نظریہ ضرورت
نظریہ ضرورت غیر فطری طور پر نہیں آتا۔ وہ فطری ہے اگر حالات مطابقت رکھتے ہو
میاں صاحب نے اس دفعہ جب کراچی کا دورہ کیا ان کے دونوں پروگرامز میں شرکت کا موقع ملا۔ ایک سیمینار تھا، وہ جلسہ نما سیمینار تھا اور دوسرا پروگرام وکیلوں کا منعقدہ تھا اور میں بھی اسی فیلڈ سے تعلق رکھتا ہوں۔ قصہ یہ ہے کہ میاں صاحب اس بار ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ آرہے ہیں۔ وہ کورٹ کو براہ راست نشانہ بنارہے ہیں۔ ان کے ساتھ جو بھی ہوا میاں صاحب اس کو پاکستان کا تاریخی حصہ سمجھ کر پیش کررہے ہیں کہ یہاں اس ملک میںElected وزیر اعظم کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے اور پھر وہ نظریہ ضرورت پر کھل کر بول رہے تھے۔ بولنا بھی چاہیے، جو بات سمجھنے کی ہے کہ وہ یہ ہے کہ نظریہ ضرورت ایک حقیقت ہے۔
بہ حیثیت ایک سیاسی شاگرد میں نظریہ ضرورت کا مخالف رہا اور بہت کچھ لکھا بھی لیکن جب سے میں آئین اور قانون کا شاگرد ہوا ہوں میری سوچ کے زاویے بدل گئے ہیں۔ میاں صاحب صحیح کہتے ہیں کہ پاکستان کے Elected وزرائے اعظم کے ساتھ ایسا بھی ہوا ہے جوکچھ ان کے ساتھ ہوا مگر ان تمام وزیراعظم میں جو دو وزیر اعظم ہیں یعنیٰ ذوالفقارعلی بھٹو اور نواز شریف وہ دونوں ہی نظریہ ضرورت کی پیداوار ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان دونوں کو نظریہ ضرورت نے وزیر اعظم بننے کے بعد رہنے نہ دیا۔کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اگر نظریہ ضرورت کے پیچھے کوئی طاقت نہ ہو تو خود وزیراعظم ہی ہٹلر بن کر پارلیمنٹ سے پارلیمنٹ کے وجود کو ہی چھین لیتا ہے۔ نظریہ ضرورت کو کوئی فرد وجود میں نہیں لاتا۔ ہائی کورٹ جس پر ٹھپہ لگاتی ہے یہ وہ عمل نہیں بلکہ یہ حالات کا تقاضہ ہوتا ہے۔
چوہدری اعتزاز یا نواز شریف جب یہ کہتے ہیں جسٹس منیر نے یہ کہا کہ کامیاب انقلاب اپنی راہیں خود متعین کرتا ہے اورآئین کے فلسفے کی نظر سے جسٹس منیرکی بات صحیح ہے کیونکہ جو آئین خود اپنی حفاظت نہ کرسکے اس کوکورٹ کسی طرح سے بچا نہیں سکتی ہے۔ معاملہ جسٹس تمیزالدین کیس کا نہیں، معاملہ جنرل ایوب کے پہلے مارشل لاء کا ہے۔ یہ معاملہ 1947ء سے ہمارے اور ہندوستان کے جمہوری سفرکا ہے، کیا ہوا کہ ہم ان اقدار کو سنبھال نہ سکے اور وہ آگے نکل گئے۔ نظریہ ضرورت کا معاملہ اس وقت بھی پاکستان کے بننے کے عمل کے پس منظر میں موجود تھا اور پھر جنرل ایوب کے مارشل لاء دور میں ایک ٹھوس شکل میں ابھر کر سامنے آیا۔ معاملہ پاکستان اور ہندوستان کے مضبوط اورکمزور سول قیادت کا تھا۔ ہماری کمزور قیاد ت ہی ہماری سوسائٹی کا عکس ہے۔
