جاتے جاتے سرکاری نوازشیں اور الیکشن کمیشن
غریب عوام جن کی نمایندگی کا وہ دعویٰ کرتے ہیں ان کا کوئی مسئلہ حل نہ ہوا بلکہ مسائل مزید پیچیدہ اور گھمبیر ہو گئے
2008ء کے انتخابات میں سندھ اسمبلی کے ممبران جو اکثریتی تعداد میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر آئے تھے وہ زیادہ تر دولت مند، وڈیرے اور جاگیردار تھے، ان میں شاید ہی کوئی متوسط طبقے کا ہو گا، باقی جو چند ممبران متحدہ قومی موومنٹ کے تھے وہ درمیانے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے ان نمایندوں کو اﷲ تعالیٰ نے اتنی مال و دولت سے نوازا ہوا ہے کہ انھیں سرکاری تنخواہ الاؤنسز وغیرہ کی ضرورت نہیں تھی، وہ ان کے بغیر آسانی سے گزارہ کر سکتے تھے۔ اپنی اور پارٹی کی شہرت کو چار چاند لگا سکتے تھے لیکن انھوں نے سرکاری خزانے کو جی بھر کر لوٹا، مرکز، صوبہ سندھ اور بلوچستان میں اس پارٹی کی حکومت کی کارکردگی سے سب واقف ہیں۔
غریب عوام جن کی نمایندگی کا وہ دعویٰ کرتے ہیں ان کا کوئی مسئلہ حل نہ ہوا بلکہ مسائل مزید پیچیدہ اور گھمبیر ہو گئے، مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی، لوٹ مار اور کرپشن نے ان کی کمر توڑ دی ہے، لوگ تنگ آ کر خودکشیاں کرنے لگے اور اپنے بچے فروخت کرنے تک پہنچ گئے، جب کہ اس پانچ سالہ دور میں غریبوں کے اس دیس میں غریبوں کے حکمرانوں نے غریبوں کی حالت سدھارنے کی بجائے اپنی دولت و ثروت میں مزید اضافے کر لیے۔ انھوں نے غریب قوم کے بجٹ خسارے والے خزانے پر دل کھول کر لوٹ مار کی، یہ دوران کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا اور یہ اسمبلی کی ممبری سونے کی کان نکلی، اس پانچ سالہ لوٹ مار سے بھی ان کی بھوک نہ مٹی تو انھوں نے اسمبلی کے آخری دن اپنی اکثریت کے بل بوتے پر اپنے لیے خود ہی بے تحاشہ مالی فوائد منظور کر لیے۔ جس کی متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ فنکشنل، نیشنل پیپلز پارٹی اور دیگر پارٹیوں پر مشتمل کمزور حزب اختلاف نے سخت مخالفت کی اور واک آئوٹ بھی کیا لیکن بے سود، سرمایہ دار دولت مند جاگیردار وڈیرے ممبران اسمبلی اکھٹے ہو کر اپنے لیے ان سہولتوں کو خود ہی منظور کر کے اس غریب صوبے کے کمزور خزانے پر کروڑوں روپے کا بوجھ ڈال کر گھی کے چراغ چلانے میں کامیاب ہو گئے۔
آئیں دیکھیں اور حیران ہوتے جائیں کہ جاتے جاتے ان بھوک کے مارے وڈیروں، جاگیرداروں اور پہلے سے دولت مند ممبران اسمبلی نے کیا مثالیں قائم کیں۔
(1)اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وزیر اعلیٰ، وزراء اور اسپیشل اسسٹنٹس اور ممبران اسمبلی نے تنخواہوں، الائونسز اور دیگر مالی سہولتوں میں از خود ہی 60% اضافہ یکم جولائی2011ء سے کر لیا، یعنی گزشتہ دو سال کے بقایاجات بھی لے کر جائیں گے، اس طرح فوراً سرکاری خزانے پر کروڑوں روپے کا بوجھ پڑے گا، مزید یہ کہ تفریحی الائونس اور ٹریولنگ کی رقم40 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ 20 ہزار کر دی گئی ہے اور جیب خرچ کے لیے نقد رقم30 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کر دی گئی ہے۔ اراکین اسمبلی کو ایئر پورٹ پر VIP لائونج اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے بلیو پاسپورٹ کی سہولت نیز 4 ہتھیاروں کے لائسنس ملیں گے، کسی رکن کی وفات کی صورت میں یہ مراعات اس کی بیوہ یا شوہر کو بھی ملیں گی۔
(2) اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور وزیراعلیٰ کو تنخواہ، الائونسز، گریجویٹی اور دیگر مالی فوائد جو اس اضافے کے بعد ملیں گے ان کا70% ان کو تاحیات ہر ماہ ملے گا، نیز گریڈ17 کا ایک پرائیویٹ سیکریٹری، ایک ڈرائیور، ایک باورچی، ایک مالی، ایک سینٹری ورکر، پولیس گارڈ کی سیکیورٹی بھی تا حیات ملے گی، 10,000روپے ماہانہ ٹیلی فون بھی ملے گا، اس طرح آیندہ بھی لاکھوں روپے کا خرچہ سرکاری خزانے پر پڑتا رہے گا۔
