مارچ یا کوئیک مارچ
قارئینِ کرام ! اب الیکشن کی چاپیں صاف صاف سنائی دینے لگی ہیں
UNITED NATIONS:
جنوری بہرحال گزرگیا، اب فروری ہے، پھر مارچ، اس کے بعد تو وقت کے نجومی خاموش ہیں، ستارہ شناس چپ ... میری کیا مجال کہ کوئی تبصرہ کروں، خیر جو بھی ہو ہمارا کیا اور کوئی بھی آئے ہمیں کونسا فرق پڑنے والا ہے،کوئی بھی آئے اورکچھ بھی ہو ملک کی اٹھانوے فیصد کلاس پر جو پتہ نہیں کس لکیر سے نیچے زندگی بسرکر رہی ہے، لیکن رکیے یہاں میں نے 'بسر'کا لفظ استعمال کرکے تکلف کیا،کہنا تھا کس لکیرکے تلے زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہی ہے۔
کوئی فرق نہیں پڑنے والا، یہ بس ایک ڈھکوسلہ ہے، یا کہہ لیجیے تسلسل،اس سے بھی تسلیِ نہ ہو تو پیدا ہونے کے بعد موت تک کا وقفہ،اب ظاہر ہے اُس میں کچھ نہ کچھ تو ہونا ہے،خواہ الیکشن ہوں یا سلیکشن۔ تو میں کہہ رہا تھا مارچ آنے کو ہے اب زیادہ دن باقی نہیں، لگتا ہے میاں صاحب اپنی سیاسی حکمتِ عملی میں کامیاب رہے یا کہنا چاہیے قدرت نے ان کی مدد کی،ان کا پاناما فیصلے کے بعد ججز اور خفیہ والوں پر تنقیدکرنا،کرتے رہنا بہرحال ایک پریشر بنا ہی گیا، ممکن ہے میری غلط فہمی ہو لیکن کچھ نادیدہ ہاتھ معمولی سے پیچھے ہٹتے تودکھائی دیے ہیں۔
حالانکہ احتساب عدالت میں ان کے خلاف کیسزکی سماعت بلا تاخیر جاری ہے وہ پیش بھی ہو رہے ہیں بس اب وہ بات دکھائی نہیں دے رہی، یہ کوئی ڈیل بھی ہوسکتی ہے جو ان کے اسمارٹ برادرِ برخوردار کے ذریعے سے ہُوئی ہو، ایسا ممکن ہوسکتا ہے، بہرحال موجودہ صورتحال عمران خان کے حق میں زیادہ خوش کن نہیں سوال اُدھر کی پیشگوئی اوراس حساب کتاب کا بھی ہے، جو ان کے لیے کچھ ذرایع انجام دیتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو فلاں کام کرو یا نہیں کرو، تو بہتر رہے گا ورنہ ابتر ہوجائے گا، وہ ایسے میں کیا کہتے ہیں معلوم نہیں، مجھے جو نظر آیا میں نے کہہ دیا، یہ کوئک مارچ جو میرے آج کے کالم کا ایک حصہ ہے، اس سے مراد خدا نخواستہ کوئی مارشل لاء ہرگز نہیں۔
چلیں سوچتے ہیں کہ ایسا بے محل لفظ کیوں بیچ میں آگیا؟ اور لیجیے میرے کالم تحریرکرتے کرتے سینیٹ کے الیکشن کی تاریخ فکس کردی گئی۔ تین مارچ کو الیکشن ہونے جارہے ہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی اس میں حصہ لینے جا رہی ہے ،اُدھر شیخ رشید کا استعفیٰ بھی کھٹائی میں پڑگیا وہ صاف مکرگئے اور ان کی حکومت جانے کی پیشں گوئی کا تو ذکر ہی کیا۔
بہرحال معاملات اب نسبتا بہتری کی جانب گامزن ہیں، سپریم کورٹ کا نااہلی کی مدت پر ایک کیس کی سماعت میں نواز شریف اور جہانگیر ترین کو بلانا برمحل اور راست قدم ہے اس معاملے کو طے بھی ہونا چاہیے،اگر کسی کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہوں تو ابہام دورکرنا ضروری، یہ سوچنے کی بجائے کہ فائدہ کس کو ہوگا، نقصان کس کو انصاف ہونا چاہیے۔ لگتا ہے کہیں نہ کہیں،کسی نہ کسی کوکچھ باتوں کا احساس ہوا میں نے یہاں دانستہ غلطی کا لفظ استعمال نہیں کیا، لیکن اگر بات احساس کی حد تک بھی ہے تو خوش آیند ضرور ہے۔ توازن کائنات کا حُسن ہے یہ کہیں پر بھی بگڑجائے خواہ وہ ادارے ہوں یا حکومت معاملات چل نہیں پاتے، دیرآیددرست آید والی بات ہے۔ ویسے دو، تین وزرائے اعظموں کی نااہلی نے اگر ایک طرف ملک کو ہلا کر رکھ دیا تو دوسری جانب حکمرانوں میں میں وہ خوف بھی پیدا کیا جس کے بعد کھُل کے کھانے اورگانا گانے والی بات اب اس قدر آسان نہیں رہی۔
