منیر قریشی سے منو بھائی تک
پنجابی شاعری میں مزاحمتی روایت سے جڑے ویسے تو بہت سارے قابل قدر شعرا موجود ہیں
منو بھائی اپنی تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں پوری زندگی مختلف شہروں کی خاک تو چھانتے رہے مگر رسول حمزہ توف کی طرح اپنے گاؤں اور اس میں بسنے والے غریب دیہاتیوں کو اپنے دل سے نہ نکال سکے۔ رسول حمزہ توف نے کہا تھا۔
وہ سامنے میرا داغستان ہے
میری محبت کا احرام
ایک پرانے کمرے میں
میری ماں رہتی ہے
میں اس کمرے کی اینٹ ہوں
یہ اینٹ اس وقت تک قائم رہے گی
جب تک میرا داغستان قائم رہے گا
گاؤںکے راستے پر چلتی پن چکی اورکھیتوں میں کام کرتے کسانوں کے پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ بکریوں بھینسوں اور بیلوں کے گلے میں بندھے گھنگھرؤں کی آوازوں پر منو بھائی نے نہ جانے کتنے کالم لکھ ڈالے اور ''سونا چاندی'' نامی ڈراما تخلیق کیا تو دیہات نما شہروں میں بسنے والے غریبوں، مزدوروں، حجاموں اور موچیوں کی سادہ مگر مشقت بھری زندگی کے کرب کوبھی انتہائی مہارت سے ہمارے سامنے لے آئے۔
ان کے ڈراموں جھوک سیال، دشت اور عجائب گھر کو بھی مقبولیت ملی مگر ''سونا چاندی'' کے حصے میں جوشہرت آئی وہ پاکستان کے چند ڈراموں کو ہی نصیب ہوسکی۔ منو بھائی کے پاس سرگودھا ، میانوالی، اٹک، راولپنڈی اور وزیر آباد جیسے چھوٹے شہروں کی مثالیں اور زندگی کے تجربات موجود تھے جہاں کی آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی کہ انھیں دیہات کے رسم و رواج سے الگ کر کے دیکھا جاتا شاید یہی وجہ تھی کہ دوسری محرومیوں کے علاوہ انھوں نے شہر میں جا کر لوگوں کی تعلیم اور علاج معالجے کی کمی کو بھی شدت سے محسوس کیا، جس کا اندازہ اس بات سے با آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے ڈرامے میں ڈاکٹر کے بجائے ایک حجام پورے محلے کے مریضوں کا علاج کرتا ہے لیکن دوسری طرف نفسیاتی امراض میں مبتلا دولت مند خاتون کے علاج کے لیے اچھے ڈاکٹروں کا بندوبست بھی موجود ہوتا ہے۔
منو بھائی اس کلاس سسٹم سے پردہ اٹھانے میں اتنے کامیاب ہوئے کہ شام ڈھلتے ہی لوگ ''سونا چاندی'' نشر ہونے کا انتظار کرنے لگتے۔ یہ ڈراما آج بھی لوگوں کے ذہن سے محو نہ ہو سکا اور ہوتا بھی کیسے کہ مصنف کے پاس ترقی پسند ادب کی وہ پوری روایت موجود تھی جس میں مزدوروں اورکسانوں کی بے بسی اور استحصال کا نقشہ انتہائی مہارت سے کھینچا گیا تھا۔ بدقسمتی سے استحصال کا یہ سلسلہ منو بھائی سے پہلے بھی موجود تھا اور اب بھی اپنے تمام تر ظالمانہ ہتھکنڈوں کے ساتھ موجود ہے۔ ان سے قبل بائیں بازو کے فلسفے کے ساتھ منشی پریم چند ، احمد ندیم قاسمی، دیویندر ستیارتھی، راجندرسنگھ بیدی، حیات اللہ انصاری،کرشن چندر اور اوپندر ناتھ اشک جیسے افسانہ نگاروں کی تحریریں پڑھنے والوں کو استحصالی طبقے اور جاگیردارانہ سماج کی برائیوں کے ساتھ دیہی زندگی کے مسائل سے بھی باخبرکرتی رہیں، مگر منو بھائی نے اپنی نظم ونثر میں اسے جدید انداز سے دیکھنے کی کوشش کی جو ان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ کہی جا سکتی ہے۔
