قومی اداروں کا تصادم اب بھی رُک سکتا ہے
اصلاحِ احوال کی اب بھی گنجائش ہے۔ تصادم اب بھی رک سکتا ہے
قومی اداروں کے تصادم سے معیشت کمزور ہوگی، ادارے بے توقیر ہوں گے اور ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا، اس پر صرف وہ عناصر خوش ہیں جو خود تو سکت نہیں رکھتے مگر غیرسیاسی اداروں کے ذریعے مسلم لیگ اور اس کی قیادت کا خاتمہ چاہتے ہیں، لگتا ہے عدالت سے نوٹس وصول کرنے والوں کی تعداد درجنوں نہیں سیکڑوں تک جاپہنچے گی، پھر جلسوں میں زیادہ تلخ باتیں ہوںگی، ایک دوسرے کے داغ سرِعام دکھائے جائیں گے۔
چوکوں اور چوراہوں پر موازنے ہوں گے کہ ججوں کو گالی دینے والے اور قید کرنے والے نے زیادہ توہین کی یا تقریراور تنقید کرنے والے نے۔ چیف جسٹس صاحب وضاحتیں کرتے کرتے تھک جائیں گے۔ وضاحت یا تقریر عدلیہ کا نہ کام ہے نہ میدان۔ عدلیہ کو چاہیے کہ نوٹسوں کی راہ پر چلنے کے بجائے اپنے فیصلوں سے اعتماد بحال کرے۔ ویسے تو اُن ملکوں میں بھی جہاں اداروں کی حدود و قیود طے ہوچکی ہیں اور وہ آج طے شدہ حدود سے تجاوز نہیں کرتے، کئی دہائیوں تک اداروں کا ٹکراؤ ہوتا رہا، اختیارات کی جنگ صدیوں تک چلتی رہی۔ ہمارے ہاں بھی یہ قضیئے آیندہ ڈیڑھ سے دو دہائیوں میں ہمیشہ کے لیے طے ہوجائیں گے اور تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں گے۔
مگر اِس وقت قومی اداروں کا ٹکراؤ انتہائی خطرناک ہے کہ وطنِ عزیز عالمی سازشوں میں گھِرا ہوا ہے، ملکی معیشت دباؤ کا شکار ہے، عالمی سرمایہ کار ملک کی غیر یقینی صورتِحال دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہے۔ ایسے حالات میں دردِ دل رکھنے والے اور مادرِوطن سے محبت کرنے والے ہر شخص کا فرض ہے کہ تصادم کی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں اپنے حصّے کا پانی ضرور ڈالے۔ مگر برقی میڈیا میں ایسے لوگ زیادہ ہیں جو آگ بھڑکانے کے لیے ہوا دے رہے ہیںکہ وہ صرف آگ، خون، لڑائی،گالم گلوچ اور انتشار بیچتے ہیں۔ امن، اتحاد، اتفاق، رواداری ، یگانگت اور ملکی مفاد جیسا سودا ان کی دکانوں پر دستیاب نہیں ہے۔
اداروں کا تصادم رکنا چاہیے اور یہ رُک سکتا ہے، یہ بات بہت خوش آیند ہے کہ سیاسی قیادت کے خدشات کے برعکس فوج نے جمہوری پروسس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی اور سینیٹ کے انتخابات کا شیڈول آگیا ہے، اسی طرح عام انتخابات بھی انشأاﷲوقت پر ہوںگے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور سپریم کورٹ کی واضح مخاصمت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ فریقین اپنے اپنے رویوں کا بے لاگ جائزہ لیں، میاں نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے کچھ جج صاحبان کے بارے میں سخت زبان استعمال کی جارہی ہے اور کچھ نامناسب باتیں ہورہی ہیں جو نہیں ہونی چاہئیں مگرعدالتِ عظمیٰ کے کچھ جج صاحبان نے بھی بے احتیاطی سے کام لیا ہے۔
میاں صاحب اپنی نااہلی کی وجہ اور کمزور بنیاد پر بجا طور پر اعتراض کرسکتے ہیں مگر جلسوں میں بار بار یہ کہنا کہ جس شخص کو کروڑوں لوگ منتخب کریں، کیا اسے پانچ افراد نکال سکتے ہیں، درست نہیں ہے۔ اس کا جواب ہے 'جی ہاں نکال سکتے ہیں'۔ جس پارلیمنٹ کے تقدس کا آپ ذکر کرتے ہیں اُسی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے آئین میں عدلیہ اور جج صاحبان کو یہ اختیارات دیے گئے ہیں، پانچ کیا ایک جج بھی سزا دے سکتا ہے۔