(3)آخری دنوں میں آیندہ انتخابات میں اپنی جیت پکی کرنے کے لیے علاقے کے ووٹروں کو ملازمتیں بانٹی گئی ہیں اور تقریباً ایک لاکھ ملازمتوں کو کنفرم کیا گیا ہے، تمام محکموں میں اپنے حامیوں کو خوش کرنے کے لیے اچھی جگہ ٹرانسفر کیا گیا ہے اور پروموشن سے نوازا گیا ہے۔
(4) سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ شاہ زیب قتل کیس میں اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر تبدیل کر کے شاہ رخ جتوئی کے گائوں کے رہائشی پبلک پراسیکیورٹر کو لگا دیا گیا ہے، قریبی تعلقات رکھنے والے شخص کو پبلک پراسیکیوٹر تعینات کرنا انصاف کے قتل کے مترادف ہے، خدا کا شکر ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اس نا انصافی کا نوٹس لے کر اس آرڈر کو معطل کر دیا ہے۔
یہ تو رہا صوبہ سندھ کی حکومت کا حال! اب مرکز کی طرف آیئے جہاں پیپلز پارٹی ہی کی حکمرانی ہے، وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے قومی اسمبلی کے آخری دن اپنے حامیوں کو خوش کرنے کے لیےCNG اسٹیشن کے70 لائسنس جاری کر دیے ہیں، بہت سے افراد کو نیشنل بینک میں ملازمت دینے کے احکامات جاری ہوئے ہیں، من پسند افراد کی دلجوئی کے لیے آئوٹ آف ٹرن ترقیوں سے نوازا گیا ہے، غیر مستحق افراد کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا ہے اور کئی سرکاری افسران کو اسلام آباد میں ایک ایک کنال کے پلاٹ الاٹ کیے گئے ہیں۔قومی اسمبلی کی اسپیکر جو خود ایک دولت مند اور صنعتی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں نے بھی تا حیات سرکاری سہولتیں جن میں میڈیکل بل، ٹیلیفون آپریٹر، چپراسی،1600سی سی کار بمعہ ڈرائیور نیز ایک لاکھ نقد ماہانہ خود ہی منظور کر لی ہیں۔
یہ آخری دنوں اپنے لیے سرکاری خزانہ سے مالی فوائد منظور کر کے پیپلز پارٹی کے حکمرانوں نے نہ صرف اپنے لیے کوئی نیک نامی نہیں کمائی بلکہ پہلے سے خراب شہرت کو مزید داغدار کر لیا ہے۔ہمارے حکمران، سیاستدان، قومی خزانے کو دیکھے بغیر الیکشن جیتنے کے لیے دھرا دھڑ نوکریاں بانٹ رہے ہیں حالانکہ یہ کام ان کو پانچ سال کے اندر کرنا چاہیے تھا، اس وقت یہ سوئے رہے اب آخری دنوں میں جاگے ہیں بغیر سوچے سمجھے اور ملازمتیں پیدا کیے بغیر مختلف اداروں پر یہ جو بوجھ ڈالا جا رہا ہے ادارے پہلے ہی کمزور اور بحران کا شکار ہیں اب ان کا مزید برا حال ہو جائے گا، لیکن افسوس ان حکمرانوں کو اپنے اداروں پر ذرہ بھی ترس نہیں آ رہا، ملازمتوں کا بوجھ ڈال کر ان کا سانس بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ملازمتیں ضرور دینی چاہئیں لیکن پہلے وسائل اور مواقعے پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
ہمارے ان حکمرانوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ سرکاری خزانہ صرف ان کے لیے ہے، مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پسنے والے باقی غریب، غرباء جائیں بھاڑ میں، ان کا سرکاری خزانے پر کوئی حق نہیں ہے، عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کے دلاسے کے نعرے میں مست کر کے غربت کے اندھیروں میں پھینک دیا ہے اور ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں اور فاقہ کشی کا شکار ہو گئے ہیں لیکن یہ دولت مند ممبران اسمبلی جاتے جاتے بھی غریب حکومت کے خزانے کو کروڑوں کا ٹیکہ لگاکر جا رہے ہیں۔الیکشن کمیشن اور آنیوالی کیئر ٹیکر گورنمنٹ سے عوام ضرور چاہیں گے کہ آخری دنوں میں ممبران اسمبلی نے جو مراعات بڑھائی ہیں انھیں منسوخ کیا جائے، نیز گزشتہ ایک دو ماہ میں جو ملازمتیں دی گئی ہیں یا ترقیاں دی گئی ہیں اور ٹرانسفر پوسٹنگ کی گئی ہیں وہ انتخابات پر اثر انداز ہوں گی جو پری پول رگنگ ہے، اس لیے ان سب کو منسوخ کیا جائے تا کہ انتخابات منصفانہ انداز میں بغیر شک وشبے کے ہو سکیں۔