منو بھائی نے عملی زندگی کے ابتدائی قدم روزنامہ تعمیرکے دفتر میں رکھے اور امروزکے بعد مساوات سے ہوتے ہوئے اردو کے ایک اخبار میں عمر کے آخری سال پورے کیے۔ اس دوران وہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے جن اصولوں پر کاربند رہے ان کی پاس داری بہت کم صحافیوں کو نصیب ہوئی۔اس سے قبل اٹک میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ان کا واسطہ کالج کے جن اساتذہ اور ہم جماعت دوستوں سے پڑا ان میں شفقت تنویر مرزا، پروفیسر فتح محمد ملک، منظورعارف، احمد ندیم قاسمی جیسے ادیب وشاعر اورغلام جیلانی برق، مختار احمد صدیقی اور پروفیسر عثمان جیسے باکمال اساتذہ شامل تھے۔ اٹک اور راولپنڈی میں رہائش کے دوران وہ پنجاب کے بارانی علاقوں کے محنت کشوں سے بھی واقف ہوئے جن کی زندگی پنجاب کے میدانی اور نہری علاقوں میں رہنے والے کسانوں اور مزدوروں سے بالکل مختلف تھی اور ہے ۔
منو بھائی نے فیض احمد فیضؔ کے کہنے پر انگریزی کے بڑے بڑے شعرا کے بجائے عربی کے مزاحمتی شاعروں محمود درویش اور نزار قبانی کے بہترین تراجم کیے جو اس وقت بیروت میں مقیم تھے مگر اپنے خیالات کا اظہارکرنے کے لیے انھوں نے مادری زبان کو ترجیح دیتے ہوئے نیم ظریفانہ اور طنزیہ اندا ز میں معاشرے کے مختلف مسائل کو اپنی نظموں میں جس خوبی سے بیان کیا وہ دوسرے شاعروں کوکم ہی نصیب ہوا ۔
پنجابی شاعری میں مزاحمتی روایت سے جڑے ویسے تو بہت سارے قابل قدر شعرا موجود ہیں، مگر اس کا سہرا استاد دامن کے سر ہی بندھتا ہے۔ جن کے بعد حبیب جالبؔ نے بھی پنجابی زبان میں مزاحمتی نظمیں تخلیق کیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ بائیں بازو کے ان تھک کارکن اور ٹریڈ یونین سے جڑے استاد دامنؔ کے شاگرد سائیں اختر حسین کا شمار بھی ایسے ہی شاعروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی سادہ مگر جدوجہد سے بھری زندگی مزدوروں کے لیے وقف کردی اور زندگی کے مسائل سے جڑی بہترین نظمیں تخلیق کیں۔
منو بھائی کی نظموں کا روایت سے جڑا مگر جدت کی شرائط کو پورا کرتا اظہار دوسرے شعرا سے بالکل مختلف اور اچھوتا ہے جس میں یہ پیغام چھپا ہوا ہے کہ معاشرے کو بدلنے کے اسباب خود بخود وجود میں نہیں آتے بلکہ اس کے لیے بہت ساری مشکلات کا سامنا اور مقابلہ کرنا پڑتا ہے ۔ ان سے چار پانچ ملاقاتوں کے علاوہ لاہور میں ہونے والی ایک ادبی کانفرنس کے دوران جب میں نے اٹک (کیمبل پور) کا باسی ہونے کے سلسلے میں اپنا تعارف کرایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور تا دیر مجھ سے وہاں کے کالج اور اس کے قریب بنے بس اڈے کے علاوہ سینما گھروں کی یادیں تازہ کرتے رہے، مگر انھیں وہاں کی آب وہوا اور چائے کے ہوٹل سب سے زیادہ یاد آ رہے تھے۔
میں ان کی باتیں سن کر یہ اندازہ لگا رہا تھا کہ بہت سارے دوسرے لکھنے والوں کی طرح منو بھائی کا وقت بھی کلاس روم میں کم اور باہر زیادہ گزرتا ہوگا، جس کی تصدیق پروفیسر فتح محمد ملک کے ان الفاظ سے ہوگئی کہ جب منو بھائی بیدار ہوتے تو درس و تدریس کا وقت ختم ہوچکا ہوتا، پھر درس وتدریس کا سلسلہ کالج کی کینٹین پر ہوتا۔ منو بھائی نے اپنے بہت سارے ہم عصروں کی طرح نہ تو اپنے پیشے کی حرمت کو نقصان پہنچایا اور نہ ہی اپنے نظریے سے سودے بازی کی۔ وہ منیر احمد قریشی کے بجائے منو بھائی جیسی معروف شخصیت کی پہچان حاصل کرنے کے بعد بھی مزاجاً وہی منیر احمد قریشی رہے جنھیں دیہی علاقوں کے مزدوروں، کسانوں اور چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والے غریب ہنر مندوں کے دکھوں اور محرومیوں کا پورا ادراک تھا ۔
