یہ تاثردرست نہیں کہ پارلیمنٹ آزاد نہیں ہے چیف جسٹس
نااہلی ڈیکلریشن کے برقرار رہنے تک موجود رہے گی، سپریم کورٹ
KARACHI:
نااہلی مدت کے تعین کے کیس میں چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ ایک آزاد ادارہ ہے لہذا یہ تاثردرست نہیں کہ پارلیمنٹ آزاد نہیں ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے نااہلی مدت کے تعین کے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر رائے حسن نواز کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ووٹرز کے لیے کوئی اہلیت یا نااہلیت نہیں ہوتی، آرٹیکل62 ون ایف میں ابہام ہے، کسی شخص کی شہرت اچھی ہے نہ بری، کردار کاتعین کیسے ہوگا جب کہ ڈیکلریشن کونسی عدالت دے گی یہ بھی واضح نہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ رائے حسن نواز کو کمپنی میں اثاثے نہ بتانے پر نااہل کیاگیا جب کہ کمپنی کا اثاثہ فروخت ہوچکا تھا کمپنی ان کے نام بھی نہیں تھی، جوکام پارلیمنٹ نے نہیں کیا وہ عدالت کیسے کرسکتی ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالت مفروضے پر مبنی سوالات کو حل نہیں کرسکتی، دیکھنا یہ ہے آرٹیکل 62 ون ایف کا سوال ٹھوس ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیے کہ نظریہ پاکستان کا معاملہ ہو تو تعین کون کرے گا، جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے نظریہ پاکستان کا سوال نہیں جس پر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ پارلیمنٹ تاحال آزاد نہیں ہوئی، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پارلیمنٹ ایک آزاد ادارہ ہے، یہ تاثردرست نہیں کہ پارلیمنٹ آزاد نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا غیرایماندار، غیرامین قرار پانے والا ضمنی الیکشن لڑسکتا ہے، فرض کر لیں آرٹیکل 62 ون ایف مبہم ہے اور عدالت کسی مبہم آرٹیکل کو کالعدم کیسے کرسکتی ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت ایمانداری کاتعین کرسکتی ہے جب کہ بے ایمان شخص کچھ عرصہ بعد ایماندار کیسے ہوجائے گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ ایک ایسا شخص آیا تھا جس نے عدالت میں تسلیم کیا اس کی ڈگری جعلی ہے، اس شخص نے استعفیٰ دے کر دوبارہ الیکشن لڑا اور واپس آگیا جب کہ ضمنی الیکشن میں اس نے پہلے سے زیادہ ووٹ لئے، عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ آرٹیکل 62 اور 63 ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 62 ایف کے تحت غیر ایماندار شخص کے لیے نااہلی کی مدت کیا ہوگی، عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال ہونی چاہیے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ نااہلی ڈیکلریشن کے برقرار رہنے تک موجود رہے گی، 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل باسٹھ ون ایف کی مدت کیوں نہیں لکھی گئی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہماری نظر میں آرٹیکل 62 اور 63 آزاد اور الگ الگ ہے، جب تک ڈیکلریشن موجود رہے گا تو نااہلی موجود رہے گی، ممکن ہے کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین کریں لہذا پھر اس صورت میں کیس ٹو کیس فیصلہ کیا جائے۔
نااہلی مدت کے تعین کے کیس میں چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ ایک آزاد ادارہ ہے لہذا یہ تاثردرست نہیں کہ پارلیمنٹ آزاد نہیں ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے نااہلی مدت کے تعین کے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر رائے حسن نواز کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ووٹرز کے لیے کوئی اہلیت یا نااہلیت نہیں ہوتی، آرٹیکل62 ون ایف میں ابہام ہے، کسی شخص کی شہرت اچھی ہے نہ بری، کردار کاتعین کیسے ہوگا جب کہ ڈیکلریشن کونسی عدالت دے گی یہ بھی واضح نہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ رائے حسن نواز کو کمپنی میں اثاثے نہ بتانے پر نااہل کیاگیا جب کہ کمپنی کا اثاثہ فروخت ہوچکا تھا کمپنی ان کے نام بھی نہیں تھی، جوکام پارلیمنٹ نے نہیں کیا وہ عدالت کیسے کرسکتی ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالت مفروضے پر مبنی سوالات کو حل نہیں کرسکتی، دیکھنا یہ ہے آرٹیکل 62 ون ایف کا سوال ٹھوس ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیے کہ نظریہ پاکستان کا معاملہ ہو تو تعین کون کرے گا، جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے نظریہ پاکستان کا سوال نہیں جس پر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ پارلیمنٹ تاحال آزاد نہیں ہوئی، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پارلیمنٹ ایک آزاد ادارہ ہے، یہ تاثردرست نہیں کہ پارلیمنٹ آزاد نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا غیرایماندار، غیرامین قرار پانے والا ضمنی الیکشن لڑسکتا ہے، فرض کر لیں آرٹیکل 62 ون ایف مبہم ہے اور عدالت کسی مبہم آرٹیکل کو کالعدم کیسے کرسکتی ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت ایمانداری کاتعین کرسکتی ہے جب کہ بے ایمان شخص کچھ عرصہ بعد ایماندار کیسے ہوجائے گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ ایک ایسا شخص آیا تھا جس نے عدالت میں تسلیم کیا اس کی ڈگری جعلی ہے، اس شخص نے استعفیٰ دے کر دوبارہ الیکشن لڑا اور واپس آگیا جب کہ ضمنی الیکشن میں اس نے پہلے سے زیادہ ووٹ لئے، عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ آرٹیکل 62 اور 63 ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 62 ایف کے تحت غیر ایماندار شخص کے لیے نااہلی کی مدت کیا ہوگی، عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال ہونی چاہیے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ نااہلی ڈیکلریشن کے برقرار رہنے تک موجود رہے گی، 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل باسٹھ ون ایف کی مدت کیوں نہیں لکھی گئی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہماری نظر میں آرٹیکل 62 اور 63 آزاد اور الگ الگ ہے، جب تک ڈیکلریشن موجود رہے گا تو نااہلی موجود رہے گی، ممکن ہے کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین کریں لہذا پھر اس صورت میں کیس ٹو کیس فیصلہ کیا جائے۔