بدقسمت کراچی
لوگ کہتے ہیں کہ ’’جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے‘‘ لیکن پاکستان میں تو ہر طرف جھوٹ اپنے پائوں پہ کھڑا ہے۔
یوں تو ہمارا ملک ایک طویل عرصے سے ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، مسجدوں اور درگاہوں پہ حملوں کی زد میں چلا آرہا ہے۔ نہ پولیس کچھ کرتی ہے نہ حکومت، نہ حکمراں نہ سیاست دان نہ رینجرز۔ تنخواہیں بڑی بڑی سب وصول کرتے ہیں لیکن کام کوئی نہیں کرتا، رزلٹ کوئی نہیں دیتا۔ آئے دن بینک ڈکیتیاں معمول کی بات ہے۔
لوگ پیسہ دے کر سیکیورٹی ایجنسیوں سے ہتھیار اور وردی سب کچھ حاصل کر لیتے ہیں اور بینکوں کا کام تمام کرکے ایجنسیوں کو ان کا مطلوبہ حصّہ دے کر واپس اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ جاتے ہیں کیونکہ وہاں کسی قانون کی عمل داری عملاً نہیں ہے۔ یہ مجرم کون ہیں؟ کہاں سے آتے ہیں؟ کہاں سے اسلحہ خریدتے ہیں اور دن دہاڑے کس طرح وارداتیں کرتے ہیں؟
یہ سب پولیس کو معلوم ہوتا ہے کیونکہ اکثر وارداتوں کے پیچھے پولیس افسران اور پولیس اہلکار ہی ہوتے ہیں۔ انھی کی آشیرواد سے پاکستان دہشت گردوں اور جرائم پیشہ لوگوں کی جنّت بن گیا ہے۔ سب کا خدا پیسہ ہے جس کو سجدہ کرنے کے لیے کوئی کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے خواہ کسی معصوم بچّے کا اغوا ہو یا جعلی دوائوں کا کاروبار' مقصد ایک رات میں امیر بننا۔
لیکن بدقسمتی سے ان بڑے شہروں میں سب سے زیادہ عذاب کراچی پہ نازل ہوتا رہتا ہے۔ بینک ڈکیتیاں بھی 99 فیصد یہیں ہوتی ہیں کیونکہ کراچی ''سونے کی چڑیا'' ہے اور اس چڑیا کے سنہری پر کاٹنے کے لیے ہر طرف سے جرائم پیشہ لوگوں کی یلغار ہو رہی ہے' کوئی زمینوں پہ قبضے کر رہا ہے، کوئی اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اپنا بینک بیلنس بڑھا رہا ہے،
کوئی تاجروں اور صنعت کاروں کو بھتے کی پرچیاں بانٹ رہا ہے جو انکار کرے اس کے گھر اور کاروبار کی جگہ پر آتش گیر مادہ پھینک کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا جائے۔ موبائل کی لوٹ مار اب بچوں کا کھیل بن گئی۔ بسوں، سڑکوں، رکشوں، دکانوں اور گھروں میں وارداتیں ہونا اب معمول بن گیا۔ ٹارگٹ کلنگ جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔
اسلحے کی نمایش اور خرید و فروخت سرعام۔ لیکن پولیس اور رینجر تماشائی! کیونکہ انھیں صرف خاموش رہنے اور لب سینے کی تنخواہیں ملتی ہیں۔ باقی اخراجات زیادہ تر ٹھیلے والوں کے ذمے، کھجور، پھل اور پکوڑے انھیں بن مانگے ہی مل جاتے ہیں کہ وردی دیکھتے ہی ٹھیلے والے اور دکان دار تھیلیاں بھر بھر کر انھیں تھما دیتے ہیں، دودھ والا دودھ اور دہی تھماتا ہے تو پرچون والا آٹا، چاول، دالیں، مصالحے اور گھی... رہ گیا خاندان کی شاپنگ کا معاملہ تو وہ ان کالی بھیڑوں کے تحفظ کے نتیجے میں بخوبی طے ہو جاتا ہے،
جن کی پردہ پوشی کے صلے میں وہ ترقیاں اور انعام پاتے ہیں۔ جعلی پولیس مقابلوں میں کامیابی کے بعد اپنے ہی پیٹی بند بھائیوں کے منہ چھپا کر ان کے چہروں پہ چادریں ڈال کر تھانے داروں کے دفاتر میں تصاویر بنوا کر کرائم رپورٹرز کو فراہم کی جاتی ہیں۔ اصل کہانیاں کرائم رپورٹرز کے علاوہ ایک عام اخبار نویس بھی جانتا ہے۔
یہ ساری تمہید مجھے اس لیے باندھنا پڑی کہ 4 اگست کے اخبار میں کراچی کے حوالے سے ایک بڑی دہشت ناک رپورٹ چھپی ہے جس میں اخباری رپورٹر نے نہ جانے کس طرح ہمت سے کام لے کر وہ بھیانک انکشافات کیے ہیں جن کی وجہ سے کراچی جیسے میگا اور کاسموپولیٹن شہر میں جرائم مسلسل بڑھ رہے ہیں' دن بہ دن صورت حال خراب ہو رہی ہے۔
لیکن اس رپورٹ سے یہ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی میں دہشت گردی اور وارداتیں ختم تو کیا ہونی ہیں، کم بھی نہیں ہو رہی ہیں۔ خبر دینے والے نے ان کالی بھیڑوں کی نشاندہی تو کی ہے جو ان وارداتوں کی سرپرستی کرتی ہیں۔ لیکن ان کے نام جاننے کے باوجود انھیں اخفا رکھا ہے تاکہ وہ کالی بھیڑیں اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والے ان کی زندگی کا چراغ گل نہ کر دیں۔ ہم سچ لکھنا چاہیں تو نہیں لکھ سکتے ۔