وہ سامنے میرا داغستان ہے
میری محبت کا احرام
ایک پرانے کمرے میں
میری ماں رہتی ہے
میں اس کمرے کی اینٹ ہوں
یہ اینٹ اس وقت تک قائم رہے گی
جب تک میرا داغستان قائم رہے گا
گاؤںکے راستے پر چلتی پن چکی اورکھیتوں میں کام کرتے کسانوں کے پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ بکریوں بھینسوں اور بیلوں کے گلے میں بندھے گھنگھرؤں کی آوازوں پر منو بھائی نے نہ جانے کتنے کالم لکھ ڈالے اور ''سونا چاندی'' نامی ڈراما تخلیق کیا تو دیہات نما شہروں میں بسنے والے غریبوں، مزدوروں، حجاموں اور موچیوں کی سادہ مگر مشقت بھری زندگی کے کرب کوبھی انتہائی مہارت سے ہمارے سامنے لے آئے۔
ان کے ڈراموں جھوک سیال، دشت اور عجائب گھر کو بھی مقبولیت ملی مگر ''سونا چاندی'' کے حصے میں جوشہرت آئی وہ پاکستان کے چند ڈراموں کو ہی نصیب ہوسکی۔ منو بھائی کے پاس سرگودھا ، میانوالی، اٹک، راولپنڈی اور وزیر آباد جیسے چھوٹے شہروں کی مثالیں اور زندگی کے تجربات موجود تھے جہاں کی آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی کہ انھیں دیہات کے رسم و رواج سے الگ کر کے دیکھا جاتا شاید یہی وجہ تھی کہ دوسری محرومیوں کے علاوہ انھوں نے شہر میں جا کر لوگوں کی تعلیم اور علاج معالجے کی کمی کو بھی شدت سے محسوس کیا، جس کا اندازہ اس بات سے با آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے ڈرامے میں ڈاکٹر کے بجائے ایک حجام پورے محلے کے مریضوں کا علاج کرتا ہے لیکن دوسری طرف نفسیاتی امراض میں مبتلا دولت مند خاتون کے علاج کے لیے اچھے ڈاکٹروں کا بندوبست بھی موجود ہوتا ہے۔
منو بھائی اس کلاس سسٹم سے پردہ اٹھانے میں اتنے کامیاب ہوئے کہ شام ڈھلتے ہی لوگ ''سونا چاندی'' نشر ہونے کا انتظار کرنے لگتے۔ یہ ڈراما آج بھی لوگوں کے ذہن سے محو نہ ہو سکا اور ہوتا بھی کیسے کہ مصنف کے پاس ترقی پسند ادب کی وہ پوری روایت موجود تھی جس میں مزدوروں اورکسانوں کی بے بسی اور استحصال کا نقشہ انتہائی مہارت سے کھینچا گیا تھا۔ بدقسمتی سے استحصال کا یہ سلسلہ منو بھائی سے پہلے بھی موجود تھا اور اب بھی اپنے تمام تر ظالمانہ ہتھکنڈوں کے ساتھ موجود ہے۔ ان سے قبل بائیں بازو کے فلسفے کے ساتھ منشی پریم چند ، احمد ندیم قاسمی، دیویندر ستیارتھی، راجندرسنگھ بیدی، حیات اللہ انصاری،کرشن چندر اور اوپندر ناتھ اشک جیسے افسانہ نگاروں کی تحریریں پڑھنے والوں کو استحصالی طبقے اور جاگیردارانہ سماج کی برائیوں کے ساتھ دیہی زندگی کے مسائل سے بھی باخبرکرتی رہیں، مگر منو بھائی نے اپنی نظم ونثر میں اسے جدید انداز سے دیکھنے کی کوشش کی جو ان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ کہی جا سکتی ہے۔
