لبرل فاشزم بھی مذہبی انتہاء پسندی کی طرح خطرناک ہے

یہ آزادئ فساد ہے کہ کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں یا پھر پاکستان اور مذہبی روایات کے خلاف کچھ بھی کہہ دیا جائے

کیا وجہ ہے کہ لبرل آزادئ اظہار کی تان ہمیشہ اسلام اور مسلم دشمنی ہی پر آ کر ٹوٹتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جب کسی پر سستی شہرت کا بھوت سوار ہو جائے تو پھر وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوجاتا ہے، حتی کہ اپنے مذہب اور وطن کو بھی اس کے حصول کےلیے بیچنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ گزشتہ دنوں چھوٹے بھائی اور سماجی کارکن رجب علی فیصل نے ''پاکستانی قوم کا مسیحا، عبدالستار ایدھی'' کے عنوان سے ایک تحریر لکھی جس کا مقصد ایدھی صاحب کو اچھے اور فلاحی کاموں کی وجہ سے خراج تحسین پیش کرنا تھا۔

مگر اس سے متعلق ایک لبرل فاشسٹ نے لکھا کہ دنیا کے تمام علمائے کرام بھی اکٹھے ہوجائیں تو وہ ایدھی کے ناخن کے برابر بھی نہیں۔ اب موصوف سے کوئی پوچھے کہ تمھیں دین و دنیا کا کوئی علم ہے بھی یا نہیں؟ تو یقیناً جواب نفی میں ہوگا۔ کسی عالم سے کسی بات پر اختلاف کرسکتے ہو اور نام نہاد علماء جو ''ملا'' ہیں، ان پر تنقید بھی کرسکتے ہو، مگر حقیقی علمائے کرام کو عام آدمی کے ناخن سے بھی کم تر سمجھنا عقلی، علمی اور ادبی تنزلی کا زوال ہے اور جب کچھ بدزبان لوگوں کے پاس دلائل کم پڑجائیں اور بغض کی بھڑاس بھی نکالنی ہو تو بات کو گالی سے گولی بنادیا جاتا اور سامنے آنے والی ہر چیز کی طرف پے در پے فائر کھول دیئے جاتے ہیں!

پہلے تو ہمیں یہ سمجھنے کی اشد ضروت ہے کہ عالم کا اصل مطلب کیا ہے؟ دراصل عالم کہتے ہی پڑھے لکھے فرد کو ہیں، چاہے اس نے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہو یا حدیث کی، فقہ کی ہو یا کلام و منطق کی، سائنس کی ڈگری لی ہو یا میڈیکل سائنس کی، نیچرل سائنس پڑھی ہو یا آرٹس کے مضامین، سارے کے سارے پڑھے لکھے لوگ اس میں شمار کیے جائیں گے۔ یہ ایسی چیز ہے جو انسان کو ہمیشہ کام آئے گی۔ مقصد نیک ہو اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے تو اس کی بدولت دین و دنیا کی ساری نعمت اور آسائش حاصل کرسکتا ہے۔

علم کی فضیلت اور اسے حاصل کرنے کی ترغیب کے حوالے سے کثرت سے احادیثﷺ بھی وارد ہوئی ہیں، جن میں اہل علم کی ستائش کی گئی ہے اور انہیں انسانیت کا سب سے بہتر آدمی قرار دیا گیا ہے۔

ﷲ کے رسولﷺ فرماتے ہیں: ''علم والوں کو دوسروں کے مقابلے میں ایسی ہی فضیلت حاصل ہے، جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنٰی شخص پر۔ یقیناً اﷲ عز وجل، اس کے فرشتے اور آسمان و زمین والے حتیٰ کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں تک لوگوں کے معلم کےلیے بھلائی کی دعا کرتی ہیں۔'' (ریاض الصالحین)