لوگ کہتے ہیں کہ ''جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے'' لیکن پاکستان میں تو ہر طرف جھوٹ اپنے پائوں پہ کھڑا ہے۔ امربیل کی طرح سچ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور سچ بے چارہ دن بہ دن معدوم ہوتا جارہا ہے۔4اگست کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کی وارداتوں پہ قابو اس لیے نہیں پایا جا رہا کہ خود پولیس کے ذمے دار افسران ''اوورٹائم'' کی طرز پہ مختلف کاروبار کر رہے ہیں۔
کراچی میں آئوٹ آف ٹرن ترقیاں پا کر ایس ایس پی کے عہدے تک پہنچنے والے ایک بااثر اور اہم پولیس افسر سرکاری نوکری کی چھترچھایا میں ایک سیکیورٹی ایجنسی چلارہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلحے اور بارود کے بڑے ڈیلر بھی ہیں۔ ڈیفنس فیز 5 کے پوش علاقے میں ان کی ایک بہت بڑی دکان ہے جہاں جدید اسلحہ، گولیاں اور دیگر متعلقہ ساز و سامان فروخت ہوتا ہے۔ موصوف سرکاری نوکری محض اس لیے کر رہے ہیں کہ ان کے ''کاروبار'' کو تحفظ حاصل رہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس قسم کے کاروبار کبھی بھی سرکاری افسران یا حکومتی اہلکار اپنے نام سے نہیں کرتے بلکہ اپنے قریبی رشتے داروں کے نام سے کرتے ہیں۔ ان کے نام پر مختلف کاروبار کے لائسنس حاصل کرتے ہیں اور دھڑلے سے کام کرتے ہیں۔ ہے کوئی مائی کا لال جو ان کی طرف انگلی بھی اٹھا سکے۔ متذکرہ بالا شخص نے بھی اس کاروبار کا لائسنس اپنے بھائی کے نام پر لیا ہے۔
ان کا زیادہ تر وقت اسلحے اور گولیوں کی زیادہ سے زیادہ ترسیل کے لیے صرف ہوتا ہے اور موصوف کو ایک سیاسی جماعت کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی باعثِ تشویش ہے کہ یہ پولیس افسر شہر میں پولیس کے انتہائی اہم شعبوں میں سربراہ کے طور پر بھی ڈیوٹی انجام دے چکا ہے۔ موصوف نے سیکیورٹی ایجنسی اپنے بیٹے کے نام پر کھولی ہے اور اپنے تعلقات کی بِنا پر اس سیکیورٹی ایجنسی کے گارڈ شہر کے مختلف نجی اداروں میں تعینات کروائے گئے ہیں، جنھیں اسلحہ بھی انھی کی دکان سے سپلائی کیا جاتا ہے۔
اس رپورٹ میں ایک اور انکشاف بھی ہے کہ موصوف نے گزشتہ چار برسوں کے دوران نہ صرف غیرمعمولی ترقیاں کیں بلکہ جس طرح سیاست دان ہر پارٹی میں اور اہم جگہوں پر اپنے رشتے داروں کی پوسٹنگ کرواتے ہیں بالکل اسی طرح انھوں نے بھی اپنے خونی رشتے داروں کی بھرتیاں کروا رکھی ہیں۔
آئے دن پولیس کے چھاپوں میں ناجائز اسلحہ پکڑا جاتا ہے۔ میڈیا پر اس کی نمائش بھی ہوتی ہے۔ اخبارات میں تصویریں بھی چھپتی ہیں لیکن کبھی کسی اخباری نمایندے یا ٹی وی چینل کے رپورٹر نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ اسلحہ جسے بڑی خوبصورتی سے میزوں پہ سجا کے رکھا جاتا ہے بالکل اس طرح جیسے پھولوں کی نمایش میں مختلف آرایشی نمونے تو بعد میں یہ اسلحہ کہاں غائب کر دیا جاتا ہے؟
دراصل یہ تمام اسلحہ جو کسی چھاپے میں برآمد ہوتا ہے وہ مبینہ طور پر ایسی ہی دکانوں پہ پہنچ جاتا ہے جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔ یہ اسلحہ اور وہ ہیروئن جو پکڑی جاتی ہے عام طور پر ان پولیس افسران کی دکانوں پر پہنچتا ہے جنھیں کسی نہ کسی سیاسی جماعت، ایم این اے یا ایم پی اے کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔
وہاں سے یہ تگنے چوگنے داموں یا انھی کو واپس کر دیا جاتا ہے جن سے چھاپے کے دوران حاصل کیا گیا تھا یا پھر ان دہشت گردوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے جن کے ذمے شہر کا امن برباد کرنے کا ٹھیکہ ہے۔ یہ شہر کراچی جو 1970 تک دہشت گردی سے محفوظ تھا خدا جانے کیوں ایسے عذابوں سے گزر رہا ہے جس کا مہذب دنیا میں تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن ہمارے ہمسائے بھارت اور سابق مشرقی پاکستان یعنی موجودہ بنگلہ دیش میں بھی اس کا تصور ممکن نہیں۔ خدا جانے کراچی کے شہریوں کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہے۔ قاتلوں کو اس شہر میں کیوں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے جو گولا بارود کا کاروبار کرکے اس شہر کو جہنم بنا رہے ہیں۔ کیا قیامت کے روز ان کے لیے بھی کوئی جہنم ہو گا؟