اگر آپ کا اعتراض مان لیا جائے تو پھر جو ایم این اے ایک لاکھ ووٹ لے کر جیتا ہو ۔کیا اس کے خلاف فیصلہ کرنے کے لیے ڈیڑھ لاکھ ججوں پر مشتمل بَنچ بنایا جائے گا؟ اگر کسی ایم پی اے یا ایم این اے کے خلاف قتل کا کیس درج ہے تو اس کی سماعت ایک سیشن جج ہی کرتا ہے اور الزام سچا ہے تو اسے ایک جج ہی سزا دیتا ہے۔کیا وہ بھی یہ کہنا شروع کردے کہ ایک لاکھ ووٹ لینے والے شخص کو ایک فرد کیسے سزاد ے سکتا ہے؟ خود وزیرِاعظم نے اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے آرمی چیف (جنرل مشرف) کو ہٹایا تھا تو اُس نے بھی یہی کہا تھا کہ ''میں چھ لاکھ کی فورس کا سربراہ ہوں مجھے ایک شخص کیسے ہٹاسکتا ہے؟''دیکھنا ہے کہ اُس ایک یا پانچ افراد کے پاس آئینی اور قانونی اختیار ہے؟ اگر ہے تو پھر ان کی تعداد کا ذکر بے معنی اور نامناسب ہے۔
دوسری طرف سے بھی کچھ منصفین نے اپنے روئیے اور توہین آمیز الفاظ سے ایسے جواز فراہم کیے، جس سے مخاصمت میں اضافہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ "A judge speaks through his judgments" (جج اپنے فیصلوں کے ذریعے بولتا ہے) یعنی اسے تقریروں کی ضرورت نہیں ہوتی، یہاں صورتِ حال یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب آئے دن تقریریں کرکے سامعین کو قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ''ہم آزاد ہیں اور ہم کسی سازش کا حصّہ نہیں ہیں''۔ میرے خیال میں تقاریر سے زیادہ دروں بینی (Introspection) کی ضرورت ہے کہ وہ تاثر پیدا کیوں ہوا جسے زائل کرنے کی چیف جسٹس صاحب کوشش کررہے ہیں۔
نوے فیصد قانونی ماہرین کے بقول وزیرِاعظم کی نااہلی کی بنیاد انتہائی کمزور ہے اور کچھ ججوں کیطرف سے منتخب وزیرِاعظم کے لیے استعمال کیے گئے توہین آمیز الفاظ نامناسب تھے۔ بہت سے ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ نا اہلی کی درخواست براہِ راست سننے کی مجاز ہی نہیں تھی۔
اسی طرح قانونی ماہرین کی رائے میں انتخابی فارم میں اپنے کسی اثاثے کا قصداً یا سہواً اندراج نہ کرنے پر الیکشن کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے لیکن منتخب رکنِ اسمبلی کی نااہلی کے بارے میں آئین خاموش ہے، اس کی مدّت کا تعیّن نہیں کیا گیا۔ حلقہ این اے 101 سے منتخب ہونے والے ایم این اے جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ کے انتخابی فارم میں دو ڈھائی لاکھ کے (مسجد فنڈ) اکاؤنٹ کا اندراج نہیں تھا۔ الیکشن ٹریبیونل نے اس اعتراض کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا مگر سپریم کورٹ نے الیکشن کالعدم قرار دے دیا مگر جسٹس صاحب پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ انھوں نے فوراً بعد ہونے والے ضمنی انتخاب میں حصّہ لیا اور جیت گئے۔ یہ اصول میاں نواز شریف پر کیوں لاگونہیں کیا گیا؟۔
دونوں اطراف کے رویّوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے، ٹمپریچر نیچے لانا ہوگا میری تجویز ہے کہ چیف جسٹس صاحب چائے پر جسٹس فائز عیسیٰ صاحب (جو بانیٔ پاکستان کے قریبی ساتھی قاضی عیسیٰ کے صاحبزادے ہیں ، ملک کا درد رکھتے ہیںاور کسی دباؤ میں آنے والے نہیں) سے کہیں کہ وہ سب برادر ججوں کے سامنے حالات کا جائزہ پیش کریں کہ ملک میں اداروں کے تصادم کی جو فضاء پیداہوئی ہے اس میں عدلیہ کی طرف سے کون سے ایسے اقدام ہوئے ہیں جو نہیں ہونے چاہیے تھے اور اب اصلاحِ احوال کیسے ہوسکتی ہے۔
