عدلیہ کا احترام لازم ہے
اُن اقوام کا نہ تو تاریخ میں کہیں ذکر ملتا ہے اور نہ ان اقوام نے ترقی کی راہیں پار کی ہیں
حمورابی کا ''قانون''انسانی تاریخ میں پہلی قانونی دستاویز مانی جاتی ہے، جس میں قوانین کو تحریراً ایک مکمل ضابطے کی صورت میں پیش کیا گیا۔ یہ قانون کم و بیش 4ہزار سال پرانا ہے۔اس ضابطے میں 282 قوانین شامل ہیں،جنھیں بارہ الواح پر لکھا گیا۔اسے تحریری صورت میں8 فٹ بلند پتھر کے ستونوں پر کندہ کرایا گیا، جو ملک بھر میں مختلف جگہوں پر نصب کر دیے گئے تاکہ ہر شخص انھیں جان سکے۔
اس قانون میں جہاں کئی خوبیاں تھیں وہیں چند خامیاں بھی تھیںکہ یہ قانون امراء، علاقے کے معزز شہریوں اور حکمرانوں کے لیے سزاؤں کا تعین نہیں کر سکتا تھا، جب کہ عام شہریوں کے لیے سخت قوانین بنائے گئے تھے مثلاً اگر کوئی شخص ایک بیل چوری کرتا ہے، تو اس سے اس کی تیس گنا زیادہ قیمت کے بیل لیے جاتے یا اسے جرمانے کے طورپر رقم ادا کرنے کی سزا دی جاتی،قتل کے بدلے قتل کیا جاتا، اور لڑائی وغیرہ میں کسی عضو کے ضایع ہوجانے کے بعد مجرم کو بھی اسی عضو سے محروم ہونا پڑتاوغیرہ۔ پہلے قانون ساز کی حیثیت سے دنیا بھر میں حمورابی کے مجسمے مختلف ملکوں میں عدالتوں اور حکومتی عمارتوں پر کندہ ہیں۔ امریکی کانگریس کی عمارت پر بھی حمورابی کی شبیہ کندہ کی گئی ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کی عمارت پر کندہ قانون سازوں کی شبیہوں میں بھی حمورابی شامل ہے۔ حمورابی کے قانون میں نقائص کے باوجود اس کو آج اس لیے زیادہ اہمیت دی گئی ہے کہ اُس نے عوام کو ایک قانون پر اکٹھا کیا، اور اسے رائج بھی کیا، تاریخ دان لکھتے ہیں کہ حمورابی کا قانون تو رائج ہوگیا مگر امراء کو چھوٹ دینے کی وجہ سے ملک نفسیاتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے جب کہ اشرافیہ خود کو ''بابل'' کا مالک سمجھنے لگی۔ اسی اثناء میں مصریوں نے بابل پر قبضہ کیا تو ان ستونوں کو بھی تباہی کا سامنا ہوا۔ یعنی تاریخ گواہ ہے کہ جن قوانین نے ''بڑوں'' کو چھوٹ دی اور چھوٹوں کو سزاؤں سے نوازا ، وہ قومیں تباہ ہوگئیں۔
اُن اقوام کا نہ تو تاریخ میں کہیں ذکر ملتا ہے اور نہ ان اقوام نے ترقی کی راہیں پار کی ہیں۔افسوس کہ پاکستان کا شمار بھی حمورابی قسم کے قانون کے تحت کیا جا رہا ہے جہاں چھوٹوں کو قربانی کا بکرا بنا کر سزائیں تو دی جاتی ہیں مگر بڑوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ آجکل توہین عدالت کے کیسز میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ نہال ہاشمی کو 5سال کی نااہلی، ایک ماہ قید اور جرمانے کی سزا ہوچکی ہے، جب کہ طلال چوہدری جنہوں نے گوجرانوالہ کے ایک جلسے میں معزز ججوں کے بار ے میں توہین آمیز الفاظ کہے تھے نے عدالت سے وکیل ہائیر کرنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت مانگ لیا ہے۔ جب کہ دانیال عزیز اسی لائن میں لگے ہیں۔