میں بات کا آغاز کچھ دنوں پہلے ہونے والے ایک واقعے سے کروں گا۔ امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں، جسے گناہوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، ایک تقریب کے موقع پر شام سے تعلق رکھنے والی لبرل فاشسٹ ڈاکٹر وفا سلطان نے کہا: ''دنیا بھر کے مسلمانوں کو روشن خیال بنانے کےلیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے نبی (حضرت محمدﷺ) کے توہین آمیز کارٹون بار بار شائع کیے جائیں اور جب مسلمان اس کے خلاف احتجاج کرنا چھوڑ دیں گے تو تب ہمیں یقین ہوجائے گا کہ وہ ماڈرن ہوچکے ہیں۔''

مشرق وسطی میں اسی روشن خیالی اور ماڈرنزم سے متعلق مؤثر آواز سمجھنے جانے پر موصوفہ کو ''نیوز ویک'' نے پہلی بار سال 2006ء کی سب سے طاقتور شخصیات میں سے ایک قرار دیا تھا۔

دین اسلام کی آڑ میں کفر کے جھوٹے فتوے لگا کر مذہبی انتہاء پسندی پھیلانے کی جہد اور مذہبی انتہاء پسندی کی مخالفت میں نام نہاد روشن خیالی کے نام پر دین اسلام پر دشنام طرازیاں پاکستان کے اکثریتی مسلمانوں کو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں اور نہ ہی لبرل فاشسٹ آنٹیوں کا یہ چورن یہاں چلے گا، کیونکہ پاکستان کی بنیاد اسلامی ریاست کا قیام تھا اور یہاں اسلام کی بالادستی ہی چلےگی۔

حالیہ دنوں وزیراعلی پنجاب جناب شہباز شریف نے سروس اسپتال میں غازی علم دین بلاک کا افتتاح کیا تو اس پر خونی لبرل سیخ پا ہوگئے اور شدید تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

If we celebrate Ilm Din as a hero then we all contribute in creating followers like Mumtaz Qadri. You cant turn Ilm Din into role model & then discourage people from following him. Only result is confusion



شاید موصوف کو علم نہیں کہ غازی علم دین شہید کون تھے؟ تو چلیے، میں ہی بتائے دیتاہوں۔ دراصل غازی علم دین نے 1929 میں پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے ایک پبلشر راج پال کو، جس نے ''رنگیلا رسول'' کے عنوان سے کتاب لکھی تھی، لاہور میں قتل کردیا تھا۔ غازی علم دین شہید کے حالات زندگی ہماری نصابی کتب میں زیادہ تفصیل سے درج نہیں اس لیے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ اس مقدمے میں غازی علم دین کے وکیل بنے لیکن وہ اپنے مؤکل کو پھانسی کی سزا سے نہ بچاسکے کیونکہ غازی علم دین پھانسی کی سزا کو اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے، اور جھوٹ کے بجائے سچ بول کر قتل کا بار بار اعتراف کرچکےتھے۔


ساتھ ہی یہ حقیقت بھی جان لیجیے کہ 31 اکتوبر 1929 کو جب غازی علم دین کا جسد خاکی میانوالی کے قبرستان میں دفنا دیا گیا تو مسلمانوں نے علامہ اقبالؒ کی قیادت میں برطانوی سرکار کے خلاف غازی علم دین کے جسد خاکی کو لاہور لانے کےلیے تحریک شروع کردی۔ بالآخر 13 نومبر 1929 کو قبرکشائی ہوئی اور درجنوں افراد نے دیکھا کہ پھانسی کے ٹھیک 13 روز بعد بھی شہید کا جسم بالکل تروتازہ تھا۔ موقعے پر موجود اسپتال کا ایک سول سرجن اس واقعے سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگیا۔ اگلے روز جسد خاکی لاہور لایا گیا تو سلمان تاثیر کے والد ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر (محمد دین تاثیر) نے میت کےلیے ازراہ عقیدت چارپائی پیش کی۔

غازی علم دین کے جسد خاکی کو علامہ اقبالؒ اور سیّد دیدار علی شاہ جیسے بزرگوں نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اُتاردیا تو مولانا ظفر علی خان نے چیخ کر کہا کہ کاش! یہ مقام آج مجھے نصیب ہوتا۔ یہی وہ موقع تھا جب علامہ اقبالؒ کے منہ سے بھی نکلا: ''ہم تو دیکھتے ہی رہ گئے اور ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا۔'' اس واقعے کے کچھ عرصے بعد علامہ اقبالؒ نے خطبہ الٰہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کیا۔

