بدامنی تاجر بھی بلٹ پروف گاڑیاں استعمال کرنے پر مجبور
طلب بڑھ گئی، کراچی میں ماہانہ 20 بلٹ پروف کاریں تیار کی جارہی ہیں، شہزاد گوندل
بدامنی، بھتاخوری اور اغوابرائے تاوان کے خوف سے دوچار کراچی کی تاجر برادری بلٹ پروف کاروں کی خریداری پر سرمایہ خرچ کررہی ہے جس سے پاکستان میں بلٹ پروف کاریں تیار کرنے والی کمپنیوں کا کاروبار چمک اٹھا۔
دہشت گردی سے نبرد آزما پاکستان میں روایتی طور پر سیاستدان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ افسران ہی اپنی سلامتی یقینی بنانے کے لیے بلٹ پروف کاریں استعمال کرتے تھے جو بیرون ملک سے درآمد کی جاتی تھیں تاہم اب دہشت گردی کے ساتھ برھتی ہوئی لاقانونیت اور بدامنی کے باعث تاجر، صنعتکار اور سرمایہ دار طبقہ پاکستان میں کام کرنے والی غیرملکی کمپنیوں کے اعلیٰ نمائندے بھی بلٹ پروف کاروں کے استعمال پر مجبور ہیں۔
ٹویوٹا سینٹرل موٹر کے ڈائریکٹر شہزاد گوندل نے ٹویوٹا ڈریم کار کونٹیسٹ کے موقع پر صحافیوں کو بتایا کہ کراچی میں بلٹ پروف کاروں کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے اور کراچی میں ماہانہ 20 بلٹ پروف کاریں تیار کی جارہی ہیں، ان کاروں کی تیاری کے آرڈر نجی شعبے اور تاجروں کی جانب سے دیے جارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی میں 4 فیکٹریوں میں بلٹ پروف کاریں تیار کی جارہی ہیں جہاں اوسطاً ایک بلٹ پروف کار 30 لاکھ روپے کے اخراجات سے تیارکی جارہی ہے۔
یہ کاریں کلاشنکوف تک کی فائرنگ سے تحفظ فراہم کرتی ہیں، مقامی سطح پر تیار کی جانے والی بلٹ پروف کاروں کی لاگت درآمدی کاروں کے مقابلے میں 20 سے 30 فیصد تک کم ہے، کراچی کے علاوہ اندرون ملک بھی بلٹ پروف کاریں تیار کرنے کی 3 فیکٹریاں کام کررہی ہیں جہاں ماہانہ 15 سے 20 بلٹ پروف کاروں کی تیاری کے آرڈرز دیے جارہے ہیں، اندرون ملک بلٹ پروف کاریں تیار کرنیو الی فیکٹریوں کو زیادہ تر آرڈرز خیبرپختونخوا اور اسلام آباد کے خریداروں سے مل رہے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ پنجاب کے تاجروں اور صنعتکاروں میں عدم تحفظ کا احساس دیگر صوبوں کے مقابلے میں کہیں کم ہے، یہی وجہ ہے کہ کمپنیوں کو پنجاب سے بلٹ پروف کاروں کی تیاری کے آرڈرز موصول نہیں ہورہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں کارپوریٹ سیکٹر کے مقابلے میں لوکل اسمبل کاروں کے نقد خریداروں کی تعداد غالب آرہی ہے، اس سال کاروں کی خریداری کے لحاظ سے کیش خریداروں نے سرکاری محکموں اور کارپوریٹ سیکٹر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے نان ڈیوٹی پیڈ گاڑیوں کے لیے ایمنسٹی اسکیم کی سہولت سے مقامی سطح پر تیار کردہ کاروں کی فروخت پرکوئی خاص اثر واقع نہیں ہوگا کیونکہ زیادہ تر خریدار ری سیل ویلیو میں کمی کے خدشے کے پیش نظر ایمنسٹی اسکیم کی کاروں کی خریداری میں دلچسپی نہیں لیتے۔ انہوں نے کہا کہ ٹویوٹا کے ساتویں ڈریم کار مقابلے میں نمایاں اسکولوں کے طلبا نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مستقبل کی کار کا بہترین تصور پیش کرنے والے بچے کو والدین کے ہمراہ جاپان کے دورے پر بھیجا جائے گا۔
