لندن اولمپکس میں پاکستان کی کارکردگی
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ہماری ہاکی ٹیم اور ہمارے دیگر کھلاڑی کسی عالمی ایونٹ سے اس طرح سے مقابلوں سے باہر ہوئے ہیں۔
پاکستان کی ہاکی ٹیم اولمپکس لندن 2012 کے ایک اہم میچ میں آسٹریلیا سے شکست کھا گئی اور اس طرح اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے کی ہماری آخری امید بھی دم توڑ گئی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے اولمپکس میں جن دیگر ایونٹس میں حصہ لیا تھا ان میں ہمارے اکثر کھلاڑی پہلے ہی دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں۔
ایک آخری امید ہاکی کی ٹیم سے تھی جو اس کے آسٹریلیا کے ہاتھوں سات صفر سے ہارنے کے باعث پوری نہ ہو سکی۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جو تقاضا کرتا ہے کہ ہماری کھیل کی وزارتیں ملک میں کھیلوں کے فروغ پر توجہ دیں۔ اس حقیقت سے بہرحال انکار ممکن نہیں کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارا ملک کھیلوں کے شعبے میں کمزور جا رہا ہے جس کی وجہ ٹیلنٹ کا نہ ہونا نہیں بلکہ ملک میں موجود بے تحاشا ٹیلنٹ سے فائدہ نہ اُٹھانا ہے۔
یہ ایک عالمی سچائی ہے کہ جب دو ٹیمیں کھیل کے لیے میدان میں اترتی ہیں تو ان میں سے جیتنا بہرحال کسی ایک ٹیم نے ہی ہوتا ہے لیکن دیکھنے والے یہ پرکھنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں کہ کون سی ٹیم کھیل کر ہاری ہے اور کون سی شکست ماتھے پر سجائے میدان میں اتری ہے' ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتی ہیں لیکن کھیل کر اور جی جان لڑانے کے باوجود ہارا جائے تو الگ بات ہے لیکن بے دلی' بے یقینی اور بے کیفی سے کھیلا جائے تو اس کو محض ہار کا نام نہیں دیا جا سکتا۔
ہماری ہاکی ٹیم منگل کو آسٹریلیا کے ساتھ مقابلے میں کچھ اس طرح سے کھیلی جیسے پہلی بار ان کے ہاتھوں میں ہاکیاں پکڑا کر میدان میں اتارا گیا ہو' نہ تو فارورڈر کچھ کارکردگی دکھا سکے اور نہ ہی ڈیفنڈر گول میں جاتی ہوئی گیند روکنے میں کامیاب ہو سکے۔ لیکن اس میں کھلاڑی کا بھی زیادہ قصور نظر نہیںآتا ان کی کوچنگ ٹھیک ہوتی' رہنمائی درست ہوتی تو شاید اچھا رزلٹ سامنے آ جاتا لیکن جب مینجمنٹ قوم کو یہ 'مژدہ' سنا کر کھلاڑیوں کو اولمپکس میں لے کر جائے کہ ان سے اچھی کارکردگی کی توقع نہ کی جائے یعنی کسی میڈل کی توقع نہ کی جائے تو بتائیے کھلاڑی وہاں کیا کریں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ہماری ہاکی ٹیم اور ہمارے دیگر کھلاڑی کسی عالمی ایونٹ سے اس طرح سے مقابلوں سے باہر ہوئے ہیں' قوم کو ایسی بدخبریاں اس سے پہلے کئی بار سننے کو مل چکی ہیں۔ ایسی ہر شکست کے بعد یہ توقع کی جاتی ہے کہ شاید اگلی بار کارکردگی بہتر ہو جائے گی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات والا نکلتا ہے۔ عالمی مقابلوں میں ہماری ٹیموں کی ناقص کارکردگی کی ایک وجہ سفارش بھی ہے اور اس حقیقت سے تو سبھی آگاہ ہیں کہ سفارش سے بھرتی کیا گیا کھلاڑی کارکردگی دکھانے سے قاصر رہتا ہے۔
اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ملک میں کھیلوں کے فروغ کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے اور مناسب اقدامات عمل میں لائے جائیں' اس سلسلے میں پہلا اقدام کھیلوں سے سفارش کا خاتمہ اور دوسرا قدم شفاف ٹیلنٹ ہنٹ کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اولمپکس کے عالمی مقابلے محض میڈل جیتنے کی دوڑ کا نام نہیں ہے بلکہ ان میں کسی ملک کی صحت مندانہ سرگرمیوں کا اظہار بھی ہوتا ہے' یہ افسوس کا مقام ہے کہ جہاں دیگر متعدد ممالک درجنوں میڈلز حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں حتیٰ کہ تیسری دنیا کے بعض ترقی پذیر ممالک بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں' چند ایک مواقع چھوڑ کر ہمیں ہر بار ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے حالانکہ تھوڑی سی توجہ دے کر اس صورتحال سے بچا جا سکتا ہے' ارباب اختیار کو اس جانب توجہ دینا چاہیے۔