غازی علم دین نے گستاخِ رسولﷺ کو اس لیے قتل کیا کہ اس وقت بلاسفیمی لا (توہینِ رسالت کا قانون) موجود نہیں تھا اور راج پال ملعون کی گستاخیاں مزید ڈھٹائی سے بڑھتی جارہی تھیں۔

بات کریں غازی ممتاز قادری کی تو انہوں نے یقیناً قانون ہاتھ میں لیا کیونکہ ایک ایسی ریاست میں جہاں توہین رسالت کا قانون موجود ہو، وہاں کسی بھی فرد کو قانون ہاتھ میں نہیں بلکہ ثبوت ہاتھ میں لے کر اعلی عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے۔ مگر دوسری طرف بھی ظلم ہوا کہ سلمان تاثیر نے اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے شیخوپورہ جیل پہنچ کر آسیہ بی بی کو بےگناہ قرار دیا حالانکہ آسیہ بی بی بذات خود دوران تفتیش مسیحی برادری کے اہم افراد کی موجودگی میں اعتراف جرم کرکے سزائے موت کی حق دار قرار پائی۔

لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہےکہ اس وقت کے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے جو کچھ بھی کیا، اس میں اصل مقصد آسیہ بی بی کو بچانا نہیں بلکہ توہین رسالت کے قانون 295 سی کو اڑانا نظر آتا ہے۔

یہ آزادی اظہار نہیں بلکہ آزادی فساد ہے کہ کوئی بھی اٹھ کر مسلمانوں یا کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں یا پھر پاکستان اور مذہبی روایات کے خلاف ببانگ دہل کچھ بھی کہہ دے یا لکھ دے۔

قارئین کی معلومات کےلیے بتاتا چلوں کہ کچھ دن قبل سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ رضا خان کو لاہور سے لاپتا کردیا گیا جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسے رہا کروایا جائے۔ مگر یہ حق بھی کسی کو حاصل نہیں کہ افوج پاکستان کے خلاف فیس بک پر بے بنیاد پروپیگنڈہ اور تضحیک آمیز پوسٹ کرے جو رضا خان نے کیا۔ لہذا اگر کسی کو اسلام اور پاکستان پسند نہیں تو یہاں سے دور چلا جائے، جہاں اپنی مرضی سے جو چاہے کرے، مگر اس ملک و ملت کے اصلی ''غازیوں'' اور بڑوں پر بے بنیاد تنقید برائے تنقید اور لعن طعن نہ کرے۔

حضور پاکﷺ نے صدیوں پہلے بتا دیا تھا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس امت کے بعد والے لوگ پہلوں پر لعنت کریں گے۔ (جامع ترمذی، ابواب الفتن)

پس! اوّل تو ہمیں یہ سیکھ لینا چاہیے کہ ہم جس ریاست کے باشندے ہیں، اس کی اکثریت و اقلیت کے حقوق کا خیال ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اختلاف رائے کا اظہار ادب و احترام کے ساتھ کیا جائے کیونکہ ہمارے ملک کا اصل مسئلہ عدم برداشت ہے جو نہ صرف مذہبی انتہاء پسندی کی صورت میں ہے بلکہ لبرل فاشزم کی صورت میں بھی ابھر رہا ہے جسے مذہبی انتہاء پسندی ہی کی طرح کیوں نہ خطرناک قرار دے دیا جائے؟

اس پر قابو پانا ریاست پاکستان کی بہت بڑی ذمہ داری ہے تاکہ اقلیت اور اکثریت کی مقدس ہستیوں، مذہبی رسوم و روایات کے خلاف دشنام طرازیوں کو روک کر قائداعظم محمدعلی جناحؒ کا پُر امن پاکستان والا خواب پورا کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story