں وزیر اعظم کا حلف اٹھا لیا ہے، انھوں نے ملک میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد اور امن و امان کے قیام کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیتے ہوئے اس امر کی بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ ملک میں الیکشن مقررہ وقت پر ہوں گے اور نگراں حکومت کی مدت میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا، نگراں وزیر اعظم نے مزید کہا کہ وہ مختصر کابینہ تشکیل دیں گے جس میں قابل و لائق لوگ ہوں گے، انھوں نے سیاستدانوں سے ملاقاتوں کا بھی عندیہ دیا ہے۔

قومی سیاست میں دانش مندی، فہم و فراست، تدبر اور لچکدار رویوں سے حکومت اور اپوزیشن رہنمائوں کے درمیان اہم قومی معاملات پر باہمی مشاورت سے اتفاق رائے ہو جانا یقیناً ایک اچھی علامت ہے، جس سے جمہوری قدروں کو استحکام ملتا ہے اور اس کا عملی مظاہرہ ہم گزشتہ پانچ برسوں میں متعدد بار دیکھ چکے ہیں، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ یوسف رضا گیلانی کو اتفاق رائے سے وزیر اعظم منتخب کیا گیا جب آئینی ترامیم کا مرحلہ آیا تو پیپلز پارٹی کے ممتاز رہنما رضا ربانی کی قیادت میں قائم پارلیمان کی آئینی کمیٹی جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے نمایندے شامل تھے،17 ویں، 18ویں، 19 ویں اور بیسویں ترامیم بھی باہمی مشاورت و اتفاق رائے سے منظور کیں، پھر قومی مالیاتی ایوارڈ کی منصفانہ تقسیم کے دیرینہ تنازعے کو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے ایک جگہ مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے حل کر لیا۔

ایک اور بڑا اور اہم معاملہ ایسا آزاد، خود مختار اور با اختیار الیکشن کمیشن کے قیام کا تھا جو ملک میں مقررہ وقت پر منصفانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنا سکے اس ضمن ایک غیر متنازعہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا معاملہ بھی حکومت اور اپوزیشن رہنمائوں نے سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہمی مشاورت کے بعد اتفاق رائے سے طے کر لیا اور سب کے لیے انتہائی قابل احترام جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم المعروف ''فخرو بھائی'' کو چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان مقرر کر دیا گیا، ملک بھر کے سیاسی، صحافتی و سماجی حلقوں کی جانب سے ''فخرو بھائی'' کے تقرر کو سراہا گیا اور اس یقین کا برملا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے کہ ان کی سربراہی میں ملک میں پہلی مرتبہ آزادانہ، شفاف اور منصفانہ الیکشن کا انعقاد ممکن ہو سکے گا اور بلا شبہ فخرو بھائی بھی پیرانہ سالی کے باوجود جوانوں جیسے بلند حوصلوں، عزم صمیم اور پوری تندہی کے ساتھ ملک میں منصفانہ و غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے شبانہ روز کام کر رہے ہیں، قوم کو امید ہے کہ فخرو بھائی اپنی منزل پا لیں گے۔

حکومت اور اپوزیشن کے تدبر اور سیاسی بصیرت کا آخری اور نہایت حساس امتحان صوبوں میں نگراں حکومتوں کی تشکیل با لخصوص وفاق میں نگراں وزیر اعظم کا تقرر تھا اگرچہ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تو یہ مرحلہ بغیر کسی تنازعے کے طے پا گیا البتہ پنجاب میں نگراں وزیراعلیٰ کا تقرر آخر میں ہوا۔ جہاں تک نگران وزیر اعظم کے تقرر کا معاملہ تھا تو ہر دو جانب سے تین تین نام تجویز کیے گئے تھے، پیپلز پارٹی نے ڈاکٹر عشرت حسین، میرہزار خان کھوسو، حفیظ شیخ (سابق وزیر خزانہ) کا نام تجویز کیا تھا جب کہ ن لیگ نے جسٹس ناصر اسلم زاہد، رسول بخش پلیجو، جسٹس شاکر اﷲ جان کا نام تجویز کیا تھا، آئینی طریقہ کار کے مطابق وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان پہلے مرحلے میں نگراں وزیر اعظم کا تقرر ہونا تھا، لیکن دونوں شخصیات کسی نام پر متفق نہ ہو سکیں۔