ایک آخری امید ہاکی کی ٹیم سے تھی جو اس کے آسٹریلیا کے ہاتھوں سات صفر سے ہارنے کے باعث پوری نہ ہو سکی۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جو تقاضا کرتا ہے کہ ہماری کھیل کی وزارتیں ملک میں کھیلوں کے فروغ پر توجہ دیں۔ اس حقیقت سے بہرحال انکار ممکن نہیں کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارا ملک کھیلوں کے شعبے میں کمزور جا رہا ہے جس کی وجہ ٹیلنٹ کا نہ ہونا نہیں بلکہ ملک میں موجود بے تحاشا ٹیلنٹ سے فائدہ نہ اُٹھانا ہے۔
یہ ایک عالمی سچائی ہے کہ جب دو ٹیمیں کھیل کے لیے میدان میں اترتی ہیں تو ان میں سے جیتنا بہرحال کسی ایک ٹیم نے ہی ہوتا ہے لیکن دیکھنے والے یہ پرکھنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں کہ کون سی ٹیم کھیل کر ہاری ہے اور کون سی شکست ماتھے پر سجائے میدان میں اتری ہے' ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتی ہیں لیکن کھیل کر اور جی جان لڑانے کے باوجود ہارا جائے تو الگ بات ہے لیکن بے دلی' بے یقینی اور بے کیفی سے کھیلا جائے تو اس کو محض ہار کا نام نہیں دیا جا سکتا۔
ہماری ہاکی ٹیم منگل کو آسٹریلیا کے ساتھ مقابلے میں کچھ اس طرح سے کھیلی جیسے پہلی بار ان کے ہاتھوں میں ہاکیاں پکڑا کر میدان میں اتارا گیا ہو' نہ تو فارورڈر کچھ کارکردگی دکھا سکے اور نہ ہی ڈیفنڈر گول میں جاتی ہوئی گیند روکنے میں کامیاب ہو سکے۔ لیکن اس میں کھلاڑی کا بھی زیادہ قصور نظر نہیںآتا ان کی کوچنگ ٹھیک ہوتی' رہنمائی درست ہوتی تو شاید اچھا رزلٹ سامنے آ جاتا لیکن جب مینجمنٹ قوم کو یہ 'مژدہ' سنا کر کھلاڑیوں کو اولمپکس میں لے کر جائے کہ ان سے اچھی کارکردگی کی توقع نہ کی جائے یعنی کسی میڈل کی توقع نہ کی جائے تو بتائیے کھلاڑی وہاں کیا کریں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ہماری ہاکی ٹیم اور ہمارے دیگر کھلاڑی کسی عالمی ایونٹ سے اس طرح سے مقابلوں سے باہر ہوئے ہیں' قوم کو ایسی بدخبریاں اس سے پہلے کئی بار سننے کو مل چکی ہیں۔ ایسی ہر شکست کے بعد یہ توقع کی جاتی ہے کہ شاید اگلی بار کارکردگی بہتر ہو جائے گی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات والا نکلتا ہے۔ عالمی مقابلوں میں ہماری ٹیموں کی ناقص کارکردگی کی ایک وجہ سفارش بھی ہے اور اس حقیقت سے تو سبھی آگاہ ہیں کہ سفارش سے بھرتی کیا گیا کھلاڑی کارکردگی دکھانے سے قاصر رہتا ہے۔
اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ملک میں کھیلوں کے فروغ کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے اور مناسب اقدامات عمل میں لائے جائیں' اس سلسلے میں پہلا اقدام کھیلوں سے سفارش کا خاتمہ اور دوسرا قدم شفاف ٹیلنٹ ہنٹ کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اولمپکس کے عالمی مقابلے محض میڈل جیتنے کی دوڑ کا نام نہیں ہے بلکہ ان میں کسی ملک کی صحت مندانہ سرگرمیوں کا اظہار بھی ہوتا ہے' یہ افسوس کا مقام ہے کہ جہاں دیگر متعدد ممالک درجنوں میڈلز حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں حتیٰ کہ تیسری دنیا کے بعض ترقی پذیر ممالک بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں' چند ایک مواقع چھوڑ کر ہمیں ہر بار ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے حالانکہ تھوڑی سی توجہ دے کر اس صورتحال سے بچا جا سکتا ہے' ارباب اختیار کو اس جانب توجہ دینا چاہیے۔