بے لاگ تبصرہ

اصولاً میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کو احتجاج کرکے محمد خان جونیجو کا ساتھ دینا چاہیے تھا

mohsin014@hotmail.com

آج تک کی صورتحال یہ ہے کہ نواز شریف کی سیاسی حیثیت کا گراف کم نہیں ہوا۔ اگر ابھی تمام انتخابات ہوجائیں تو نواز لیگ پنجاب میں بھاری اکثریت سے جیت جائے گی۔ کیونکہ عوام کا مزاج یہ ہے وہ جن کو سیاسی میدان کا شہسوار مان چکے ہیں ان کے علاوہ کسی کو میدان سیاست میں دیکھنا نہیں چاہتے۔ طاہر القادری کو عوام نے علمی و روحانی میدان کا شہسوار مانا ہے، انھیں کسی طور پر سیاسی شخصیت ماننے کو تیار نہیں، جس کا بولتا ثبوت چند دن پہلے لاہور مال روڈ کا وہ جلسہ ہے جس میں پاکستان کی بڑی مخالف جماعتیں شریک ہوئی، جن میں ایک کی 36 اور دوسرے کی 46 قومی اسمبلی کی نشستیں ہیں، جب کہ صرف مسلم لیگ نواز کی 190 نشستیں ہیں۔ یہ مال روڈ کا جلسہ لاہور کی تاریخ کا سب سے زیادہ فلاپ ہونے والا جلسہ تھا۔ اس سے تینوں پارٹیوں کو بہت نقصان ہوا۔ اگر یہ جلسہ صرف تحریک انصاف کرتی تو اس سے کہیں زیادہ لوگ ہوتے مگر پاکستان میں نابلد سیاستدان بہت ہیں، دور اندیش سیاستدان دور دور تک نظر نہیں آتے۔ شاید نابلد سیاستدانوں کو سیاست کا یہ اصول نہیں معلوم، جب بھی کوئی سیاستدان یا اس کی جماعت کو جتنا دبایا جائے گا وہ اس سے زیادہ ابھرے گی۔

اس وقت پاکستان میں تین بڑی سیاسی جماعتیں ہیں، اس میں نواز لیگ، پی پی پی، پی ٹی آئی، مگر ابھی تک ان جماعتوں کی حمایت صوبائی ہے، وفاقی نہیں۔ جس طرح کبھی پی پی پی وفاقی جماعت ہوا کرتی تھی وہ سندھ کے علاوہ پنجاب اور خیبرپختونخوا، بلوچستان میں کچھ نشستیں لیتی تھی، لیکن آج کی صورتحال یہ ہے کے ان جماعتوں کی، نواز لیگ پنجاب میں جو ملک کا 68% فیصد آبادی پر مشتمل میں ہے اور پی پی پی سندھ کے اندرونی حصہ تک جب کہ ایم کیو ایم سندھ کے شہری علاقوں میں محدود ہے، اسی طرح پی ٹی آئی صوبہ خیبرپختونخوا میں محدود ہے۔ بلوچستان میں سیاسی جماعتوں سے آزاد لوگوں کی حکمرانی ہے۔

جو لوگ یہ تجزیہ کرتے ہیں کہ آیندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن ہار جائے گی، وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہیں ۔2013ء کے انتخابات کے مقابلہ میں اگر کسی سیاسی جماعت کا گراف کچھ بلند ہوا ہے تو وہ پی ٹی آئی ہے۔ اس نے پنجاب میں پی پی پی کے ووٹ بینک کو اپنے حق میں کیا ہے۔ اورآیندہ انتخابات میں پی پی پی پنجاب میں نظر نہیں آئے گی۔ جب پی پی پی کی حکومت تھی تو سرائیکی صوبہ کو بننے کا موقع ملا تھا، پی پی پی حامی بھی تھی مگر اس کو صوبہ نہ بنانے میںکون سے عوامل آگئے ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اگر پی پی پی کے دور میں جہاں کچھ اچھی اصلاحات ہوئیں، اٹھارہویں ترمیم، سرحد کا نام، گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا، سی پیک وغیرہ، وہاں دو کام اور ہونے چاہیے تھے ایک سرائیکی صوبہ بنانا تھا، دوسرا سندھ کے شہروں میں ترقیاتی کام کرانے تھے، مگر ان دونوں کام کے نہ ہونے کا نقصان پی پی پی کو 2018ء کے عام انتخابات میں اٹھانا پڑے گا اور اگر سندھ میں ایم کیو ایم کے ووٹ بینک نے متحد ہوکر کام کیا تو پی پی پی کو سندھ کے اندرونی حصوں میں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ پی پی پی کی مقبولیت میں ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی شہادت کا بڑا دخل ہے، مگر پی پی کی مقبولیت کا ایک سبب ترقیاتی کام بھی تھا، جو سندھ کے شہروں میں 2007ء سے نظر نہیں آیا۔