منو بھائی نے عملی زندگی کے ابتدائی قدم روزنامہ تعمیرکے دفتر میں رکھے اور امروزکے بعد مساوات سے ہوتے ہوئے اردو کے ایک اخبار میں عمر کے آخری سال پورے کیے۔ اس دوران وہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے جن اصولوں پر کاربند رہے ان کی پاس داری بہت کم صحافیوں کو نصیب ہوئی۔اس سے قبل اٹک میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ان کا واسطہ کالج کے جن اساتذہ اور ہم جماعت دوستوں سے پڑا ان میں شفقت تنویر مرزا، پروفیسر فتح محمد ملک، منظورعارف، احمد ندیم قاسمی جیسے ادیب وشاعر اورغلام جیلانی برق، مختار احمد صدیقی اور پروفیسر عثمان جیسے باکمال اساتذہ شامل تھے۔ اٹک اور راولپنڈی میں رہائش کے دوران وہ پنجاب کے بارانی علاقوں کے محنت کشوں سے بھی واقف ہوئے جن کی زندگی پنجاب کے میدانی اور نہری علاقوں میں رہنے والے کسانوں اور مزدوروں سے بالکل مختلف تھی اور ہے ۔
منو بھائی نے فیض احمد فیضؔ کے کہنے پر انگریزی کے بڑے بڑے شعرا کے بجائے عربی کے مزاحمتی شاعروں محمود درویش اور نزار قبانی کے بہترین تراجم کیے جو اس وقت بیروت میں مقیم تھے مگر اپنے خیالات کا اظہارکرنے کے لیے انھوں نے مادری زبان کو ترجیح دیتے ہوئے نیم ظریفانہ اور طنزیہ اندا ز میں معاشرے کے مختلف مسائل کو اپنی نظموں میں جس خوبی سے بیان کیا وہ دوسرے شاعروں کوکم ہی نصیب ہوا ۔
پنجابی شاعری میں مزاحمتی روایت سے جڑے ویسے تو بہت سارے قابل قدر شعرا موجود ہیں، مگر اس کا سہرا استاد دامن کے سر ہی بندھتا ہے۔ جن کے بعد حبیب جالبؔ نے بھی پنجابی زبان میں مزاحمتی نظمیں تخلیق کیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ بائیں بازو کے ان تھک کارکن اور ٹریڈ یونین سے جڑے استاد دامنؔ کے شاگرد سائیں اختر حسین کا شمار بھی ایسے ہی شاعروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی سادہ مگر جدوجہد سے بھری زندگی مزدوروں کے لیے وقف کردی اور زندگی کے مسائل سے جڑی بہترین نظمیں تخلیق کیں۔
منو بھائی کی نظموں کا روایت سے جڑا مگر جدت کی شرائط کو پورا کرتا اظہار دوسرے شعرا سے بالکل مختلف اور اچھوتا ہے جس میں یہ پیغام چھپا ہوا ہے کہ معاشرے کو بدلنے کے اسباب خود بخود وجود میں نہیں آتے بلکہ اس کے لیے بہت ساری مشکلات کا سامنا اور مقابلہ کرنا پڑتا ہے ۔ ان سے چار پانچ ملاقاتوں کے علاوہ لاہور میں ہونے والی ایک ادبی کانفرنس کے دوران جب میں نے اٹک (کیمبل پور) کا باسی ہونے کے سلسلے میں اپنا تعارف کرایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور تا دیر مجھ سے وہاں کے کالج اور اس کے قریب بنے بس اڈے کے علاوہ سینما گھروں کی یادیں تازہ کرتے رہے، مگر انھیں وہاں کی آب وہوا اور چائے کے ہوٹل سب سے زیادہ یاد آ رہے تھے۔
میں ان کی باتیں سن کر یہ اندازہ لگا رہا تھا کہ بہت سارے دوسرے لکھنے والوں کی طرح منو بھائی کا وقت بھی کلاس روم میں کم اور باہر زیادہ گزرتا ہوگا، جس کی تصدیق پروفیسر فتح محمد ملک کے ان الفاظ سے ہوگئی کہ جب منو بھائی بیدار ہوتے تو درس و تدریس کا وقت ختم ہوچکا ہوتا، پھر درس وتدریس کا سلسلہ کالج کی کینٹین پر ہوتا۔ منو بھائی نے اپنے بہت سارے ہم عصروں کی طرح نہ تو اپنے پیشے کی حرمت کو نقصان پہنچایا اور نہ ہی اپنے نظریے سے سودے بازی کی۔ وہ منیر احمد قریشی کے بجائے منو بھائی جیسی معروف شخصیت کی پہچان حاصل کرنے کے بعد بھی مزاجاً وہی منیر احمد قریشی رہے جنھیں دیہی علاقوں کے مزدوروں، کسانوں اور چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والے غریب ہنر مندوں کے دکھوں اور محرومیوں کا پورا ادراک تھا ۔