ہندوستان کی کانگریس کیا تھی؟ مضبوط ہندو مڈل کلاس لوگوں کا مجموعہ تھی اور مسلم لیگ کیا تھی کمزور مڈل کلاس ، سرمایہ دار اور جاگیرداروں کا سنگم۔ پاکستان بنا تو مسلم لیگی قیادت نے اس کمزوری کو محسوس کیا اور اس ڈر میں مبتلا بھی ر ہی۔ سیاست دانوں سے قیادت سول بیوروکریسی کو منتقل ہوگئی۔ گورنر غلام محمد اسی قیادت کے ترجمان تھے۔ بھرپور جمہوری قوت بنگالیوں کی شکل میں موجود تھی۔ کیونکہ بنگالی وہاں کے مڈل کلاس کے ترجمان تھے نہ کہ جاگیرداروں کے۔ مشرقی پاکستان کی بنیادیں مڈل کلاس سے جمی اور جڑی ہوئی تھیں۔ اس کے برعکس مغربی پاکستان جاگیرداروں،گماشتہ سرمایہ داروں و سول بیوروکریسی اورکمزور مڈل کلاس کا عکس تھی۔
نظریہ ضرورت اگر نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔
نظریہ ضرورت غیر فطری طور پر نہیں آتا۔ وہ فطری ہے اگر حالات مطابقت رکھتے ہوں ۔ 1956 میں پہلا مارشل لاء نظریہ ضرورت کی ایک ٹھوس شکل میں نظر آیا ۔ بالآخر ''ڈوسو'' کیس میں جسٹس منیرکو آخرکار یہ کہنا پڑا ۔ اس بات کو المیہ کہا جاسکتا ہے۔ جسٹس منیر اگر اس طرح کا فیصلہ نہ دیتے تو جسٹس دراب پٹیل کی طرح ہماری تاریخ کا حصہ ہوتے، ہاں لیکن وہ ''ڈوسو'' کیس کے بینچ کا حصہ نہ ہوتے، جسٹس منیر نہ ہوتے ''ڈوسو'' کا فیصلہ وہ ہی آنا تھا جو آیا ۔ نظریہ ضرورت کا ہونا لازم و ملزوم تھا بالکل اسی طرح سے جس طرح فزکس میں یہ قانون ہے کہ Mass cannot be created cannot be destroyed (مادہ نہ پیدا کیا جاسکتا ہے نہ ہی ختم کیا جاسکتا ہے) بالکل اسی طرح Doctrine of necessity نہ غیر فطری طور پر وجود میں آسکتی ہے اور نہ ہی غیر فطری طور پر اس کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
میاں صاحب آپ اس وقت کہاں تھے جب جنرل ضیاء الحق ہماری جمہوری اقدارکا قلع قمع کررہے تھے۔ اس وقت آپ اس تمام عمل کے Beneficiary اور سہولت کار تھے۔ ایوب کے زمانے میں یہی کام بھٹو صاحب کرتے تھے ۔Doctrine of necessity ایجاد نہیں ہوئی ہے بلکہ دریافت ہوئی ہے اور ہر وہ معاشرہ جو ہمارے معاشرے سے مطابقت رکھتا ہے وہاں نظریہ ضرورت وجود میں آیا ہے اور جس معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی مضبوط مڈل کلاس رہی وہاں نظریہ ضرورت کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
ہماری ستر سالہ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ یکے بعد دیگر ہم دو بیلٹ باکس کروانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور تیسرا بیلٹ باکس بھی یقینی طور پر ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، مگر اب بھی الیکشن میں اکثریت انھیں لوگوں کی ہے جو Electables ہیں اور یہ ایک کمزور جمہوریت کی نشاندہی ہے۔ ہمارے جمہوری نظام سے اگر Electables کا وجود ختم ہوجائے تو اس دن نظریہ ضرورت کی ضرورت بھی نہیں رہے گی ، لیکن اس عمل کے لیے ہمیں معاشی رشتوں کے اندر توڑ پھوڑ چاہیے۔ ہماری زراعت مجموعی پیداوارکا بیس فیصد فراہم کرتی ہے مگر اب بھی 48% لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے اور اس میں سے 10% یا 15% ایسے بھی روزگار ہونگے جو دیہی ہیں ۔ ہماری قومی اسمبلی کی نشستوں میں دیکھنا یہ ہے کہ کتنی شہری نشستیں ہیں اور دیہی کتنی ہیں۔
