بھارت کو کرارا جواب
1937ء میں بھارت پولیس اور فوج نے تاملوں کو ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا
انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کو دکھانے کے لیے متعدد ممالک میں تشہیری مہم کا آغازکردیا ہے۔ تشہیری مہم میں کشمیر سمیت بھارت کے زیر انتظام علاقوں میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے گئے غیر انسانی سلوک اور اقوام متحدہ کے چارٹرکی صریحاً خلاف ورزیوں کو بل بورڈز اورگاڑیوں پر ڈیجیٹل سسٹم کے ذریعے اجاگر کیا جا رہا ہے۔ اٹلی کے شہر بریشیا میں سپریم کونسل بریشیا کے زیراہتمام بریشیا سٹی میں دو ہفتے کے لیے فری کشمیر پبلسٹی مہم کا آغاز کیا گیا، جس میں پبلک ٹرانسپورٹ کی مختلف روٹس پر چلنے والی بسوں پر فری کشمیر کی تشہیری مہم آویزاں کی گئی۔ اس مہم کے پہلے فیز سے نہ صرف مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر مزید اجاگر ہوگا، بلکہ مظلوم اور نہتے کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا شاندار اظہار ہوگا۔ لارڈ نذیرکا کہنا ہے کہ اپریل میں لندن میں ہونے والی کامن ویلتھ ممالک کی کانفرنس کے موقعے پر ان کی مہم زور پکڑے گی ۔کانفرنس میں بھارتی وزیر اعظم کے دورے کے موقعے پرکشمیری، سکھ اور دیگر اقلیتیں اس مہم میں تیزی لائیں گی۔
ستمبر2017ء میں جنیوا میں بھارت کی سرپرستی میں متعدد مقامات ، بسوں اور گاڑیوں پر ''فری بلوچستان'' کے پوسٹر آویزاں کیے گئے تھے۔ اس کے بعد بھارت نے مختلف مہینوں میں برطانیہ اور امریکا میں ''فری بلوچستان'' مہم شروع کر کے پاکستان دشمنی کا ثبوت دیا، جسے پاکستان نے ملکی سالمیت پر براہ راست حملے کے مترادف قرار دیا اور متعلقہ ممالک سے بھارت کی سازش اور منافقت پر مبنی اس مہم کو روکنے کا مطالبہ کیا، لیکن بھارت، پاکستان دشمن منظم لابی کی پشت پناہی کرنے سے باز نہ آیا، جس کے جواب میں لارڈ نذیراحمد نے لندن میں کشمیری، سکھ برادری اور دیگرکی طرف سے فری کشمیر، فری خالصتان، فری ناگالینڈ اور ''فری آسام'' مہم شروع کی، جس کا آغاز 26 جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے دن سے کیا گیا۔ اس دن بسوں پر پوسٹر لگا کر سینٹرل لندن میں تشہیر کی گئی۔
26جنوری کو جب مودی حکومت یومِ جمہوریہ منا رہی تھی تو دنیا بھر کے کئی اہم دارالحکومتوں میں کشمیری اور سکھ اسے بلیک ڈے کے طور پر منا رہے تھے۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ بھارت سے علیحدگی چاہنے والوں کا جوش جذبہ دیدنی تھا اور جگہ جگہ فری کشمیر، فری خالصتان اور فری ناگالینڈ کے مطالبے سامنے آئے۔ احتجاجی مظاہروں میں بڑی تعداد میں کشمیریوں اور سکھوں نے شرکت کی۔ شرکاء نے اپنی گاڑیوں پرآزاد آسام، آزاد خالصتان، مقبوضہ کشمیر کی آزادی، اقلیتوں پر ظلم و بربریت بند کرو، والے پوسٹر اٹھا رکھے تھے۔ یہ مہم لندن سے دیگر کئی ممالک میں پھیل چکی ہے۔ کشمیر، خالصہ اور بھارت کی دیگر ریاستوں میں جاری تحریک آزادی کے عہدیدار اس مہم میں پیش پیش ہیں۔
بھارتی فوج برسوں سے نہتے کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے اور مقبوضہ جموں کشمیر میں ریاستی دہشتگردی کی کارروائیوں میں 1989ء سے اب تک تقریباً ایک لاکھ بے گناہ کشمیریوں کو شہید کرچکی ہے۔ ہزاروں خواتین بیوہ، بچے یتیم اور نوجوان لاپتہ ہوچکے ہیں ۔ ہزاروں خواتین کی بے حرمتی کی جاچکی ہے، جب کہ کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ہزاروں کشمیریوں کو مختلف جیلوں میں قید کیا گیا۔ بھارت نے کشمیری عوام میں جدوجہد آزادی کی روح سرے سے ختم کرنے کے لیے کشمیریوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، لیکن غیور اور بہادر کشمیری روز اول سے بھارت کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اور اپنی آزادی کی آواز اٹھا رہے ہیں، لیکن اب انھوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر مختلف ممالک میں اپنی آزادی کے حوالے سے اشتہارات کے ذریعے آگاہی مہم شروع کی ہے۔ دوسری جانب دنیا بھر میں موجود سکھوں نے بھارت سے علیحدہ ہونے کی تحریک تیزکردی ہے۔