لیکن عوام اس پریشان دکھائی دے رہی ہے کہ آیا نواز شریف اور ان کی صاحبزادی پر ان سزاؤں کا کوئی اثر کیوں نہیں ہورہا؟ موصوف نااہلی کے بعد سے لے کر آج تک پانچ معزز جج صاحبان کے خلاف باتیں کر چکے ہیں۔ جب کہ کچھ مولانا حضرات نے بھی ایسے الفاظ ادا کیے ہیں جو یہاں دہرائے نہیں جاسکتے۔ راقم نے گزشتہ کالم ''ایک سوال اداروں کی بے توقیری پر'' میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ اداروں کی بے توقیری کا نوٹس لیا جائے، عدالت عظمیٰ نے نوٹس لیے،کیونکہ ہمیشہ ادارے اہم ہوتے ہیں، ان کی عزت و توقیر ہر صورت میں لازم ہوتی ہے، لمحہ موجود کی سیاست کا رخ کچھ اسی جانب رواں دواں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ توہین عدالت کرنے والے سمجھ رہے ہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، جو زبان استعمال کر رہے ہیں، جس قسم کا لہجہ ان کا دکھائی دے رہا ہے وہ متعلقہ اداروں سے مخفی ہے، انھیں دکھائی نہیں دے رہا۔ نہیں ایسا ہر گز نہیں، اس کا اندازہ چیف جسٹس آف پاکستان کے حالیہ ایک ریمارکس سے کر لینا چاہیے جس میں انھوں نے کہا کہ ''جب ہم توہین عدالت کا نوٹس لیں گے تو دنیا دیکھے گی''۔ اس ایک جملے میں کیا پیغام ہے یہ تو سب جانتے ہیں۔آج یہ بات افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہی ہے کہ نواز شریف نے خود کو بچانے کے لیے اداروں پر حملے کی روایت ڈالی۔ 2012 میں یہی نواز شریف تقریر کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کو مشوروں سے نواز رہے تھے کہ بھئی تمہیں جب عدالت نے گھر بھیجا ہے تو جاؤ، اپنے آپ کو کلیئر کر کے واپس آجانا لیکن وہی نواز شریف آج اپنے اداروں پر برس رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں جھوٹ، فریب، مکر، دغا سب چلتا ہے۔ اب یہ کینیڈا کی اسمبلی تو ہے نہیں جہاں وقفہ سوالات میں دیر سے پہنچنے پر وزیر پورے ایوان میں شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیتا ہے۔یہ خالص پاکستانی جمہوریت اور اس کی خالص اسمبلیاں ہیں۔ جہاں وزیراعظم اپنے بولے جھوٹ کو سیاسی تقریر قرار دے دیتا ہے۔ جہاں مشرف، ڈاکٹر عاصم، اسحاق ڈار، شرجیل میمن، شاہ رخ جتوئی اور اب نہال ہاشمی قانون اور سزا سے بچنے کے لیے بیمار پڑجاتے دکھائی دیتے ہیں۔
بہرکیف جو سینیٹر نہال ہاشمی کو سزا ہوگئی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اگر سزا ملنی چاہیے تو سب کو ملے ورنہ سب کو اجتماعی طور پر معاف کر دینا چاہیے۔ نہال ہاشمی نے کراچی میں کھڑے ہو کر جس لب و لہجے میں بات کی تھی اس کا دفاع کرنا تو مسلم لیگ(ن) کے لیے ممکن نہ تھا مگر ان سوشل میڈیائی مجاہدین کی ہمت ہے جو یہ ہارا ہوا مقدمہ بھی لڑ رہے ہیں۔ نہال ہاشمی کو سزا ایک پیغام ہے، نصیحت ہے، انتباہ ہے، تنبہی ہے، متنبہ کرنا ہے، درس ہے کہ ہر چیز سیاست نہیں ہوتی، ہر بات کہنے کی نہیں ہوتی، بسا اوقات فیصلہ تمہارے حق میں نہیں ہوتا تب بھی احترام لازم ہوتا ہے۔ میرؔ کے بقول عاشقی میں اتنے آگے نہ نکل جاؤ کے عزت سادات بھی چلی جائے۔ نہال ہاشمی کی طرح۔
پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
حاصل کلام یہ ہے کہ اگر آپ میری طرح پاکستان میں ایک آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کے خواہاں ہیں تو نہال ہاشمی کو سزا دینے کے فیصلے سمیت ہر عدالتی فیصلے کو بلا چون و چراں یعنی بلا تنقید قبول کرنے کی عادت ڈالیں۔ عدالتوں کا حترام کریں۔اگر ہمارے سیاستدانوں یا کسی اور طاقتور کو یہ معلوم نہیں کہ عدلیہ کی عزت و احترام کا سب سے موزوں طریقہ کیاہے اور ادب و تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے بات کیسے کرنی ہے تو وہ اس ملک کی جان چھوڑیں کیوں اس کے پیچھے پڑ گئے ہیں!