عرصے سے چرچا تھا کہ خیبر پختونخوا کی پولیس میں انقلابی ریفارمز عمل میں لائے گئے اور اب وہاں کی پولیس کسی طرح اسکاٹ لینڈ یارڈ کی پولیس سے کم نہیں، لیکن ایک تین سالہ معصوم بچی عاصمہ، شریفاں بی بی، پھر ایک میڈیکل کالج کی طالبہ کے منگنی سے انکار پر قتل نے اورکسی قاتل کے گرفتار نہ ہونے نے سبھی کو سوچنے پر مجبورکردیا۔آخرکار چیف جسٹس سپریم کورٹ کو بھی سوموٹو ایکشن لینا پڑا،کیا عمران خان محض نواز شریف مخالفت پر سیاست کررہے ہیں،کیا یہ لڑائی ایک حکومت کے حصول کی حد تک ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں؟
اگر ایسا ہے تو یہ موصوف عمران خان کی ساری سیاست کے لیے زہرِ قاتل ہے، میرے نذدیک کوئی منزل ہے نہ راستہ، بس ایک لا حاصل سفر۔ جس کا اختتام کہیں پر بھی ممکن ہے، شاید اس الیکشن کے بعد بھی، لیکن میرے نزدیک یہ برا ہوگا،شاید بہت برا،کیونکہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ عمران خان کی اپوزیشن کے باعث ہی پنجاب ترقی کرسکا، ہم عمران خان کے سیاسی طرزِ عمل سے لاکھ اختلاف کریں لیکن انھوں نے ایک مظبوط اپوزیشن کی جس میں کوئی دوستانہ سمجھوتہ بہرحال نہیں تھا،جس سے ملک وقوم کو خاطر خواہ فائدے بھی ہُوئے، نواز شریف حکومت کو کھُل کر من مانی کا موقع مل سکا نا مہنگائی اور ذاتی مفادات حاصل کرنے کا، لہٰذا عمران خان کو پہنچنے والا سیاسی نقصان یا ان کی جماعت کو ایک طرح سے ملکی نقصان ہوگا، میں کم ازکم ایسا ہی سمجھتا ہُوں۔میری دعا ہے کہ کاش وہ وقت کی آوازکو سن سکیں ''سنتا ہے سمے تجھ کو سناتا کیا ہے؟''
قارئینِ کرام ! اب الیکشن کی چاپیں صاف صاف سنائی دینے لگی ہیں، ٹیکنوکریٹ حکومت، مارشل لاء یا عبوری حکومت کا طویل قیام بعید از قیاس لگتا ہے،اگرچہ شیخ رشیدکی امیدیں ختم ہونے پر نہیں آتیں لیکن بظاہر سب کچھ ٹھیک ٹھاک جارہا ہے۔ ایک بات جو اور سمجھ سے بالاتر رہی کہ اب اس سارے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کے کردارکوکیا نام دیا جائے؟ جس پر یہ سارے شک کیے گئے،آج تو نہ وہ سپریم کورٹ رہی جس نے نواز شریف کو نا اہل قرار دیا تھا نہ وہ خفیہ والے اور تواور اب نوازشریف کے بیان ومکان میں سے ایک ذکر نکل گیا ایک باقی ہے، یعنی اب صرف عدلیہ پر طعنہ زن دکھائی دیتے ہیں، یہ کیسے ہُوا؟ خدا نخوستہ کوئی ڈیل! یا کوئی این ،آر،او آخر معاملہ کیا ہے؟ چیزیں تو بدلی ہیں لیکن کیسے اورکب؟ اس کا ادراک کون کرے؟ دیکھا جائے تو شہباز شریف کے خلاف جو بھی کیس دائر ہُوا یا کیا گیا وہ ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا یا کروادیا گیا، یاالٰہی یہ ماجرا کیا ہے، آخر اس راز میں چھپا کیا ہے؟