ہمارے دیہات اب ٹوٹتے جارہے ہیں اور ساتھ ساتھ دیہاتی رشتے بھی ۔ راستوں کا جال بچھایا جارہا ہے CPEC دستک دے رہاہے ۔ اس پورے عمل سے Electables کی تعداد کم ہوتی جائے گی ۔ اب ووٹ زیادہ سے زیادہ بیانیے کی بنیاد پر ہوگا۔
میاں صاحب کے لیے عرض ہے کہ وہ صرف سیاسی آنکھ سے پاکستان کی تاریخ کو نہ دیکھیں بلکہ ایک وسیع تناظر میں اس کا مشاہدہ کریں۔ آپ نے صحیح فرمایا کہ ہماری تاریخ کا المیہ نظریہ ضرورت ہے لیکن یہ فطری اور حقیقت بھی ہے جو بات آپ نظر انداز کر رہے ہیں ۔ میاں صاحب جس سیمینار میں خطاب کرنے آئے تھے وہ ایک جلسہ تھا یا پھر یہ بھی نظریہ ضرورت تھا۔ ہمارے سیاسی نظام کے لاشعور میں نظریہ ضرورت موجود ہے۔
چارٹر آف ڈیموکریسی کیوں اور کیسے ٹوٹا۔ میاں صاحب کی ہٹ دھرمی اور انا پرستی کا شکار ہوا۔ آج آصف علی زرداری ، عمران خان کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے راضی ہیں یہ بھی نظریہ ضرورت ہے ۔جس طرح کامیاب انقلاب اپنی راہیں خود متعین کرتا ہے آگے کی طرف، اسی طرح ناکام انقلاب بھی اپنی راہیں خود متعین کرتا ہے مگر پیچھے کی جانب ۔
نظریہ ضرورت صرف یہ نہیں کہ کورٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت فیصلہ سنایا ، نظریہ ضرورت یہ بھی ہے کہ ووٹ صرف وڈیروں کا ہی ہے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ ارتقاء کے اس عمل میں نظریہ ضرورت کے نظریے کو ہم روک بھی سکتے تھے یا پھر دھیما بھی کرسکتے تھے مگر ہماری سیاسی قیادت نے حکومتیں اس طرح بھی کیں جس سے نظریہ ضرورت کی راہیں اور بھی ہموار ہوئیں۔
بہ حیثیت ایک سیاسی شاگرد میں نظریہ ضرورت کا مخالف رہا اور بہت کچھ لکھا بھی لیکن جب سے میں آئین اور قانون کا شاگرد ہوا ہوں میری سوچ کے زاویے بدل گئے ہیں۔ میاں صاحب صحیح کہتے ہیں کہ پاکستان کے Elected وزرائے اعظم کے ساتھ ایسا بھی ہوا ہے جوکچھ ان کے ساتھ ہوا مگر ان تمام وزیراعظم میں جو دو وزیر اعظم ہیں یعنیٰ ذوالفقارعلی بھٹو اور نواز شریف وہ دونوں ہی نظریہ ضرورت کی پیداوار ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان دونوں کو نظریہ ضرورت نے وزیر اعظم بننے کے بعد رہنے نہ دیا۔کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اگر نظریہ ضرورت کے پیچھے کوئی طاقت نہ ہو تو خود وزیراعظم ہی ہٹلر بن کر پارلیمنٹ سے پارلیمنٹ کے وجود کو ہی چھین لیتا ہے۔ نظریہ ضرورت کو کوئی فرد وجود میں نہیں لاتا۔ ہائی کورٹ جس پر ٹھپہ لگاتی ہے یہ وہ عمل نہیں بلکہ یہ حالات کا تقاضہ ہوتا ہے۔