دوسرے مرحلے میں ہر دو جانب سے دو دو افراد کے نام پیپلز پارٹی کی جانب ڈاکٹر عشرت حسین اور میر ہزار خان کھوسو جب کہ ن لیگ کی جانب سے جسٹس ناصر اسلم زاہد اور رسول بخش پلیجو کے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے گئے ان میں سے کسی ایک نام کو نگراں وزیر اعظم کے لیے فائنل کرنا تھا لیکن پارلیمانی کمیٹی میں بھی طویل بحث و مباحثے کے باوجود کسی نام پر اتفاق رائے نہ ہو سکا اور معاملہ آئینی طریقہ کار کے آخری مرحلے میں الیکشن کمیشن کے پاس چلا گیا۔

نگراں وزیر اعظم کا تقرر بلا شبہ نہایت حساس اور سنجیدہ قومی معاملہ تھا اور اسے سیاسی سطح پر ہی طے ہو جانا چاہیے تھا لیکن افسوس کہ پانچ سال تک اہم قومی مسائل پر اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے والے سیاستداں اس نازک مرحلے پر سیاسی بصیرت، بالغ نظری اور برد باری کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے، اگرچہ وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی سطح پر اتفاق رائے مشکل تھا تو کم از کم پارلیمانی کمیٹی میں تو نگراں وزیر اعظم کے نام پر اتفاق رائے ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس کہ سیاستداں اختلافات و تحفظات کی خلیج پاٹنے میں ناکام رہے اور ایک خالصتاً سیاسی معاملہ غیر سیاسی لوگوں کو حل کرنا پڑا، اس حوالے سے سیاسی مبصرین و تجزیہ نگاروں کا اظہار افسوس ناقابل فہم نہیں یعنی اطلاعات کے مطابق ن لیگ نے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے اختتام سے قبل ہی اپنا ذہن بنا لیا تھا کہ نگراں وزیر اعظم کے تقرر کا معاملہ الیکشن کمیشن کی طرف چلا جائے۔

جیسا کہ سابق اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان نے اجلاس کے اختتام سے قبل ہی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہائوس میں کہہ دیا تھا کہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن کی طرف جائے گا، در حقیقت ن لیگ کا غیر لچکدار رویہ ہی ڈیڈ لاک کی اصل وجہ تھی، نتیجتاً معاملہ الیکشن کمیشن کے کورٹ میں چلا گیا، خوش آیند ہوتا اگر الیکشن کمیشن میں اتفاق رائے سے نگراں وزیر اعظم کے لیے کسی نام پر اتفاق ہو جاتا، لیکن مایوسی یہاں بھی آڑے آئی اور الیکشن کمیشن کے چار صوبائی ارکان میں سے ایک یعنی پنجاب کے صوبائی الیکشن کمشنر نے اپنا ووٹ جسٹس ناصر اسلم زاہد کے حق میں دیا جب کہ باقی تینوں صوبوں کے الیکشن کمشنر اور چیف الیکشن کمشنر نے میر ہزار خان کھوسو کو ووٹ دیے، یوں1/4سے میر ہزار خان کھوسو نگراں وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔

اب لازم ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں، صحافتی و سماجی حلقے تنقیدی نشتر چلانے، تحفظات اور اختلاف کو ہوا دینے کی بجائے نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کے ہاتھ مضبوط کریں تا کہ وہ یکسوئی و دلجمعی کے ساتھ درپیش چیلنجوں بالخصوص دہشت گردی، خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ملک کے اہم شہروں کراچی، کوئٹہ، پشاور اور صوبہ بلوچستان میں امن کے قیام کو یقینی بنانے پر اپنی توجہ مرکوز رکھ سکیں، ورنہ ان علاقوں میں انتخابات کا انعقاد مشکل ہو جائے گا، چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم اور نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو دونوں کی حب الوطنی و جذبہ خدمت شک و شبہ سے بالاتر ہیں دونوں کا تعلق عدالتی شعبے سے ہے دونوں حضرات80 سال کے پیٹے میں ہیں لیکن حوصلے جوان ہیں، امن و امان کا قیام اور شفاف الیکشن کا انعقاد دونوں بزرگوں کا اصل امتحان ہے۔
Load Next Story