دہشت گردی سے نبرد آزما پاکستان میں روایتی طور پر سیاستدان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ افسران ہی اپنی سلامتی یقینی بنانے کے لیے بلٹ پروف کاریں استعمال کرتے تھے جو بیرون ملک سے درآمد کی جاتی تھیں تاہم اب دہشت گردی کے ساتھ برھتی ہوئی لاقانونیت اور بدامنی کے باعث تاجر، صنعتکار اور سرمایہ دار طبقہ پاکستان میں کام کرنے والی غیرملکی کمپنیوں کے اعلیٰ نمائندے بھی بلٹ پروف کاروں کے استعمال پر مجبور ہیں۔
ٹویوٹا سینٹرل موٹر کے ڈائریکٹر شہزاد گوندل نے ٹویوٹا ڈریم کار کونٹیسٹ کے موقع پر صحافیوں کو بتایا کہ کراچی میں بلٹ پروف کاروں کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے اور کراچی میں ماہانہ 20 بلٹ پروف کاریں تیار کی جارہی ہیں، ان کاروں کی تیاری کے آرڈر نجی شعبے اور تاجروں کی جانب سے دیے جارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی میں 4 فیکٹریوں میں بلٹ پروف کاریں تیار کی جارہی ہیں جہاں اوسطاً ایک بلٹ پروف کار 30 لاکھ روپے کے اخراجات سے تیارکی جارہی ہے۔
یہ کاریں کلاشنکوف تک کی فائرنگ سے تحفظ فراہم کرتی ہیں، مقامی سطح پر تیار کی جانے والی بلٹ پروف کاروں کی لاگت درآمدی کاروں کے مقابلے میں 20 سے 30 فیصد تک کم ہے، کراچی کے علاوہ اندرون ملک بھی بلٹ پروف کاریں تیار کرنے کی 3 فیکٹریاں کام کررہی ہیں جہاں ماہانہ 15 سے 20 بلٹ پروف کاروں کی تیاری کے آرڈرز دیے جارہے ہیں، اندرون ملک بلٹ پروف کاریں تیار کرنیو الی فیکٹریوں کو زیادہ تر آرڈرز خیبرپختونخوا اور اسلام آباد کے خریداروں سے مل رہے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ پنجاب کے تاجروں اور صنعتکاروں میں عدم تحفظ کا احساس دیگر صوبوں کے مقابلے میں کہیں کم ہے، یہی وجہ ہے کہ کمپنیوں کو پنجاب سے بلٹ پروف کاروں کی تیاری کے آرڈرز موصول نہیں ہورہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں کارپوریٹ سیکٹر کے مقابلے میں لوکل اسمبل کاروں کے نقد خریداروں کی تعداد غالب آرہی ہے، اس سال کاروں کی خریداری کے لحاظ سے کیش خریداروں نے سرکاری محکموں اور کارپوریٹ سیکٹر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے نان ڈیوٹی پیڈ گاڑیوں کے لیے ایمنسٹی اسکیم کی سہولت سے مقامی سطح پر تیار کردہ کاروں کی فروخت پرکوئی خاص اثر واقع نہیں ہوگا کیونکہ زیادہ تر خریدار ری سیل ویلیو میں کمی کے خدشے کے پیش نظر ایمنسٹی اسکیم کی کاروں کی خریداری میں دلچسپی نہیں لیتے۔ انہوں نے کہا کہ ٹویوٹا کے ساتویں ڈریم کار مقابلے میں نمایاں اسکولوں کے طلبا نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مستقبل کی کار کا بہترین تصور پیش کرنے والے بچے کو والدین کے ہمراہ جاپان کے دورے پر بھیجا جائے گا۔