چوہدری اعتزاز یا نواز شریف جب یہ کہتے ہیں جسٹس منیر نے یہ کہا کہ کامیاب انقلاب اپنی راہیں خود متعین کرتا ہے اورآئین کے فلسفے کی نظر سے جسٹس منیرکی بات صحیح ہے کیونکہ جو آئین خود اپنی حفاظت نہ کرسکے اس کوکورٹ کسی طرح سے بچا نہیں سکتی ہے۔ معاملہ جسٹس تمیزالدین کیس کا نہیں، معاملہ جنرل ایوب کے پہلے مارشل لاء کا ہے۔ یہ معاملہ 1947ء سے ہمارے اور ہندوستان کے جمہوری سفرکا ہے، کیا ہوا کہ ہم ان اقدار کو سنبھال نہ سکے اور وہ آگے نکل گئے۔ نظریہ ضرورت کا معاملہ اس وقت بھی پاکستان کے بننے کے عمل کے پس منظر میں موجود تھا اور پھر جنرل ایوب کے مارشل لاء دور میں ایک ٹھوس شکل میں ابھر کر سامنے آیا۔ معاملہ پاکستان اور ہندوستان کے مضبوط اورکمزور سول قیادت کا تھا۔ ہماری کمزور قیاد ت ہی ہماری سوسائٹی کا عکس ہے۔
ہندوستان کی کانگریس کیا تھی؟ مضبوط ہندو مڈل کلاس لوگوں کا مجموعہ تھی اور مسلم لیگ کیا تھی کمزور مڈل کلاس ، سرمایہ دار اور جاگیرداروں کا سنگم۔ پاکستان بنا تو مسلم لیگی قیادت نے اس کمزوری کو محسوس کیا اور اس ڈر میں مبتلا بھی ر ہی۔ سیاست دانوں سے قیادت سول بیوروکریسی کو منتقل ہوگئی۔ گورنر غلام محمد اسی قیادت کے ترجمان تھے۔ بھرپور جمہوری قوت بنگالیوں کی شکل میں موجود تھی۔ کیونکہ بنگالی وہاں کے مڈل کلاس کے ترجمان تھے نہ کہ جاگیرداروں کے۔ مشرقی پاکستان کی بنیادیں مڈل کلاس سے جمی اور جڑی ہوئی تھیں۔ اس کے برعکس مغربی پاکستان جاگیرداروں،گماشتہ سرمایہ داروں و سول بیوروکریسی اورکمزور مڈل کلاس کا عکس تھی۔
نظریہ ضرورت اگر نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔
نظریہ ضرورت غیر فطری طور پر نہیں آتا۔ وہ فطری ہے اگر حالات مطابقت رکھتے ہوں ۔ 1956 میں پہلا مارشل لاء نظریہ ضرورت کی ایک ٹھوس شکل میں نظر آیا ۔ بالآخر ''ڈوسو'' کیس میں جسٹس منیرکو آخرکار یہ کہنا پڑا ۔ اس بات کو المیہ کہا جاسکتا ہے۔ جسٹس منیر اگر اس طرح کا فیصلہ نہ دیتے تو جسٹس دراب پٹیل کی طرح ہماری تاریخ کا حصہ ہوتے، ہاں لیکن وہ ''ڈوسو'' کیس کے بینچ کا حصہ نہ ہوتے، جسٹس منیر نہ ہوتے ''ڈوسو'' کا فیصلہ وہ ہی آنا تھا جو آیا ۔ نظریہ ضرورت کا ہونا لازم و ملزوم تھا بالکل اسی طرح سے جس طرح فزکس میں یہ قانون ہے کہ Mass cannot be created cannot be destroyed (مادہ نہ پیدا کیا جاسکتا ہے نہ ہی ختم کیا جاسکتا ہے) بالکل اسی طرح Doctrine of necessity نہ غیر فطری طور پر وجود میں آسکتی ہے اور نہ ہی غیر فطری طور پر اس کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
میاں صاحب آپ اس وقت کہاں تھے جب جنرل ضیاء الحق ہماری جمہوری اقدارکا قلع قمع کررہے تھے۔ اس وقت آپ اس تمام عمل کے Beneficiary اور سہولت کار تھے۔ ایوب کے زمانے میں یہی کام بھٹو صاحب کرتے تھے ۔Doctrine of necessity ایجاد نہیں ہوئی ہے بلکہ دریافت ہوئی ہے اور ہر وہ معاشرہ جو ہمارے معاشرے سے مطابقت رکھتا ہے وہاں نظریہ ضرورت وجود میں آیا ہے اور جس معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی مضبوط مڈل کلاس رہی وہاں نظریہ ضرورت کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
