ادارے بالادست ہوتے ہیں لوگ نہیں

حضر ت علی کرم اللہ و جہہ کے دور میں ان کی زرہ ایک یہود ی نے لے لی تھی جب کہ وہ خلیفہ وقت تھے

fnakvi@yahoo.com

کبھی کبھی بہت حیرت ہو تی ہے کہ جانتے بوجھتے عوام کس طرح د ھوکے میں آتے ہیں، سب معلوم ہے کون کیا کررہا ہے روزانہ کہیں ہزار داستان کی صورت میں جلوہ گر ہے مگر مجال ہے جو عوام کو اس سے مطلب ہو، مہنگائی کا جن بے قابو ہو تو ہو پروا کسے ہے، ٹرا نسپورٹرزکرایوں میں من مانا اضافہ کریں ان کی جانے بلا، یہاں اس بات کی آگاہی ہوتی ہے کہ جیسے عوام ویسے حکمران، جب عوا م ہی درست حکمرانوں کا انتخا ب نہیں کریں گے توکون ہے جو ان کے حقوق کے لیے آواز بلندکرے گا۔

معاشرے میں چارون جانب چیخ وپکار ہے، بچیوں سے ظلم و زیادتی کی خبریں ہیں، جرائم ہیں کہ ان پر بند باندھنا مشکل ہورہا ہے، سندھ کے ایک اعلیٰ پولیس افسر کی تلاش جاری ہے مگر وہ کسی کے ہاتھ نہیں آرہے، شہر قائد میں ٹرانسپورٹ سسٹم ناکارہ ہو چکا مگر کسے پروا۔ اسکولوں کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے،سٹریٹ کرائم کی روک تھام کا کوئی میکنزم وضع نہیں ہوا، عدم تحفظ کے باعث لوگ شدید ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں،آکر حکومت ہے تو وہ نظر بھی آنی چاہیے۔

اخبارات، مختلف چینلز اور دیگر پلیٹ فارمز سے لوگ چیخ چیخ کے سیاست دانوں حکمرانوں سے متعلق کرپشن کے بھید کھول رہے ہیں، انتہائی نازک معاملات پر سیاست کی جارہی ہے۔ پاناما کیس اوراس کی صورت میں نااہلی کا علم بچے بچے کو ہے مگر پھر بھی نااہل سابق وزیراعظم کے ارد گرد جمگھٹا موجود ہے۔ توہین عدالت پر سزا ہورہی ہے مگرگیت ان کے لیے زبان پر ہیں کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ ہماری نا اہلی ہماری کمزوریاں ایک نااہل انسان کے پردے میں ہی چھپ سکتی ہیں، ایک نااہل ہی ہم سے ہماری نااہلی کا حساب نہیں لے گا آج سابقہ وزیراعظم جگہ جگہ '' مجھے کیوں نکالا'' کے مستقل رونے کے ساتھ ساتھ کشمیرکے ہی وزیراعظم بننے کو بھی آمادہ ہیں۔


مقصد عوا م کی فلاح وبہبود نہیں بلکہ معاملہ اختیارات کے حصول کا ہے۔ جلسے میں لا کھوں لوگ آ جائیں موصوف کی سن بھی لیں ہاں میں ہاں ملا کر نعرے بھی لگا لیں مگر ابھی ا ختیارات کا ڈول گہرے کنویں میں گر ا ہوا ہے اس کو نکالنے کے لیے تگ و دوجاری ہے ۔اس کے لیے کسی بھی ا دارے کوکچھ بھی کہنا پڑے انھیں کوئی فر ق نہیں پڑتا ۔ ڈھٹائی کی انتہا دیکھیں سب کچھ کرکے بھی معصوم کے معصوم عوام کے لیے جیل بھرو تحریک کے ا حکامات خود معاہدہ کرکے جیل سے فرار، پھر بھی ایسی باتیں کرکے شرمندگی بھی نہیں ہوتی کیسے لوگ ہیں اور ان کے حمایت کرنے والے ان سے ز یادہ مجرم۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دیکھتے، سنتے سمجھتے ہوئے بھی اپنی آنکھیں اپنے کان بند رکھتے ہیں، انھیں سب معلوم ہے کہ کون کیا کر رہا ہے کس طر ح ملک کی جڑیں کاٹی جارہی ہیں مگر سب کے منہ اپنے مفادات کی و جہ سے بند ہیں ۔ارباب اختیار کو اپنا رویہ بدلنا چاہیے،گڈ گورننس کی اشد ضرورت ہے۔

حضر ت علی کرم اللہ و جہہ کے دور میں ان کی زرہ ایک یہود ی نے لے لی تھی جب کہ وہ خلیفہ وقت تھے، رسول اکرمﷺ کے داماد کے رتبے پر فائز تھے، اپنی طاقت کا مظاہرہ کرسکتے تھے مگر آپ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے مقدمہ قاضی کی عدالت میں پیش کیا۔ قاضی نے دریافت کیا آپ کے پاس کوئی گواہ موجود ہے آپ نے ا پنے غلام قنبر اور اپنے بیٹے امام حسن ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیش کیا جنہوں نے گواہی د ی کہ زرہ حضرت علی کی ہی ہے مگر عدالت نے ان کی گواہی کو مستند قرار نہیں دیا کیونکہ غلام اور بیٹا حضرت علی کے زیرکفالت تھے، اس لیے قا ضی نے کہا کہ گواہی قبول نہیں کی جاتی اگرکوئی اورگواہ موجود ہے تو اس کو پیش کریں مگر آپ کوئی اورگو اہ پیش نہ کرسکے تو مقدمے کا فیصلہ یہودی کے حق میں ہوگیا۔

اس وقت حضرت علی نے نہ تو طاقت کا استعمال کیا نہ ہی شکوے شکایات کیے کہ قاضی بک گیا ہے، ذاتی دشمنی پر فیصلہ کیا ہے نہ ہی بدلہ لینے کا عند یہ دیا نہ عوام کی عدالت میں معاملے کو پہنچایا بلکہ خاموشی سے ا پنی چیزکو یہودی کی ملکیت سمجھ لیا ۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ یہودی مسلمان ہوگیا، یہ تھی اداروں کی بالادستی جس نے اسلام کو پروان چڑھانے میں مد د دی ، کیونکہ اسلام کے ماننے والوں کے چہر ے اتنے روشن تھے کہ ان کی روشنی میں غیرمسلم اپنے اعمال کو دیکھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے۔ آج ہمارے چہرے اتنے مسخ ہوچکے ہیں کہ ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو ہی کھا لیا ہے، نااہل وز یراعظم کا فرمان ہے کہ میرے جانے سے ملک کی ترقی رُک گئی ہے کوئی پو چھے بندہ خدا وزیراعظم تمہارا، حکومت تمہاری، پالیسیاں آپ جناب کی پھر ترقی کیوں رکی؟ یہ سوال تو آپ سے کرنا چاہیے کیا ملک کی ترقی آپ کے مسند اختیار پر بیٹھنے کا نام ہے تو شاید ممکن ہو ورنہ جمہوریت میں تو لوگ آتے ر ہتے ہیں، جاتے ر ہتے ہیں مگرکام نہیں رُکتا کیونکہ ادارے با لادست ہوتے ہیں لوگ نہیں۔یہ حقیقت ہے کہ جس کا جتنا جلد ادراک حکمرانوں کو ہو اتنا ہی بہتر ہے۔
Load Next Story