1970ء میں بھارتی پنجاب میں سکھوں نے اکالی دل کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی، جس کا مقصد سکھوں کے حقوق کی پاس داری تھا۔ بھارتی حکومت نے سکھوں کے جائز مطالبات پر کان نہیں دھرے اور نسلی و مذہبی تعصب کی بنا پر امتیازی سلوک اور زیادتیاں جاری رکھیں تو سکھوں نے 1980ء میں باقاعدہ مسلح جدوجہد کا آغاز کردیا۔ بھارتی حکومت نے سکھوں کی اس تحریک کو کچلنے کے لیے ریاستی طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔ سکھوں کی آبادیوں پر باقاعدہ فوج کشی کروائی گئی اور 1984ء میں بھارتی فوج نے امرتسرکے گولڈن ٹمپل پر باقاعدہ حملہ کردیا۔اس دوران اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو ان کے دو سکھ محافظوں نے قتل کردیا ۔
جس سے صورتحال مزید خراب ہوگئی۔ حکومت کے حکم پر بھارتی فوج نے اکالی دل و خالصتان تحریک کی قیادت کے خلاف بھرپور طاقت کا استعمال کرتے ہوئے تحریک کو دبادیا تھا، لیکن اب ہرگزرتے دن کے ساتھ اس تحریک میں نیا جوش اور ولولہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ سکھ تنظیموں نے خالصتان کی تحریک کو کامیاب بنانے اور 2020ء ریفرنڈم کے لیے بھرپور مہم جوئی شروع کر دی ہے۔ تحریک کے ذمے داروں اور عہدیداروں کا کہنا ہے کہ 80ء اور 90 ء کی دہائی میں بھارتی حکومت کے مظالم سے تنگ آ کر 90 فیصد سکھ دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہوگئے تھے اور اب وہ مالی طور پرکافی مستحکم ہوچکے ہیں اور خالصتان تحریک کے لیے مہم چلانے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
اسی طرح تاملوں نے بھی بھارت سے علیحدگی کی ٹھانی ہوئی ہے۔ 1937ء میں بھارت پولیس اور فوج نے تاملوں کو ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ پر امن احتجاج کرنے والے تاملوں پر بھارتی حکمرانوں نے بہیمانہ تشدد کرایا، جس کے بعد تاملوں نے بھارت سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کردی۔ تامل ناڈوکی آزادی کی یہ تحریک اب بھی جاری ہے۔
بھارتی ریاست آسام میں بھی آزادی کی تحریک 90 کی دہائی میں شروع ہوئی، جب بھارتی فوج نے 10 ہزار سے زائد آسامیوں کو قتل کرکے آسام کے لوگوں پر ظلم وجبرکی انتہا کردی۔ آسامیوں پر بھارتی فوج کے مظالم کے سبب آسامیوں کے دلوں میں آزادی کی تڑپ مزید بڑھتی جارہی ہے۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت کے زیر تسلط علاقوں میں فقط کشمیر میں ہی انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اور صرف کشمیر سے ہی آزادی اور علیحدگی کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں، حالانکہ اس وقت پورا بھارت آتش فشاں بنا ہوا ہے، جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے، کیونکہ بھارت میں ذات پات، نسل و برادری، مذہب اور رسم و رواج کے نام پر انسانی حقوق کی جی بھر کر تذلیل کی جاتی ہے۔ حقوق انسانی کے چارٹرزکی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔
بھارت میں مذہب، عقیدہ اور ذات پات کی بنیاد پر لوگوں کو ہراساں کرنا، ان کا قتل عام کرنا، کاروبار اور جائیداد کو نذر آتش کرنا معمول کی بات ہے اور یہ سارے کام حکومت کی محفوظ چھتری تلے سرانجام دیے جاتے ہیں۔ جب عوام کی برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ ہتھیار اٹھا کر اپنے حقوق کے لیے مسلح تحریک کا آغاز کر دیتے ہیں۔ کشمیر کے علاوہ مشرقی پنجاب (خالصتان)، تامل ناڈو، آسام، ناگا لینڈ، تری پورہ، منی پورہ، میزورام سمیت شمال مشرقی بھارت کی کئی ریاستوں میں علیحدگی کی مضبوط تحریکیں چل رہی ہیں۔ بھارت عالمی طاقتوں کی پشت بانی، کالے قوانین اور قوت کے بے محابا استعمال کی وجہ سے علیحدگی کی ان تحریکوں کو دبائے رکھنے میں کافی حد تک کامیاب نظر آتا ہے، لیکن وہ کب تک ایسا کرسکے گا؟ اپنی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے سبب ایک دن ان علیحدگی پسند تحریکوں کے سامنے بھارت کو گھٹنے ٹیکنے ہی پڑیں گے۔