قارئینِ کرام! یہ پاکستان ہے،کہنا پڑے گا ''یہاں یاروں کو بھی غافل نا لکھنا '' مجھے آنے والے الیکشن میں بھی کوئی قابلِ ذکر تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دیتے کیونکہ کوئی بدلاؤ ہم میں نہیں، ہم اُسی تنخواہ پر کام کرنے پر نا صرف یہ کہ راضی ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ مستعد بھی، ہر طرف اُنہی نعروں کی گونج ،''کون آیا شیر آیا''، صاف چلی شفاف چلی، پھر اک بھابی آن ملی۔ اُڑی اُڑی رے پتنگ میری اُڑی رے ۔کٹی کٹی رے اُمنگ تیری کٹی رے۔ ہم وہی ہیں ،ہم وہیں ہیں،ہم بدلیں تو نظام بدلے،سیاستدان بدلیں ۔
ماننا ہوگا ان دنوں چیف جسٹس ان ایکشن ہیں اور انھوں نے ان بنیادی مسائل کا احاطہ کیا ہُوا ہے جو عوام ا لناس کو اولین فرصت میں درپیش اور فوری نوعیت کے ہیں،جس میں پینے کا آلودہ پانی،پاؤڈر ملا دودھ، معصوم اورکمسن بچوں کے ساتھ اغوا اور قتل جیسے سنگین مسائل پر ان کی کوششوں کی تعریف نہ کرنا بڑی زیادتی ہوگی ۔میں بہترین الفاظ میں انھیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہُوں۔
خود سے بھی کہنا ہوگا،خود سے مراد ہم عوام ہیں کہ۔خدارا بدلیں، یہ الیکشن نہیں ہمارے بچوں کا مستقبل ہے، ہماری آنے والی نسلوں کی بقاء کا سوال۔کسی کوکسی بنیاد پر آٹا،چینی،دال،گھی،پٹرول، بجلی،گیس سستا نہیں ملا ،خواہ وہ کسی بھی قوم، قبیلے، فرقے سے تھا ،چھوڑیے اِن فضولیات کو ۔یہ دیکھئے کہ قابل کون ہے اور قاتل کون؟
جنوری بہرحال گزرگیا، اب فروری ہے، پھر مارچ، اس کے بعد تو وقت کے نجومی خاموش ہیں، ستارہ شناس چپ ... میری کیا مجال کہ کوئی تبصرہ کروں، خیر جو بھی ہو ہمارا کیا اور کوئی بھی آئے ہمیں کونسا فرق پڑنے والا ہے،کوئی بھی آئے اورکچھ بھی ہو ملک کی اٹھانوے فیصد کلاس پر جو پتہ نہیں کس لکیر سے نیچے زندگی بسرکر رہی ہے، لیکن رکیے یہاں میں نے 'بسر'کا لفظ استعمال کرکے تکلف کیا،کہنا تھا کس لکیرکے تلے زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہی ہے۔
کوئی فرق نہیں پڑنے والا، یہ بس ایک ڈھکوسلہ ہے، یا کہہ لیجیے تسلسل،اس سے بھی تسلیِ نہ ہو تو پیدا ہونے کے بعد موت تک کا وقفہ،اب ظاہر ہے اُس میں کچھ نہ کچھ تو ہونا ہے،خواہ الیکشن ہوں یا سلیکشن۔ تو میں کہہ رہا تھا مارچ آنے کو ہے اب زیادہ دن باقی نہیں، لگتا ہے میاں صاحب اپنی سیاسی حکمتِ عملی میں کامیاب رہے یا کہنا چاہیے قدرت نے ان کی مدد کی،ان کا پاناما فیصلے کے بعد ججز اور خفیہ والوں پر تنقیدکرنا،کرتے رہنا بہرحال ایک پریشر بنا ہی گیا، ممکن ہے میری غلط فہمی ہو لیکن کچھ نادیدہ ہاتھ معمولی سے پیچھے ہٹتے تودکھائی دیے ہیں۔