ہماری ستر سالہ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ یکے بعد دیگر ہم دو بیلٹ باکس کروانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور تیسرا بیلٹ باکس بھی یقینی طور پر ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، مگر اب بھی الیکشن میں اکثریت انھیں لوگوں کی ہے جو Electables ہیں اور یہ ایک کمزور جمہوریت کی نشاندہی ہے۔ ہمارے جمہوری نظام سے اگر Electables کا وجود ختم ہوجائے تو اس دن نظریہ ضرورت کی ضرورت بھی نہیں رہے گی ، لیکن اس عمل کے لیے ہمیں معاشی رشتوں کے اندر توڑ پھوڑ چاہیے۔ ہماری زراعت مجموعی پیداوارکا بیس فیصد فراہم کرتی ہے مگر اب بھی 48% لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے اور اس میں سے 10% یا 15% ایسے بھی روزگار ہونگے جو دیہی ہیں ۔ ہماری قومی اسمبلی کی نشستوں میں دیکھنا یہ ہے کہ کتنی شہری نشستیں ہیں اور دیہی کتنی ہیں۔
ہمارے دیہات اب ٹوٹتے جارہے ہیں اور ساتھ ساتھ دیہاتی رشتے بھی ۔ راستوں کا جال بچھایا جارہا ہے CPEC دستک دے رہاہے ۔ اس پورے عمل سے Electables کی تعداد کم ہوتی جائے گی ۔ اب ووٹ زیادہ سے زیادہ بیانیے کی بنیاد پر ہوگا۔
میاں صاحب کے لیے عرض ہے کہ وہ صرف سیاسی آنکھ سے پاکستان کی تاریخ کو نہ دیکھیں بلکہ ایک وسیع تناظر میں اس کا مشاہدہ کریں۔ آپ نے صحیح فرمایا کہ ہماری تاریخ کا المیہ نظریہ ضرورت ہے لیکن یہ فطری اور حقیقت بھی ہے جو بات آپ نظر انداز کر رہے ہیں ۔ میاں صاحب جس سیمینار میں خطاب کرنے آئے تھے وہ ایک جلسہ تھا یا پھر یہ بھی نظریہ ضرورت تھا۔ ہمارے سیاسی نظام کے لاشعور میں نظریہ ضرورت موجود ہے۔
چارٹر آف ڈیموکریسی کیوں اور کیسے ٹوٹا۔ میاں صاحب کی ہٹ دھرمی اور انا پرستی کا شکار ہوا۔ آج آصف علی زرداری ، عمران خان کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے راضی ہیں یہ بھی نظریہ ضرورت ہے ۔جس طرح کامیاب انقلاب اپنی راہیں خود متعین کرتا ہے آگے کی طرف، اسی طرح ناکام انقلاب بھی اپنی راہیں خود متعین کرتا ہے مگر پیچھے کی جانب ۔
نظریہ ضرورت صرف یہ نہیں کہ کورٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت فیصلہ سنایا ، نظریہ ضرورت یہ بھی ہے کہ ووٹ صرف وڈیروں کا ہی ہے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ ارتقاء کے اس عمل میں نظریہ ضرورت کے نظریے کو ہم روک بھی سکتے تھے یا پھر دھیما بھی کرسکتے تھے مگر ہماری سیاسی قیادت نے حکومتیں اس طرح بھی کیں جس سے نظریہ ضرورت کی راہیں اور بھی ہموار ہوئیں۔