مسئلہ کشمیرکس طرح حل ہو گا

پاکستان کو چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کو روایتی طریقوں سے حل کرنے کے بجائے غیر روایتی طریقے اپنائے

tahirnajmi@express.com.pk

1990 سے آج تک ہر سال 5فروری کا دن نہ صرف پاکستان بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر، آزاد کشمیر اور دنیا کے متعدد مسلم ممالک میں مظلوم کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے منایا جاتا ہے۔کشمیریوں کو اْن کا حق خود ارادیت دلانے کے لیے ریلیاں نکالی جاتی ہیں، سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں، ہر سال 5 فروری کا دن آتا ہے اور یونہی گزر جاتا ہے لیکن کشمیر کے حالات نہیں بدلتے۔ پاکستانی حکمراں روایتی بیانات جاری اور سیاست دان روایتی تقاریر کرتے ہیں، تاریخ بدل جاتی ہے لیکن نہیں بدلتی تو کشمیر کی تقدیر نہیں بدلتی۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسئلہ کشمیر فقط احتجاجی جلسوں، جذباتی نعروں یا ریلیوں سے حل نہیں ہوگا، بلکہ عالمی سطح پر ایک مضبوط قانونی موقف اٹھانے سے حل ہوگا۔ مسئلہ کشمیر سے متعلق ایک اہم سوال پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بھی ہے کہ 1947 سے اب تک پاکستان کتنے موثر طریقے سے اس مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانے میں کامیا ب ہوسکا ہے؟ کیا یہ صرف بھارت کی ہٹ دھرمی ہے؟ اقوام متحدہ کی بے حسی یا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے غیر موثر ہونے کا کھلا اعلان ؟ معاشی اور سیاسی طور پر ایک مضبوط ملک کی خارجہ پالیسی بھی موثر ہوتی ہے جب کہ ایک کمزور ملک کی خارجہ پالیسی کمزور اور غیر موثر ہوتی ہے۔

جائزہ لینا ہوگا کیا ہم اتنے مضبوط ہیںکہ اپنی خارجہ پالیسی سے کشمیر کے مسئلہ کو عالمی سطح پر اجاگر کر سکیں اور اس مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ اعتراف حقیقت کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے اور حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی بہت کمزورثابت ہوئی ہے جو دنیا کو اس مسئلے کے حل کے لیے قائل نہیں کر سکی، حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ اپنے دوست ممالک کو راغب کرتے کہ وہ اس معاملے کے حل کے لیے پاکستان سے تعاون کریں خاص طور پر پڑوسی ممالک اور عرب ممالک جن کے ساتھ ہماری دوستی ہے۔

ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کی اس سے زیادہ واضح مثال کیا ہوسکتی ہے کہ گزشتہ دنوں انڈونیشیا کے صدر نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا لیکن انھوں نے کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا، حالانکہ جب کوئی سربراہ مملکت یا وزیر اعظم آتا ہے تو پہلے سفارتی سطح پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے کہ کس بارے میں کیا بات کرنی ہے، لیکن انڈونیشیا کے صدر نے کشمیر کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں کیا جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کشمیر کے معاملے پر ہماری خارجہ پالیسی کس حد تک فعال ہے، جب ہم ہی اس مسئلے کے حوالے سے آواز بلند نہیں کرینگے تو پھر دوسرے کیوں کرینگے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر بھرپور انداز سے اجاگر کرنے کے لیے واضح اقدامات سامنے نہیں آرہے ہیں، ہماری کشمیر کمیٹی بھی کافی عرصے سے غیر فعال ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں بے گناہ افراد کی ہلاکت اور علاقے میں بڑھتی ہوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے پاکستان کی قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے کشمیرکا قیام 1993میں عمل میں آیا۔ کمیٹی کے قیام کا مقصدمسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے اجاگرکرناور اس کے حل کے لیے سفارشات مرتب کرنا تھا۔ نوابزادہ نصراللہ خان (مرحوم) کشمیر کمیٹی کے پہلے چیئرمین تھے۔


2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعدبننے والی حکومت نے مولانافضل الرحمان کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقررکیا۔ میاں نواز شریف نے 2013 میں عام انتخابات میں کامیابی کے بعد مولانا فضل الرحمان پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انھیں دوبار ہ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کر دیا۔ مولانا فضل الرحمان اس کمیٹی کے چیئرمین ہونے کی حیثیت سے وفاقی وزیر کا درجہ رکھتے ہیں اور وہی مراعات لے رہے ہیں جو ایک وفاقی وزیر کو حاصل ہیں۔ اگر آج کوئی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین اور کشمیر کمیٹی کے ارکان سے ان کی اب تک کی مسئلہ کشمیر پر کارکردگی پیش کرنے کا کہہ دے تو سب بغلیں جھانکنے لگیںگے۔ یہ کمیٹی اس مسئلے کو اس طرح اجاگر کر رہی ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ اجاگر ہو کر کہاں چلا گیا ہے۔ یہ کمیٹی فعال بنائی جائے یا پھر ختم کر دی جائے ۔کمیٹی کو ختم کرنے کا فوری فائدہ یہ ہو گا کہ قومی خزانے پر پڑنے والے '' بھاری بھر کم '' بوجھ میں کچھ کمی واقع ہو جائے گی۔

مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سلامتی کونسل نے 1948 میں منظور شدہ قراردادوں میں بھارت اور پاکستان کو کشمیر سے افواج نکالنے اور وادی میں رائے شماری کرانے کا کہا تھا۔ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے رائے شماری کروانے کا وعدہ کرلیا مگر بعد ازاں اپنے اس وعدے سے منحرف ہوگئے۔ پاکستان نے بھارت سے آزاد کرائے گئے علاقے میں آزاد کشمیر کی ریاست قائم کردی جب کہ مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ اب بھی جاری ہے، حالانکہ اس مسئلے کے حل میں اقوام متحدہ کا عالمی فورم، کشمیری عوام کے استصواب رائے کے مطالبے کو تسلیم کرچکا ہے۔

کشمیر کا مسئلہ اگر صرف جغرافیائی یا زمینی سرحدوں کا معاملہ ہوتا تو شاید اب تک حل ہوچکا ہوتا، حل نہ بھی ہوتا تو پس منظر میں جاچکا ہوتا یا پھر کسی حد تک فراموش کردیا جاتا، لیکن کشمیر کا معاملہ بالکل مختلف ہے، یہ تقریباً ستر ہزار مربع میل پر محیط علاقہ ہے جہاں ڈیڑھ کروڑ سے زائد انسان بستے ہیں، ان میں سے ایک کروڑ سے زائد کشمیری مقبوضہ کشمیر میں بستے ہیں، جنھیں ستر برس سے غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا ہے، یہ لوگ انسان ہیں، انسان اپنی سوچ، اپنا دل، اپنے جذبات رکھتا ہے، اسے حیوانوں کی طرح کسی باڑے میں بند کرکے نہیں رکھا جاسکتا، انھیں زیادہ لمبے عرصے تک غلام بھی نہیں بنایا جاسکتا، ان کے ہونٹوں پر تالے بھی نہیں ڈالے جاسکتے، یہ مسئلہ آج بھی زندہ ہے اور اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک کشمیری عوام کو وہ حق نہیں مل جاتا جو عالمی برادری نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے ذریعے انھیں دیا تھا۔یعنی حق خودارادیت۔

پاکستان کو چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کو روایتی طریقوں سے حل کرنے کے بجائے غیر روایتی طریقے اپنائے، سفارتی و سیاسی سطح پر کشمیریوں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھا جائے، مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس مسئلہ کو عالمی سطح پر بھرپور انداز سے اجاگر کیا جائے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے آواز بلند کی جائے۔ غیر ملکی سفیروں کو اس بارے میں بار بار بریفنگ دی جائے، انھیں آزاد کشمیر کا دورہ کرانے کے ساتھ ساتھ لائن آف کنٹرول پر بھارتی خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا جائے اور بھارتی فائرنگ سے متاثر ہونیوالوں سے ملاقات کرائی جائے، اس کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کی ترقی اور وہاں کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کیے جائیں، کشمیر ویسے ہی دنیا بھر کے سیاحوں کی کشش کا مرکز ہے، وہاں سیاحوں کو سہولیات فراہم کی جائیں۔

پاکستانی میڈیا انٹرنیشنل کمیونٹی خصوصاً دانشوروں، صحافیوں، تجزیہ کاروں، اور قانون سازوں کے لیے آزادی کشمیر کی حقیقت اور کشمیریوں و پاکستانیوں کے تعلق سے آگاہ کرنے کے لیے پروگرام نشر کرے۔ جنیوا کے ہیومن رائٹس کمیشن کے دفاتر، نیو یارک، لندن، اور یورپی یونین کے مرکزی دفاتر (برسلز) میں بھارت کی سرحدی جارحیت کے خلاف مظاہروں کا اہتمام ہونا چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو چاہیے کہ وہ سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک کو اعتماد میں لے اور انھیں اس مسئلے کے حل کے لیے آمادہ کرے کیوں کہ کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر خطے میں امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ بھارتی مظالم سے کشمیریوں میں لاوا پک رہا ہے اور کشمیر فلیش پوائنٹ کی صورتحال اختیار کرچکا ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان اس مسئلہ پر بڑی جنگیں بھی لڑی جاچکی ہیں، یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے۔

جسے حل کیے بغیر برصغیر میں امن کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اس کا واضح حل بھی اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں موجود ہے جس پر عملدرآمد کی ضمانت عالمی طاقتوں نے بھی دی تھی، لہذا منطقی طور پر عالمی طاقتوں کوٹال مٹول کی پالیسی ترک کرتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنا ہو گا۔بھارت چاہے گا کہ حالات جوں کے توں رہیںمگر پاکستان کو یہ اسٹیٹس کو ہر قیمت پر توڑنا ہو گا اوراس کے لیے پوری قوم کو یک جان ہو کر جارحانہ سفارتی مہم شروع کرنا ہو گی بہ صورت دیگر مقبوضہ علاقے میں کشمیریوں کا خون یونہی بہتا رہے گا اور ہم ہر سال رسم کے طور پر یوم یکجہتی کشمیر مناتے رہیں گے۔
Load Next Story