حالانکہ احتساب عدالت میں ان کے خلاف کیسزکی سماعت بلا تاخیر جاری ہے وہ پیش بھی ہو رہے ہیں بس اب وہ بات دکھائی نہیں دے رہی، یہ کوئی ڈیل بھی ہوسکتی ہے جو ان کے اسمارٹ برادرِ برخوردار کے ذریعے سے ہُوئی ہو، ایسا ممکن ہوسکتا ہے، بہرحال موجودہ صورتحال عمران خان کے حق میں زیادہ خوش کن نہیں سوال اُدھر کی پیشگوئی اوراس حساب کتاب کا بھی ہے، جو ان کے لیے کچھ ذرایع انجام دیتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو فلاں کام کرو یا نہیں کرو، تو بہتر رہے گا ورنہ ابتر ہوجائے گا، وہ ایسے میں کیا کہتے ہیں معلوم نہیں، مجھے جو نظر آیا میں نے کہہ دیا، یہ کوئک مارچ جو میرے آج کے کالم کا ایک حصہ ہے، اس سے مراد خدا نخواستہ کوئی مارشل لاء ہرگز نہیں۔
چلیں سوچتے ہیں کہ ایسا بے محل لفظ کیوں بیچ میں آگیا؟ اور لیجیے میرے کالم تحریرکرتے کرتے سینیٹ کے الیکشن کی تاریخ فکس کردی گئی۔ تین مارچ کو الیکشن ہونے جارہے ہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی اس میں حصہ لینے جا رہی ہے ،اُدھر شیخ رشید کا استعفیٰ بھی کھٹائی میں پڑگیا وہ صاف مکرگئے اور ان کی حکومت جانے کی پیشں گوئی کا تو ذکر ہی کیا۔
بہرحال معاملات اب نسبتا بہتری کی جانب گامزن ہیں، سپریم کورٹ کا نااہلی کی مدت پر ایک کیس کی سماعت میں نواز شریف اور جہانگیر ترین کو بلانا برمحل اور راست قدم ہے اس معاملے کو طے بھی ہونا چاہیے،اگر کسی کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہوں تو ابہام دورکرنا ضروری، یہ سوچنے کی بجائے کہ فائدہ کس کو ہوگا، نقصان کس کو انصاف ہونا چاہیے۔ لگتا ہے کہیں نہ کہیں،کسی نہ کسی کوکچھ باتوں کا احساس ہوا میں نے یہاں دانستہ غلطی کا لفظ استعمال نہیں کیا، لیکن اگر بات احساس کی حد تک بھی ہے تو خوش آیند ضرور ہے۔ توازن کائنات کا حُسن ہے یہ کہیں پر بھی بگڑجائے خواہ وہ ادارے ہوں یا حکومت معاملات چل نہیں پاتے، دیرآیددرست آید والی بات ہے۔ ویسے دو، تین وزرائے اعظموں کی نااہلی نے اگر ایک طرف ملک کو ہلا کر رکھ دیا تو دوسری جانب حکمرانوں میں میں وہ خوف بھی پیدا کیا جس کے بعد کھُل کے کھانے اورگانا گانے والی بات اب اس قدر آسان نہیں رہی۔
عرصے سے چرچا تھا کہ خیبر پختونخوا کی پولیس میں انقلابی ریفارمز عمل میں لائے گئے اور اب وہاں کی پولیس کسی طرح اسکاٹ لینڈ یارڈ کی پولیس سے کم نہیں، لیکن ایک تین سالہ معصوم بچی عاصمہ، شریفاں بی بی، پھر ایک میڈیکل کالج کی طالبہ کے منگنی سے انکار پر قتل نے اورکسی قاتل کے گرفتار نہ ہونے نے سبھی کو سوچنے پر مجبورکردیا۔آخرکار چیف جسٹس سپریم کورٹ کو بھی سوموٹو ایکشن لینا پڑا،کیا عمران خان محض نواز شریف مخالفت پر سیاست کررہے ہیں،کیا یہ لڑائی ایک حکومت کے حصول کی حد تک ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں؟
اگر ایسا ہے تو یہ موصوف عمران خان کی ساری سیاست کے لیے زہرِ قاتل ہے، میرے نذدیک کوئی منزل ہے نہ راستہ، بس ایک لا حاصل سفر۔ جس کا اختتام کہیں پر بھی ممکن ہے، شاید اس الیکشن کے بعد بھی، لیکن میرے نزدیک یہ برا ہوگا،شاید بہت برا،کیونکہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ عمران خان کی اپوزیشن کے باعث ہی پنجاب ترقی کرسکا، ہم عمران خان کے سیاسی طرزِ عمل سے لاکھ اختلاف کریں لیکن انھوں نے ایک مظبوط اپوزیشن کی جس میں کوئی دوستانہ سمجھوتہ بہرحال نہیں تھا،جس سے ملک وقوم کو خاطر خواہ فائدے بھی ہُوئے، نواز شریف حکومت کو کھُل کر من مانی کا موقع مل سکا نا مہنگائی اور ذاتی مفادات حاصل کرنے کا، لہٰذا عمران خان کو پہنچنے والا سیاسی نقصان یا ان کی جماعت کو ایک طرح سے ملکی نقصان ہوگا، میں کم ازکم ایسا ہی سمجھتا ہُوں۔میری دعا ہے کہ کاش وہ وقت کی آوازکو سن سکیں ''سنتا ہے سمے تجھ کو سناتا کیا ہے؟''
قارئینِ کرام ! اب الیکشن کی چاپیں صاف صاف سنائی دینے لگی ہیں، ٹیکنوکریٹ حکومت، مارشل لاء یا عبوری حکومت کا طویل قیام بعید از قیاس لگتا ہے،اگرچہ شیخ رشیدکی امیدیں ختم ہونے پر نہیں آتیں لیکن بظاہر سب کچھ ٹھیک ٹھاک جارہا ہے۔ ایک بات جو اور سمجھ سے بالاتر رہی کہ اب اس سارے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کے کردارکوکیا نام دیا جائے؟ جس پر یہ سارے شک کیے گئے،آج تو نہ وہ سپریم کورٹ رہی جس نے نواز شریف کو نا اہل قرار دیا تھا نہ وہ خفیہ والے اور تواور اب نوازشریف کے بیان ومکان میں سے ایک ذکر نکل گیا ایک باقی ہے، یعنی اب صرف عدلیہ پر طعنہ زن دکھائی دیتے ہیں، یہ کیسے ہُوا؟ خدا نخوستہ کوئی ڈیل! یا کوئی این ،آر،او آخر معاملہ کیا ہے؟ چیزیں تو بدلی ہیں لیکن کیسے اورکب؟ اس کا ادراک کون کرے؟ دیکھا جائے تو شہباز شریف کے خلاف جو بھی کیس دائر ہُوا یا کیا گیا وہ ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا یا کروادیا گیا، یاالٰہی یہ ماجرا کیا ہے، آخر اس راز میں چھپا کیا ہے؟
قارئینِ کرام! یہ پاکستان ہے،کہنا پڑے گا ''یہاں یاروں کو بھی غافل نا لکھنا '' مجھے آنے والے الیکشن میں بھی کوئی قابلِ ذکر تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دیتے کیونکہ کوئی بدلاؤ ہم میں نہیں، ہم اُسی تنخواہ پر کام کرنے پر نا صرف یہ کہ راضی ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ مستعد بھی، ہر طرف اُنہی نعروں کی گونج ،''کون آیا شیر آیا''، صاف چلی شفاف چلی، پھر اک بھابی آن ملی۔ اُڑی اُڑی رے پتنگ میری اُڑی رے ۔کٹی کٹی رے اُمنگ تیری کٹی رے۔ ہم وہی ہیں ،ہم وہیں ہیں،ہم بدلیں تو نظام بدلے،سیاستدان بدلیں ۔
ماننا ہوگا ان دنوں چیف جسٹس ان ایکشن ہیں اور انھوں نے ان بنیادی مسائل کا احاطہ کیا ہُوا ہے جو عوام ا لناس کو اولین فرصت میں درپیش اور فوری نوعیت کے ہیں،جس میں پینے کا آلودہ پانی،پاؤڈر ملا دودھ، معصوم اورکمسن بچوں کے ساتھ اغوا اور قتل جیسے سنگین مسائل پر ان کی کوششوں کی تعریف نہ کرنا بڑی زیادتی ہوگی ۔میں بہترین الفاظ میں انھیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہُوں۔
خود سے بھی کہنا ہوگا،خود سے مراد ہم عوام ہیں کہ۔خدارا بدلیں، یہ الیکشن نہیں ہمارے بچوں کا مستقبل ہے، ہماری آنے والی نسلوں کی بقاء کا سوال۔کسی کوکسی بنیاد پر آٹا،چینی،دال،گھی،پٹرول، بجلی،گیس سستا نہیں ملا ،خواہ وہ کسی بھی قوم، قبیلے، فرقے سے تھا ،چھوڑیے اِن فضولیات کو ۔یہ دیکھئے کہ قابل کون ہے اور قاتل کون؟