دوسری طرف میاں نواز شریف سینئر لیڈر شپ کا اجلاس بلائیں جس میں راجہ ظفرالحق، جسٹس افتخار احمد چیمہ (جو خود بھی عدلیہ کے فیصلے کا نشانہ بنے) اور ممتاز احمد تارڑ صاحب جائزہ پیش کریں کہ عدلیہ کے بارے میں سیاسی قیادت کا روّیہ اور طرزِعمل کیسا ہونا چاہیے اور وہ کونسی باتیں ہیں جن سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے وقت پیپلز پارٹی بہت بڑی پارٹی تھی مگر پارٹی قیادت نے چوکوں اور چوراہوں میں عدلیہ اور ججوں کو تنقید اور تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا، اگر عدلیہ کی طرف سے نوٹسوں کا سلسلہ جاری رہا اور اس کے جواب میں (جیسا کہ نظر آتا ہے) سب سے بڑی سیاسی پارٹی نے ججوں پر تنقید اورسخت کردی تو پھر اس کا نتیجہ جاننے کے لیے کوئی سائینسدان ہونا ضروری نہیں۔ ملک میں خدانخواستہ انارکی کا راج ہوگا اور اس کی ذمّہ داری سیاستدانوں کے ساتھ عدلیہ پر بھی ہوگی۔
اصلاحِ احوال کی اب بھی گنجائش ہے۔ تصادم اب بھی رک سکتا ہے۔ اس کے لیے عدلیہ کو فراخدلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور کچھ ایسے اقدام کرنے ہوں گے جس سے یہ تاثر زائل ہو کہ سابق وزیرِاعظم کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اس ضمن میں دو کام فوراً ہونے چاہئیں، ایک تو نااہلی کی مُدّت کا تعیّن ضروری ہے، میرے خیال میں درج نہ ہونے والی رقم کم ہو تو منتخب رکنِ اسمبلی کو جرمانہ کردیا جائے، رقم زیادہ ہو تو پانچ سال کے لیے پابندی لگادی جائے۔ اسی طرح چیف جسٹس صاحب میاں نواز شریف کے ٹرائل پر سپریم کورٹ کی نگرانی (جو تمام سینئر قانونی ماہرین کے مطابق انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے) ختم کرکے اسے نئے سرے سے کسی نیک نام جج کو ریفر کردیں اور اس کی تکمیل کے لیے ٹائم فریم بھی دے دیں۔ موجودہ حالات میں سزا ہوتی ہے تو متاثرہ فریق یہی سمجھے گا اور برملا کہے گا کہ یہ'' سزا سپریم کورٹ نے ہی دی ہے اور میرے ساتھ سپریم کورٹ ہی سب کچھ کررہی ہے''۔
پی سی او ججوں کے بارے میں میاں نواز شریف نے جو کچھ کہاہے اسے سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے، کسی بھی مہذب معاشرے میں آئین توڑنا سب سے سنگین جرم سمجھا جاتا ہے اسی لیے اس کی سزا موت مقرر کی گئی ہے، اتنا سنگین جرم کرنے والے کو قانونی جواز فراہم کرنا یقیناً اعانتِ جرم ہے۔ اگر نوازشریف نے پچھلے دس پندرہ سال میں کوئی کرپشن کی ہے تو اس کا ضرور ٹرائل ہو لیکن اگر معاملہ پچّیس سال سے پرانا ہے تو پھر پی سی او پر حلف اٹھانے والوں کا جرم بھی زیرِبحث آنا چاہیے اور کارگل کا Misadventure کرکے بہترین افسروں کی جانیں گنوانے اور ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے والوں پر بھی مقدمہ چلنا چاہیے ۔ غلطیاں اور جرم تو سب نے کیے ہیں، یا تو ماضی کو بھول کر آگے چلا جائے یا پھر ٹرائل ہو تو سب کا ہو۔ ترازو صرف ایک جانب جھکے گا تو قوم اسے قبول نہیں کریگی۔
اہم بات:فریقین کو ایک بات پر فوری طور پر عمل کرنا چاہیے، میاں صاحب عدلیہ کے معاملے میں جوشیلے نوجوانوں (جسکے لیے پنجابی میں مُڈیک کا لفظ استعمال ہوتا ہے) کے بجائے تجربہ کار، مدبر اور Seasonedساتھیوں سے مشاورت کیا کریں، دوسری جانب چیف جسٹس صاحب تمام جج صاحبان پر ٹی وی کے ٹاک شوز دیکھنے پر پابندی لگادیںتو حالات بہت بہتر ہوجائیں گے۔