اس بار پی ٹی آئی جوسندھ کے شہروں میں تو اپنا ووٹ نہیں بنا سکی مگر شاید اندرون سندھ میں وہ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کچھ پی پی پی کی نشستیں حاصل کرلے گی، جس میں ذوالفقار مرزا، ارباب رحیم، لیاقت جتوئی، ممتاز علی بھٹو جیسے سیاستداں بہت اہمیت حاصل کرلیں گے۔ لیکن پنجاب میں نواز لیگ کو اب کوئی خطرہ اس لیے نہیں ہے ۔ اگر وہاں کا محاذ مضبوط رہا تو نواز شریف نہ سہی، مگر کوئی اور شریف آئے گا، خاص طور پر مسلم لیگ نواز کسی وقت بھی نثار لیگ میں بدل سکتی ہے، اس لیے آیندہ کے وزیراعظم میں نہ نواز شریف ہوں گے، نہ بلاول بھٹو، نہ ہی عمران خان۔ یہ لوگ مضبوط اپوزیشن میں ہوں گے اور اسی نواز لیگ سے جنم لینے والی جماعت ہی مستقبل کا وزیراعظم دے گی۔ ہماری دعا ہے کہ عوام اس دفعہ اپنی سوچ بدلیں تاکہ حقیقی طور پر ملک میں جمہوری حکومت آئے۔ وہ سوچ یہ بدلنی ہے کہ صرف ان کو ووٹ دیں جنھوں نے عوام کے لیے کام کیا یا ان کو دیں جو آیندہ کام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بے داغ لوگوں کو ووٹ دیں، لسانی بنیاد پر ہرگز ووٹ نہ دیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد سے آج تک جب حکومت آئی تو یا پی پی کی تھی یا مسلم لیگ نواز کی، سوائے اس حکومت کے جو محمد خان جونیجو کی 1985ء کی تھی، ان کی حکومت تمام آنے والی حکومت سے اچھی تھی اور محمد خان جونیجو مرحوم بہت جمہوریت پسند تھے، انھوں نے حکومت کی سادگی پر زور دیا اور قومی اسمبلی کے ارکان کے ذریعے ان کے علاقے میں ترقی پر زور دیا، اسی وجہ سے بیوروکریٹس بھی خلاف ہوگئے تھے اور اس وقت کے صدر ضیا الحق بھی کیونکہ وہ دو منصب سنبھالے ہوئے تھے، ایک صدارت کا دوسرا فوج کی سربراہی کا۔ جب وزیراعظم محمد خان جونیجو نے کہا آپ کسی ایک منصب کا انتخاب کرلیں تو جنرل ضیا الحق بھی ان سے ناراض ہوگئے اور ان کے چائنا سے واپسی پر وزارت عظمیٰ خالی کروالی گئی۔

اصولاً میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کو احتجاج کرکے محمد خان جونیجو کا ساتھ دینا چاہیے تھا مگر اس لیے ساتھ نہیں دیا کہ وہ جنرل ضیاالحق کی مخالفت نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے انھیں یہ فائدہ ہوا کہ مسلم لیگ کی قیادت میاں نواز شریف کو مل گئی۔ اس طرح جمہوری فکر، جمہوری سوچ ختم ہوگئی اور شخصی قیادت ابھرنے لگی۔ آج بھی پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت میں سو فیصد جمہوری سوچ نہیں پائی جاتی ہے۔ آج بھی کسی بھی جماعت کا کوئی سربراہ کسی وجہ سے پارٹی میں نہ رہے یا اس دنیا میں نہ رہے تو اس کی جگہ پارٹی اپنے سربراہ کا فیصلہ نہیں کرتی ہے بلکہ اسی کی آل و اولاد، اہل و عیال کو پارٹی کا سربراہ بنادیا جاتا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ یہ کام الیکشن کمیشن کا ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات لائیں ۔
Load Next Story